Inquilab Logo

دنیا کی یہ ۵؍ معروف اور اہم ایجادات ہندوستانیوں نے کی

Updated: August 21, 2020, 5:38 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

دنیا کی قدیم تہذیبوں میں سے ایک ہونے کے ناتے اس بات پر حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ ہمارے ملک نے دنیا کو کئی اہم چیزیں دیں ۔ دیکھا جائے تو ہندوستانی ایجادات اور دریافتوں کی فہرست کافی طویل ہے۔ ہمارے ملک نے فن تعمیرات ، فلکیات، نقاشی، تصورات، منطق ، ریاضی اور معدنیات جیسے کئی شعبوں میں اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا ہے۔ آج بھی ہمارے ملک کے نوجوان سائنس اورتکنالوجی، آٹوموبائل، انجینئرنگ، انفارمیشن تکنالوجی اور خلائی سائنس جیسے کئی اہم اور ابھرتے ہوئے میدانوں میں ایجادات اور دریافت کررہے ہیں ۔

For Representation Purpose Only. Photo INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

دنیا کی قدیم تہذیبوں میں سے ایک ہونے کے ناتے اس بات پر حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ ہمارے ملک نے دنیا کو کئی اہم چیزیں دیں ۔ دیکھا جائے تو ہندوستانی ایجادات اور دریافتوں کی فہرست کافی طویل ہے۔ ہمارے ملک نے فن تعمیرات ، فلکیات، نقاشی، تصورات، منطق ، ریاضی اور معدنیات جیسے کئی شعبوں میں اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا ہے۔ آج بھی ہمارے ملک کے نوجوان سائنس اورتکنالوجی، آٹوموبائل، انجینئرنگ، انفارمیشن تکنالوجی اور خلائی سائنس جیسے کئی اہم اور ابھرتے ہوئے میدانوں میں ایجادات اور دریافت کررہے ہیں ۔ ہمارے ملک کا شمار اب بھی ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے ، اس کے باوجود ہندوستانیوں کی صلاحیتوں سے دنیا انکار نہیں کرسکتی۔ قدیم ہندوستان میں بھی کئی اہم ایجادات کی گئی تھیں ۔ کھیل ہو، ریاضی ہو، علم نجوم ہو یا ادویات کا شعبہ ، ہندوستانیوں نے ہر میدان میں پیش رفت کی تھی اوردنیا تک نئی نئی چیزیں پہنچائی تھیں ۔ 
 یہ درست ہے کہ اس وقت جدید سائنس اور ٹیکنالوجی نہ ہونے کے سبب متعدد ایجادات بر صغیر تک ہی محدود ہوکر رہ گئی تھیں لیکن جب عربوں ، ایرانیوں ، پرتگالیوں اور دیگر قوموں نے ہندوستان کا رخ کیا تو انہوں نے یہاں استعمال ہونے والی بیشتر چیزوں کو دنیا کے دیگر ممالک تک پہنچایا اور پھر رفتہ رفتہ نہ صرف ہمارا ملک دنیا بھر میں مشہور ہوگیا بلکہ ان چیزوں میں ردوبدل کرکے انہیں مزید بہتر بنایا گیا۔
 ہم تمام ہندوستانی اپنے ملک کی تہذیب و ثقافت اور تنوع پر فخر محسوس کرتے ہیں ۔ تاہم، ایک طالب علم ہونے کے ناتے یہ ضروری ہے کہ آپ اپنے ملک کے متعلق مزید جانیں تاکہ آپ کا سر فخر سے ہمیشہ بلند رہے۔ جانئے ایسی ہی ۵؍ اہم چیزوں کے بارے میں جو ہندوستان میں ایجاد کی گئیں ۔
زیرو
 چیزوں کو گننے کیلئے یوں تو نمبر برسوں پہلے ایجاد کرلئے گئےتھے۔ لیکن زیرو (صفر) کا نشان ایجاد نہیں ہوا تھا۔ مؤرخین کے مطابق ہندوستان نے یہ نمبر ایجاد کیا ہے۔ دنیا بھر میں دستیاب مختلف دستاویزات میں یہ درج ہے کہ دوسری صدی ہی میں ہندوستانیوں نے زیرو کا استعمال شروع کردیا تھا۔ تاہم، اس کا باقاعدہ اعلان پانچویں صدی میں آریہ بھٹ نے کیا۔ آریہ بھٹ ایک ماہر علم نجوم اور ریاضی داں تھے جو پاٹلی پتر (پٹنہ) میں ۴۸۶ء میں پیدا ہوئے تھے۔ صفر کو ایک نشان کے طور پر ہندوستان میں صدیوں سے استعمال کیا جارہا ہے۔ ہندوستانی اسے ریاضی کے پیچیدہ سوالات حل کرنے کیلئے استعمال کرتے تھے البتہ بابل کے افراد اسے غیر حاضری کا نشان لگانے کیلئے استعمال کرتے تھے۔ زیرو کا نشان ایجاد ہونے سے قبل زیرو لکھنے کیلئے ایک لکیر استعمال کی جاتی تھی جس کی وجہ سے دستاویزات پڑھنا مشکل ہوجاتا تھا۔ بیشتر مؤرخین کا خیال ہے کہ زیرو کا نشان سب سے پہلے برہما گپتا نے دوسری صدی میں بنایا تھا۔ ان کا تعلق بھی ہندوستان سے تھا۔
آیورویدک
 مختلف بیماریوں کے علاج کیلئے قدیم ہندوستان میں آیورویدک کا سہارا لیا جاتا تھا۔ آیور وید برصغیر کا ایک قدیم طبی نظام ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ نظام ہندوستان میں ۵؍ ہزار سال پہلے شروع ہوا تھا۔آیور وید دو سنسکرت الفاظ ’’آیوش‘‘ جس کا معنی ’’زندگی‘‘ ہے اور ’’وید‘‘ جس کا معنی ’’سائنس‘‘ ہے، سے مل کر بنا ہے، اس لئے اس کا لغوی معنی ہے ’’زندگی کی سائنس۔‘‘ دیگر ادویاتی نظاموں کے برعکس، آیور وید بیماریوں کے علاج کے بجائے صحت مند طرز زندگی پر زیادہ توجہ مرکوز کرتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ہندوستان میں بابائے آیوروید اچاریہ چرک کو کہا جاتا ہے۔ آیوروید کے مطابق انسانی جسم چار بنیادی عناصر سے مل کر بنا ہے: دوش (مرض)، دھاتو (دھات)، مَل (آلودگی) اور اگنی (آگ)۔ آیور وید میں جسم کی ان بنیادی باتوں کی بہت اہمیت ہے۔ ایلوپیتھی طریقہ علاج کے آنے کے بعد یہ زیادہ مقبول نہیں رہ گیا تھا لیکن گزشتہ چند برسوں میں یہ تیزی سے مشہور ہوا ہے اور آج بیشتر بیماریوں کے علاج کیلئے اس شعبے کی جانب توجہ دی جارہی ہے۔
شطرنج
 آج شطرنج دنیا بھر میں بہت مقبول ہے اور اس کا شمار دماغ کو تیز کرنے والے کھیلوں میں ہوتا ہے۔ یہ کھیل ہندوستان میں ایجاد اور تخلیق کیا گیا تھا۔ یہ کھیل ذہنی حکمت عملی پر مبنی ہوتا ہے۔ اِس کا قدیم نام’’ چَتُرنگ‘‘ تھا جو سنسکرت کے الفاظ چتو (چار) اور رانگا (بازو) سے نکلا ہے۔ چونکہ عربی میں ’’چ‘‘ اور ’’گ‘‘ کے حروف تہجی نہیں ہوتے اسلئے عربوں اور ایرانیوں نے اسے شطرنج کا نام دیا اور پھر یہ اسی نام سے مشہور ہوگیا۔قدیم زمانے میں یہ ایک شاہی کھیل خیال کیا جاتا تھا جو خاص طور پر شہزادوں کو سکھایا جاتا تھا۔ یورپ اور دنیا کےدیگر حصوں میں یہ کھیل ایران سے پہنچا۔ شطرنج کو دنیا بھر میں پھیلانے کا سہرا سعودی عرب اور ایران کے سر ہی بندھتا ہے۔ مؤرخین کے مطابق اس کھیل کی ایجاد شمالی ہند کی گپتا سلطنت سے ہوئی تھی۔ شطرنج کا کھیل اور اس کے قواعد و ضوابط مختلف ادوار میں تبدیل ہوتے رہے۔ آج جن اصول و قواعد کے ساتھ شطرنج کھیلا جاتا ہے اسے معاصر شطرنج کہتے ہیں ۔فی الحال دنیا کے چیس ماسٹر ’’میگنس چارلسن‘‘ ہیں ۔
بٹن
 آج ہر قسم کے لباس میں بٹن کا استعمال کیا جاتا ہے۔ مؤرخین کےمطابق بٹن سب سے پہلے وادی سندھ کی تہذیب میں بنایا گیا تھا۔اس وقت اسے سیپوں سے بنایا جاتاتھا۔کچھ بٹن کو جیومیٹری کی اشکال میں بنایا جاتا تھا اور ان میں صرف ایک سوراخ بنایا جاتا تھا تاکہ اسے دھاگے کی مدد سے کپڑے میں لگایا جاسکے۔ قدیم دور میں بٹن کو ایک زیور کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا تھا اور امیر افراد ہی اسے پہن سکتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تقریباً ہر قسم کے لباس کا لازمی حصہ بن گئے۔ آج عام طور پر پلاسٹک کے بٹن بنائے جاتے ہیں ۔ بٹن کی ایجاد اس لئے کی گئی تھی تاکہ کپڑے پہننے میں زیادہ وقت ضائع نہ ہو۔ خیال رہے کہ اس سے قبل لباس کو ڈوریوں کی مدد سے بند کیا جاتا تھا جسے کھولنے اور باندھنے میں کافی وقت ضائع ہوتا تھا۔ واضح رہے کہ بٹن کس نے ایجاد کیا، اس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ تاہم، کہا جاتا ہے کہ ۱۳؍ ویں صدی میں جرمنی نے بٹن کو اس کی موجودہ شکل دی۔ آج ہیروں سے مزین بٹن بھی بنائے جاتے ہیں ۔
شیمپو
 شیمپو کو اردو میں ’’مصفی زلف‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ زلفوں یا بالوں میں آجانے والی کثافت، دھول، خاک، مردہ ہو کر اتر جانے والی جلد، تیل اور دیگر تمام قسم کی آلودگی کو ختم کرنے کیلئےاستعمال کا جاتا ہے۔شیمپو ایک انگریزی لفظ ہے۔ تاہم، یہ ہندی لفظ چمپو سے نکلا ہے۔ شیمپو ۱۷۶۲ء میں مختلف جڑی بوٹیوں کو ملا کر بنایا گیا تھا۔ قدیم ہندوستان میں سب سے پہلا شیمپو چند مختلف جڑی بوٹیوں کے ساتھ ریٹھا اور آملہ کو ابال کر بنایا گیا تھا۔ یہ شیمپو اس وقت بہت مشہور ہوگیا تھا اور بالوں پر اس کے زبردست اثرات نظر آئے تھے۔ آج بھی جس شیمپو میں یہ دونوں اجزاء ہوتے ہیں اسے بہترین خیال کیا جاتا ہے۔ تاہم، شیمپو کو یورپ میں پھیلانے کا سہرا مغربی بنگا ل کے شیخ دین محمد کے سر بندھتا ہے۔ انہوں نے برطانیہ میں شیمپو کی ایک فیکٹری قائم کی تھی اور اس طرح شیمپو پوری دنیا میں پھیل گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی دوران باڈی واش بھی بنایا گیا تھا۔ اس طرح دیکھا جائے تو شیمپو کے ساتھ باڈی واش بھی سب سے پہلے ہندوستانیوں ہی نے بنایا تھا۔

india Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK