Inquilab Logo

باکمال طوطا

Updated: January 13, 2024, 2:42 PM IST | Nazia Anwar Shehzad | Mumbai

نعمان اور عثمان، دونوں دوست اسکول سے نکلے تو نعمان اپنے والد کے ساتھ گھر چلا گیا جبکہ عثمان اکیلا ہی گھر کی طرف چل پڑا۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

نعمان اور عثمان، دونوں دوست اسکول سے نکلے تو نعمان اپنے والد کے ساتھ گھر چلا گیا جبکہ عثمان اکیلا ہی گھر کی طرف چل پڑا۔ ابھی کچھ دور ہی چلا ہو گا کہ ایک جگہ اسے بچوں کا ہجوم نظر آیا۔ اس نے بچوں کو ہٹا کر دیکھا تو ایک بڑے میاں زمین پر بیٹھے اپنے ہاتھوں سے کچھ ٹٹول رہے تھے اور سب بچے ان پر ہنس رہے تھے۔ وہ آگے بڑھا اور قریب پڑا چشمہ اٹھا کر صاف کیا اور ان بزرگ کی آنکھوں پر لگا دیا۔ پھر ان کی لاٹھی بھی اٹھا کر ان کے ہاتھوں میں تھما دی۔ بزرگ کپڑے جھاڑتے ہوئے کھڑے ہو گئے۔ 
 عثمان نے سارے بچوں کو ڈانٹ کر بھگا دیا اور کہا ’’آئیے بابا جی! میں آپ کو آپ کے گھر تک چھوڑ آؤں ۔‘‘’’ارے بیٹا! تمہارا بہت شکریہ، یہ بچے بلاوجہ مجھے تنگ کر رہے ہیں ۔ یہاں نزدیک ہی میرا گھر ہے۔‘‘
 بزرگ چلتے چلتے بتا رہے تھے۔ پھر وہ ایک بوسیدہ سی جھوپڑی کے قریب رک کر بولے’’بس بیٹا! یہی مجھ غریب کا ٹھکانا ہے۔‘‘ ’’اچھا بابا! اجازت دیجئے، میرے لائق کام ہو تو ضرور بتائیے گا۔‘‘ عثمان نے ادب سے کہا۔’’ٹھہرو بیٹا!‘‘ بابا جی نے عثمان کو روکا اور اندر چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد آئے تو ان کے ہاتھ پر ایک سبز رنگ کا طوطا بیٹھا ہوا تھا۔
 ’’لو بیٹا! یہ تمہارا انعام ہے، یہ خاص طوطا ہے، جس کے پاس ہو، وہ سچ بولنے لگتا ہے۔ اگر کوئی مشکل پیش آئے تو طوطا اس کا حل بھی بتا دیتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ اسے اس طوطے کی خاصیت کے بارے میں پتا نہ ہو۔‘‘ عثمان اس عجیب و غریب طوطے کے بارے میں سن کر بہت حیران ہوا۔بابا جی نے پھر کہا’’یہ میں تمہیں سونپ رہا ہوں ۔ اس کی حفاظت کرنا۔ یہ تمہارے بہت کام آئے گا، مگر خبردار! جو تم نے کسی اور کو اس کے بارے میں بتایا تو لوگ اسے اور تمہیں نقصان پہچانے کی کوشش کریں گے۔ اب جاؤ، تمہارے گھر والے پریشان ہو رہے ہوں گے۔‘‘عثمان نے طوطا لے کر شکریہ ادا کیا اور گھر کی طرف چل دیا۔
 گھر والوں کو اس نے بتایا کہ یہ طوطا اس نے اپنے جیب خرچ سے خریدا ہے۔ چونکہ طوطا بولتا بھی تھا، اس لئے سب کو پسند آیا۔ شام کو عثمان ہوم ورک کر رہا تھا۔ حساب کا ایک سوال بہت دشوار تھا، ا س کی سمجھ میں نہ آیا۔ طوطا وہیں بیٹھا تھا، اس نے فوراً اس کا حل بتا دیا۔ عثمان حیران رہ گیا۔ تب سے عثمان کو طوطا اور بھی عزیز ہو گیا۔ ایک دوست کی طرح وہ اس سے باتیں کرتا۔ 
 اس نے اپنے دوست نعمان کو بھی اپنا طوطا دکھایا ’’نعمان! یہ طوطا میرا بہت اچھا دوست ہے اور بہت اچھی اچھی باتیں کرتا ہے۔‘‘عثمان کی بات سن کر نعمان بہت حیران ہوا۔ وہ یہ تو جانتا تھا کہ طوطے بولتے بھی ہیں ، مگر اتنی صاف زبان میں بول لیتے ہیں ، یہ نہیں پتا تھا۔ نعمان نے بڑھ کر طوطے کو اپنے ہاتھ پر بٹھا لیا اور اس سے باتیں کرنے لگا۔ اچانک عثمان کو شرارت سوجھی اس نے سوچا کہ کیوں نہ اس طوطے کا امتحان لیا جائے۔ چنانچہ اس نے نعمان سے مختلف سوال کرنے شروع کر دیئے۔ عجیب طریقے سے نعمان نے بالکل صحیح جواب دیئے۔ اب عثمان کو یقین ہو گیا کہ واقعی بزرگ نے طوطےکے متعلق صحیح کہا تھا۔ عثمان نے یہ راز صرف اپنے تک محدود رکھا۔ وہ نعمان سے کل اسکول میں ملنے کا کہہ کر طوطےکے ساتھ گھر آ گیا۔گھر پہنچا تو اس کے تایا کے بیٹے سفیر آئے ہوئے تھے۔ عثمان کی سفیر بھائی سے بہت دوستی تھی۔ سفیر بھائی ایک دیانتدار پولیس آفیسر تھے۔ پورے محکمے میں ان کی سچائی کی شہرت تھی۔ ہر شخص ان سے کوئی غلط بات کرتے ہوئے ڈرتا تھا۔ عثمان کو سفیر بھائی اس لئے بھی پسند تھے کہ وہ جرائم کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ کرنا چاہتے تھے۔ وہ اکثر چوری، ڈکیتی کی وارداتوں کی تفصیل اسے سناتے رہتے تھے۔عثمان انہیں دیکھ کر کھل اٹھا۔
 عثمان نے ان سے بڑی گرم جوشی سے ہاتھ ملایا۔سفیر بھائی نے کہا’’کچھ مصروفیت کے سبب کئی دنوں سے نہیں آسکا۔ ایک کیس نے بری طرح الجھا رکھا ہے۔ آج بھی اس علاقے میں اپنے کام سے آیا ہوں ۔‘‘ عثمان اور سفیر بھائی بات کر رہے تھے کہ طوطا بول پڑا’’مجھ سے دوستی کرو گے؟‘‘ سفیر بھائی چونک کر حیرت سے ادھر ادھر دیکھنے لگے، ان کے اس طرح دیکھنے پر عثمان ہنس پڑا اور بولا’’ سفیر بھائی! میں آپ کو اپنے دوست سے ملوانا بھول گیا۔ یہ میرا پیارا طوطا ہے، جو خوب باتیں کرتا ہے۔‘‘
 سفیر بھائی نے تعجب سے طوطے کو دیکھا، جو مسلسل بول رہا تھا۔ اچانک عثمان نے سوچا کہ کیوں نہ وہ سفیر بھائی کو طوطے کی اصلیت بتا دے۔ اس طرح یہ ملک جرائم سے پاک ہوجائے گا۔ سفیر بھائی بھی سنگدل نہیں ہیں کہ یہ مجھے اور میرے مٹھو کو مار دیں گے۔ آخر کچھ سوچنے کے بعد عثمان نے ان سے راز داری کا وعدہ لے کر حقیقت بتا دی۔ سفیر بھائی کو یقین نہیں آیا۔ پھر بھی انہوں نے کہا کہ وہ آزما کر دیکھیں گے اور کسی کو نہیں بتائیں گے۔ عثمان نے وہ طوطا سفیر بھائی کو اس وعدے کیساتھ دیدیا کہ وہ اس کی ہر طرح حفاظت کریں گے۔اگلے ہفتے عثمان نے سفیر بھائی سے ملاقات کی اور طوطے کو واپس مانگا’’ سفیر بھائی! آپ میرا طوطا دے دیں ، جب آپ کو ضرورت ہو آپ لے لیا کریں ۔‘‘ سفیر بھائی نے اس کی طرف دیکھا اور کہا ’’عثمان! واقعی تم صحیح کہہ رہے تھے، میں اس طوطےکے ذریعے کافی کیس حل کر چکا ہوں اور مزے کی بات یہ ہے کہ مجرم کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ کتنی اہم معلومات سے پردا اٹھا چکا ہے۔ میں نے ان سب مجرموں کے بیانات ریکارڈ کر لئے ہیں تاکہ کسی شک و شبہے کی گنجائش نہ رہے۔‘‘
 ان ہی دنوں شہر میں چوری کی وارداتیں بڑھ گئیں ۔ موبائل فون چھیننا عام ہو گیا۔ لوگ خوف کی وجہ سے زیادہ رقم جیبوں میں نہیں رکھتے تھے۔ پولیس کے محکمے پر دباؤ ڈالا جا رہا تھا کہ جلد سے جلد مجرموں کو گرفتار کر کے انہیں سزا دی جائے۔سفیر بھائی بھی بہت پریشان تھے۔ آخر انہوں نے ایک مجرم کوپکڑ لیا۔ ہوا کچھ یوں کہ عثمان کے مشورے سے اور ایک منصوبے کے تحت کچھ لوگ سادہ لباس میں ایک بس میں چڑھے اور نوٹوں کی گڈیاں جیب سے نکال کر گننے لگے۔ اسی بس میں کچھ دوسرے بہادر پولیس کے جوان بھی سادہ لباس میں موجود تھے۔ وہ نوٹ گن کر رکھ چکے تھے۔ تھوڑی دیر بعد ایک آدمی نے شور مچا دیا کہ میرا موبائل چوری ہو گیا۔ اس نے سب سے کہا کہ میرے موبائل فون پر ایک بیل دے دو۔ اس نے نمبر بتایا۔ لوگوں نے ہمدردی میں نمبر ملانے کیلئے اپنے اپنے موبائل فون جیبوں سے نکال لئے۔ اچانک وہ آدمی کھڑا ہو گیا اور پستول نکال کر سب کے موبائل اور نقدی چھیننے لگا۔ اس کے چار ساتھی پہلے ہی اس بس میں سوار تھے۔ وہ بھی اچانک کھڑے ہو گئے۔
 سفیر نے بھی جھٹ سے اپنا ریوالور نکال لیا’’خبردار! اپنی جگہ سے نہیں ہلنا، تم پولیس کے نشانے پر ہو۔‘‘ 
 اتنی دیر میں ڈرائیور نے بس روک دی۔ وہ ڈاکو بدحواس ہو کر دروازے کی طرف بھاگے، مگر وہاں سادہ لباس میں پولیس والے پہلے ہی موجود تھے۔ سپاہیوں نے انہیں گرفتار کر لیا۔ یوں انسپکٹر سفیر نے ان کے گروہ کے اہم افراد کو پکڑ لیا۔ بعد میں مجرم نے طوطے کی وجہ سے سب کچھ اگل دیا۔ اپنا نام، اڈے کا پتا اور کئی وارداتیں بھی جو اس نے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کی تھیں ۔ کتنے ہی غریب لوگ اس کے ہاتھوں نقصان اٹھا چکے تھے۔
 انسپکٹر سفیر نے اپنے ماتحتوں کے ساتھ مل کر ان کے ٹھکانوں پر چھاپے مارے۔ وہاں سے بڑی تعداد میں لوٹی ہوئی رقم، موبائل فون، زیورات وغیرہ برآمد ہوئے۔
 حکومت نے انسپکٹر سفیر کو نقد انعام دیا۔ ہر جگہ ان کی شہرت ہو گئی۔ ان کی فرض شناسی اور دیانتداری دیکھ کر کتنے ہی نوجوان متاثر ہو گئے اور ان جیسا بننے کی کوشش کرنے لگے۔ شام کو وہ عثمان کے گھر آئے اور عثمان سے بولے ’’عثمان! یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے۔ نہ تم طوطے کی خاصیت بتاتے، نہ میں ان مجرموں تک پہنچ پاتا۔
 عثمان مسکرایا اور بولا’’سفیر بھائی! یہ آپ کی نیت کا پھل ہے۔ آپ ہی نے یہ سب کیا ہے۔ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر ان مجرموں کو پکڑا ہے۔ میں کیا سب ہی آپ کو خراج تحسین پیش کر رہے ہیں ۔‘‘
 ’’تو کیا خیال ہے طوطا واپس چاہئے یا ملک کی خدمت کیلئے پیش کرو گے؟‘‘ سفیر بھائی کے پوچھنے پر عثمان نے کچھ لمحے سوچا، پھر کہنے لگا’’شاید اللہ نے یہ طوطا اسی لئے دیا ہے تاکہ میں اس کے ذریعے ملک کے کام آ سکوں ۔‘‘ سفیر بھائی خوش ہو کر طوطا اپنے ساتھ لے گئے۔
 انہی دنوں ملک میں بم دھماکوں کے واقعات بڑھ گئے تھے۔ کوئی جگہ محفوظ نہیں رہی تھی۔انسپکٹر سفیر کو کسی مستند ذریعے سے خبر ملی تھی کہ آج ایک ہوائی جہاز سے جرائم پیشہ گروہ کا سرغنہ ملک سے باہر جا رہا ہے۔
 انسپکٹر سفیر نے ایئرپورٹ سے ایک شخص کو حراست میں لیا تھا، جو مشکوک حرکتیں کرتا ہوا پکڑا گیا تھا۔ اس شخص کو فلائٹ کے بارے میں مکمل معلومات تھیں ۔ انسپکٹر سفیر نے طوطے کو اس شخص کے سامنے بٹھا دیا۔ کچھ ہی دیر میں ساری معلومات حاصل ہو گئیں ۔
 اسی دوران مجرموں میں سے کسی نے یہ خبر اڑا دی کہ عمارت میں بم ہے۔ اس افواہ سے ایئر پورٹ پر بھگدڑ مچ گئی۔ مجرم اس بھگدڑ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہو رہے تھے۔ افواہ کی اطلاع پر پولیس، رینجرز کی بھاری نفری پہنچ گئی۔ انسپکٹر نے اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے بھاگتے مجرموں کو پکڑ لیا۔ اس اچانک صورتحال سے مجرم بدحواس ہو گئے اور تمام نے ہتھیار ڈال دیئے۔
 دوسرے روز اخبارات انسپکٹر سفیر کے کارناموں سے بھرے پڑے تھے۔ ٹی وی پر ان کے بارے میں خبر آ رہی تھی کہ ’’ملک کے جانباز انسپکٹر سفیر نے اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے ملک کے بڑے مجرموں کو ختم کر دیا۔ ایک ڈاکو کی گولی سے طوطا اور انسپکٹر سفیر شہید ہو گئے۔‘‘
 عثمان ضبط کے کڑے مراحل سے گزر رہا تھا۔ اس کا پیارا طوطا اور جان سے پیارے بھائی شہید ہو گئے، لیکن سارے مجرموں کو سزا ہو گئی۔ ملک میں امن و امان قائم ہو گیا۔ عوام نے انسپکٹر سفیر کو خراج تحسین پیش کیا۔ ایک افسر کی فرض شناسی سے کتنا فائدہ ہوا۔ اگر سب ہی فرض شناس ہو جائیں تو پوری دنیا جنت بن جائے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK