Inquilab Logo

عالمی کہانیوں کا ترجمہ: کُھلی کھڑکی

Updated: May 26, 2023, 3:29 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

برطانوی مصنف ہیکٹر ہیو منرو عرف ساکی کی شاہکار کہانیThe Open Window (دی اوپن وِنڈو) کی اُردو تلخیص

photo;INN
تصویر :آئی این این

’میری آنٹی اس وقت مکان کے عقبی حصے میں ہوںگی، مسٹر نٹل!‘‘ کرخت آواز والی پندرہ سالہ پر اعتماد لڑکی نے کہا۔ ’’جب تک وہ آتی ہیں، آپ کو میری باتیں برداشت کرنی ہوں گی۔‘‘ 
 فریمٹن نٹل کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن خاموش رہا۔ وہ اعصاب کے دوروں کا شکار تھا۔ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ اجنبیوں سے ملاقات کرنے اور ان سے تعلقات استوار کرنے پر آپ کے اعصاب پرسکون رہیں گے۔ نٹل نہیں جانتا تھا کہ ڈاکٹر کس حد تک درست ہے لیکن وہ اسی سلسلے میں آج ایک اجنبی کے گھر آیا تھا۔ 
 ’’میں جانتی ہوں تم وہاں جاکر کیا کروگے!‘‘ اس دیہات میں آنے سے قبل ٹنل کی بہن نے اس سے کہا تھا۔ ’’تم وہاں اپنے آپ کو گھر میں قید کرلوگے اور کسی بھی انسان سے بات چیت نہیں کروگے۔ اس سے تمہارے اعصاب مزید متاثر ہوں گے۔ تمہیں اپنے اعصاب کو پرسکون رکھنا ہے۔ میں تمہیں چند ایسے افراد کے نام خطوط دوں گی جنہیں میں وہاں جانتی ہوں۔ ان میں سے بعض بہت اچھے انسان ہیں۔‘‘ فریمٹن سوچ رہا تھا کہ مسز سیپلٹن جنہیں وہ یہ خط دینے آیا ہے، ان کا شمار اچھے انسانوں میں ہوتا ہے یا نہیں! 
 ’’کیا تم یہاں بہت سے لوگوں کو جانتے ہو؟‘‘ بھتیجی نے فریمٹن سے سوال پوچھا جو کافی دیر سے خاموش بیٹھا تھا۔ 
 فریمٹن نے کہا، ’’بمشکل ہی کسی کو جانتا ہوں۔ میری بہن چار سال پہلے یہیں رہتی تھی۔ کیا تم اسے جانتی ہو؟ اسی نے مجھے گاؤں کے چند افراد کے پاس خطوط پہنچانے کیلئے کہا ہے۔‘‘ فریمٹن نے آخری جملہ کچھ ندامت سے ادا کیا۔ 
 ’’تو پھر آپ میری آنٹی کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے؟‘‘ نوجوان لڑکی نے فریمٹن کو بغور دیکھتے ہوئے پوچھا۔ 
 ’’صرف ان کا نام اور پتہ جانتا ہوں،‘‘ فریمٹن نے اعتراف کیا۔ اس کا خیال تھا کہ مسز سیپلٹن شادی شدہ یا بیوہ ہوں گی۔ تاہم، کمرے کی حالت بتارہی تھی کہ اس گھر میں مرد بھی رہتے ہیں۔ 
 ’’ان کے ساتھ ۳؍ سال پہلے ایک خوفناک سانحہ پیش آیا تھا،‘‘ لڑکی نے کہا ’’شاید اس وقت تمہاری بہن یہیں رہتی ہوں۔‘‘ 
 ’’خوفناک سانحہ؟ مطلب؟‘‘ فریمٹن نے پوچھا۔
 ’’کیا آپ کو یہ سوچ کر حیرانی نہیں ہورہی ہے کہ ہم نے اکتوبر کے اس موسم میں، دوپہر کے وقت اُس کھڑکی کو کھلا کیوں رکھا ہے؟‘‘ لڑکی نے ایک بڑی سی فرانسیسی کھڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جو ایک لان میں کھلتی تھی۔
 ’’اس ماہ کافی گرمی ہوتی ہے، شاید اس لئے، لیکن کھڑکی کا سانحہ سے کیا تعلق ہے؟‘‘ فریمٹن نے پوچھا۔
 ’’۳؍ سال قبل میری آنٹی کے شوہر اور دو نوجوان بھائی اپنے چاکلیٹی رنگ کے شکاری کتے اسپینیل کے ساتھ اسی کھڑکی سے شکار کیلئے نکلے تھے لیکن پھر کبھی واپس نہیں آئے۔ انہوں نے شکار کے اپنے پسندیدہ مقام پر پہنچنے کیلئے ایک شارٹ کٹ راستہ لیا تھا، اور راستے میں آئی ایک دلدل میں پھنس گئے۔ اس وقت شدید گرمی تھی۔ اس سانحہ کا سب سے خوفناک پہلو یہی ہے کہ آج تک ان کی لاشیں نہیں ملیں۔ ‘‘ یہ جملہ کہنے پر لڑکی کی آواز سے کرختگی ختم ہوگئی، اور اس میں کپکپاہٹ آگئی۔ ’’بے چاری آنٹی ہمیشہ سوچتی ہیں کہ وہ تینوں کسی بھی دن لوٹ آئیں گے اور شکار کی اپنی بندوقوں سمیت اسی کھڑکی سے اندر داخل ہوں گے اسی لئے آنٹی روزانہ غروب آفتاب تک یہ کھڑکی کھلی رکھتی ہیں۔ بے چاری آنٹی ! وہ اکثر مجھے بتاتی ہیں کہ اس دن تینوں کیسے باہر گئے تھے۔ ان کے شوہر نے سفید واٹر پروف کوٹ اپنے کندھے پر لٹکایا ہواتھا۔ چھوٹا بھائی رونی ایک فرانسیسی گانا گنگنارہا تھا جو وہ اکثر اپنی بہن کو پریشان کرنے کیلئے گایا کرتا تھا۔ کیا تم جانتے ہو، اس طرح کی خاموش شاموں میں کبھی کبھی مجھے ایک خوفناک احساس ہوتا ہے کہ غالباً وہ تینوں اب اس کھڑکی سے داخل ہوں گے۔‘‘
 پھر وہ ہلکی ہچکیاں لے کر رونے لگی۔ 
 آنٹی کو کمرے میں آتا دیکھ کر فریمٹن نے راحت کا سانس لیا۔ ’’مجھے امید ہے کہ وِیرا نے آپ کو اکتاہٹ کا شکار نہیں ہونے دیا ہوگا!‘‘ ’’جی بالکل نہیں! وہ ایک اچھی لڑکی ہے!‘‘ فریمٹن نے کہا۔
 ’’مجھے امید ہے کہ آپ کو کھلی کھڑکی پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا،‘‘ مسز سیپلٹن نے تیزی سے کہا۔ ’’میرے شوہر اور بھائی شکار سے لوٹیں گے، وہ ہمیشہ اسی راستے سے اندر آتے ہیں۔ آج وہ دلدل والے راستے سے گئے ہیں، اور مجھے یقین ہے کہ ان کے جوتوں سے آج میرا قالین خراب ہوجائے گا۔‘‘
 مسز سیپلٹن شکار اور پرندوں کی کمی اور سردیوں میں بطخ کے ہونے کے امکانات کے بارے میں بات کررہی تھیں۔ لیکن فریمٹن کیلئے یہ کسی بھیانک خواب کی طرح تھا۔ اس نے بات کو کسی دوسرے موضوع کی طرف موڑنے کی ایک مایوس لیکن جزوی طور پر کامیاب کوشش کی۔ اسے محسوس ہوا کہ میزبان بار بار کھلی کھڑکی کی جانب دیکھ رہی ہیں۔ یہ اتفاق ہی تھا کہ فریمٹن، تینوں کی برسی والے دن اُن کے گھر آیا تھا۔
 ’’ڈاکٹر نے مجھے مکمل آرام، ذہنی سکون اور پرتشدد باتوں اور مشمولات سے گریز کرنے کا مشورہ دیا ہے، ‘‘ فریمٹن نے بغیر سوچے سمجھا کہنا شروع کیا۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ اجنبی اس کی اس بات پر کس قسم کے ردعمل کا اظہار کریں گے۔
 ’’نہیں؟‘‘ مسز سیپلٹن نے جمائی لیتے ہوئےکہا۔ پھر اچانک وہ چوکنا ہوکر بیٹھ گئیں لیکن فریمٹن کی باتوں کی وجہ سے نہیں بلکہ وجہ کچھ اور تھی۔ 
 ’’یہ لو، آخرکار وہ آگئے۔ عین چائے کے وقت پر۔ ایسا لگ رہا ہے کیچڑ میں کھیل کر آئے ہیں۔‘‘ 
 یہ سنتے ہی فریمٹن خوف سے کانپ گیا اور ہمدردی کے اظہار کے تحت بھتیجی کی جانب مڑا۔ لڑکی کھلی کھڑکی سے باہر گھور رہی تھی اور اس کی آنکھوں میں خوف سمایا ہوا تھا۔ فریمٹن کی ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر دوڑ گئی، اس نے کرسی پر گھومتے ہوئے کھڑکی کی جانب دیکھا۔ 
 گہرے دھندلکے میں تین افراد لان کے پار کھڑکی کی طرف آ رہے تھے۔ ان کے بازوؤں پر شکار کی بندوقیں لٹکی ہوئی تھیں، اور ان میں سے ایک کے کندھوں پر سفید کوٹ تھا۔ ان کے ساتھ چاکلیٹی رنگ کا ایک شکاری کتا بھی تھا۔ وہ گھر کے قریب پہنچے، اور پھر ایک نوجوان کی گنگنانے کی ہلکی سی آواز آئی۔ یہ نوجوان کوئی فرانسیسی گیت گارہا تھا۔ 
 یہ ہیولے کسی بھوت کی طرح لگ رہے تھے۔ فریمٹن نے اپنی چھڑی کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ اپنی ٹوپی اٹھائی اور پھر ان کی طرف دیکھے بغیر دروازے کی طرف بھاگا۔ ڈرائیو وے پر بھاگتے ہوئے اس کے جوتوں تلے بجریوں کی آواز عجیب سی محسوس ہورہی تھی۔ سڑک پر آتے ہی وہ ایک سائیکل سوار سے ٹکراتے ٹکراتے بچااور پھر تیزی سے اپنے گھر کی جانب بھاگا۔ 
 ’’ہم آگئے ، ڈیئر!‘‘  سفید کوٹ اٹھائے شخص نے کھڑکی سے اندر آتے ہوئے کہا۔’’ہم پر کافی کیچڑ لگا ہوا ہے لیکن یہ اب خشک ہوچکا ہے۔ وہ کون تھا جو ہمیں دیکھتے ہی یہاں سے نکل گیا؟‘‘ 
 ’’ایک انتہائی غیر معمولی آدمی، مسٹر نٹل،‘‘ مسز سیپلٹن نے کہا۔ ’’وہ اپنی بیماری کے بارے میں بات کررہا تھا، اور پھر بغیر الوداع کہے یہاں سے اچانک بھاگ گیا۔ وہ بالکل اس طرح بھاگا جیسے اس نے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو۔ ‘‘
 ’’مجھے لگتا ہے کہ وہ اسپینیل کی وجہ سے گھبرا گیا،‘‘ بھتیجی نے سکون سے کہا۔ ’’اس نے مجھے بتایا تھا کہ اسے کتوں سے ڈر لگتا ہے۔ ایک بار گنگا کے کنارے واقع قبرستان میں آوارہ کتوں کے ایک ٹولے نے اسے گھیر لیا تھا۔ ان سے بچنے کیلئے اسے ایک تازہ کھودی گئی قبر میں رات گزارنی پڑی تھی۔ وہ اس کی زندگی کی ایک خوفناک را ت تھی۔ مسٹر نٹل نے مجھے یہ بھی بتایا کہ اس واقعے کے سبب وہ اعصابی مریض بن گیا ہے۔ ‘‘
 کم وقت میں کہانیاں گھڑ لینا ۱۵؍ سالہ وِیرا کی خاصیت تھی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK