Inquilab Logo Happiest Places to Work

آیاتِ سجدہ (پہلی قسط)

Updated: October 27, 2023, 7:52 AM IST | Dr Muhammad Iqbal Khalil | Mumbai

قرآنِ پاک کی تلاوت کے دوران کچھ متعین ایسی آیات آتی ہیں جن پر سجدہ کرنے کا حکم ہے۔ یہ ہمارے پیارے نبی پاکؐ کی سنت مبارکہ ہے۔ ہم جب تلاوتِ قرآنِ پاک کے دوران ان آیات پر سجدہ کرتے ہیں تو اس سنت پرعمل کرتے ہیں اور اپنے رب کے حضور اپنی بندگی اور عاجزی کا اظہار کرتے ہیں۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

دین اسلام میں اللہ کے سوا کسی کے سامنے جھکنے اور سجدہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ حدیث پاک ہے: ’’بندہ (دورانِ نماز) سجدے میں اپنے رب کے زیادہ قریب ہوتا ہے، لہٰذا سجدے میں کثرت سے دعا کیا کرو‘‘۔ (مسلم، کتاب الصلوٰۃ)
مولانا مودودیؒ آیاتِ سجدہ کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’قرآنِ مجید میں ایسے ۱۴؍ مقامات ہیں جہاں آیاتِ سجدہ آئی ہیں ۔ ان آیات پر سجدے کا مشروع ہونا تو متفق علیہ ہے مگر اس کے وجوب میں اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہؒ سجدۂ تلاوت کو واجب کہتے ہیں اور دوسرے علماء نے اس کو سنت قرار دیا ہے۔ نبی کریمؐ بسااوقات ایک بڑے مجمع میں قرآن پڑھتے اور اس میں جب آیت سجدہ آتی تو آپؐ خود بھی سجدے میں چلے جاتے تھے اور جو شخص جہاں ہوتا وہیں سجدہ ریز ہوجاتا تھا، حتیٰ کہ کسی کو سجدہ کرنے کے لئے جگہ نہ ملتی تو وہ اپنے آگے والے شخص کی پیٹھ پر سر رکھ دیتا۔ یہ بھی روایات میں آیا ہے کہ آپؐ نے فتح مکہ کے موقع پر قرآن پڑھا اور اس میں جب آیت ِسجدہ آئی تو جو لوگ زمین پر کھڑے تھے انھوں نے زمین پر سجدہ کیا اور جو گھوڑوں اور اُونٹوں پر سوار تھے وہ اپنی سواریوں پر ہی جھک گئے۔ کبھی آپؐ نے دورانِ خطبہ میں آیت سجدہ پڑھی ہے تو منبر سے اُتر کر سجدہ کیا ہے اور پھر اُوپر جاکر خطبہ شروع کردیا ہے۔ 
اس سجدے کیلئے جمہور انہی شرائط کے قائل ہیں جو نماز کی شرطیں ہیں : ’’یعنی، باوضو ہونا، قبلہ رُخ ہونا اور نماز کی طرح سجدے میں زمین پر سر رکھنا۔ لیکن جتنی احادیث سجود تلاوت کے باب میں ہم کو ملی ہیں ان میں کہیں بھی ان شرطوں کیلئے کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ اُن سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ آیت سجدہ سن کر جو شخص جہاں جس حال میں ہو، جھک جائے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۲، ص۱۱۵۔ ۱۱۶)
مولانا اشرف علی تھانویؒ نے بہشتی زیور میں سجدۂ تلاوت کا باب قائم کیا ہے (ص۳۳) جس میں تفصیل سے سجدۂ تلاوت کے مسائل بیان کئے گئے ہیں ۔ وہ سب تو یہاں نقل کرنا ممکن نہیں لیکن چند مفید نکات ملاحظہ فرمائیں : جس طرح نماز کا سجدہ کیا جاتا ہے اسی طرح سجدۂ تلاوت بھی کرنا چاہئے۔ اگر نماز میں سجدے کی آیت پڑھی اور نماز ہی میں سجدہ نہ کیا تو اب نماز کے بعد سجدہ کرنے سے ادا نہ ہوگا، ایک ہی جگہ بیٹھے بیٹھے سجدے کی آیت کو کئی بار دہرا کر پڑھے تو ایک ہی سجدہ واجب ہے۔ ساری سورت پڑھنا اور سجدے کی آیت کو چھوڑ دینا مکروہ اور منع ہے۔ فقط سجدے سے بچنے کے لئے وہ آیت نہ چھوڑے کہ اس میں سجدے سے گویا انکار ہے۔ 
رمضان المبارک میں صلوٰۃ التراویح میں ختم قرآن کے دوران اور تلاوتِ قرآن کے موقع پر سجدۂ تلاوت کے مواقع اور التزام بالعموم بڑھ جاتا ہے اور ہر خاص و عام، بچہ، بوڑھا، جوان، مرد اور عورت سجدۂ تلاوت باجماعت کرتے ہیں ۔ اس مضمون میں ان تمام آیاتِ سجدہ کو ترتیب سے جمع کرکے ان کا ترجمہ و تفسیر اور شانِ نزول بیان کردی ہے جس طرح وہ قرآن میں موجود ہیں ۔ زیادہ تر حواشی تفہیم القرآن سے لئے گئے ہیں ۔ صرف ایک آیت کی تفسیر، ابن کثیر سے لی گئی ہے۔ اُمید ہے اس مطالعے سے قاری سجدۂ تلاوت کے موقع پر زیادہ خشوع و خضوع کے ساتھ پروردگار عالم کے حضور میں اپنی عجز وانکساری اور کوتاہ دامنی کا اظہار کرسکیں گے، انشاء اللہ۔ 
پہلا سجدہ
’’ جو فرشتے تمہارے رب کے حضور تقرب کا مقام رکھتے ہیں وہ کبھی اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں آکر اس کی عبادت سے منہ نہیں موڑتے، اور اس کی تسبیح کرتے ہیں ، اور اس کے آگے جھکے رہتے ہیں ۔ ‘‘ (اعراف ۷:۲۰۶)
مطلب یہ ہے کہ بڑائی کا گھمنڈ اور بندگی سے منہ موڑنا شیاطین کا کام ہے اور اس کا نتیجہ پستی و تنزل ہے۔ بخلاف اس کے خدا کے آگے جھکنا اور بندگی میں ثابت قدم رہنا ملکوتی فعل ہے اور اس کا نتیجہ ترقی و بلندی اور خدا سے تقرب ہے۔ اگر تم ترقی کے خواہش مند ہو تو اپنے طرزِعمل کو شیاطین کے بجاے ملائکہ کے طرزِعمل کے مطابق بناؤ۔ 
تسبیح کرتے ہیں ، یعنی وہ اللہ تعالیٰ کا بے عیب اور بے نقص اور بے خطا ہونا، ہرقسم کی کمزوریوں سے اس کا منزہ ہونا، اور اس کا لاشریک اور بے مثل اور بے ہمتا ہونا دل سے مانتے ہیں ، اس کا اقرار و اعتراف کرتے ہیں اور دائماً اس کے اظہار و اعلان میں مشغول رہتے ہیں ۔ 
اس مقام پر حکم ہے کہ جو شخص اس آیت کو پڑھے یا سنے وہ سجدہ کرے تاکہ اس کا حال ملائکہ مقربین کے حال سے مطابق ہوجائے اور ساری کائنات کا انتظام چلانے والے کارکن جس خدا کے آگے جھکے ہوئے ہیں اسی کے آگے وہ بھی ان سب کے ساتھ جھک جائے، اور اپنے عمل سے فوراً یہ ثابت کردے کہ وہ نہ تو کسی گھمنڈ میں مبتلا ہے اور نہ خدا کی بندگی سے منہ موڑنے والا ہے۔ (تفہیم القرآن، ج۲، ص ۱۱۵)
دوسرا سجدہ
’’ وہ تو اللہ ہی ہے جس کو زمین و آسمان کی ہرچیز طوعاً و کرہاً سجدہ کر رہی ہے اور سب چیزوں کے سایے صبح و شام اس کے آگے جھکتے ہیں ۔ ‘‘ (الرعد ۱۳:۱۵)
سجدے سے مراد اطاعت میں جھکنا، حکم بجا لانا اور سرتسلیم خم کرنا ہے۔ زمین و آسمان کی ہرمخلوق اس معنی میں اللہ کو سجدہ کر رہی ہے کہ وہ اس کے قانون کی مطیع ہے اور اس کی مشیت سے بال برابر بھی سرتابی نہیں کرسکتی۔ مومن اس کے آگے بہ رضا و رغبت جھکتا ہے تو کافر کو مجبوراً جھکنا پڑتاہے، کیونکہ خدا کے قانونِ فطرت سے ہٹنا اس کی مقدرت سے باہر ہے۔ 
سایوں کے سجدہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ اشیا کے سایوں کا صبح و شام مغرب اور مشرق کی طرف گرنا اس بات کی علامت ہے کہ یہ سب چیزیں کسی امر کی مطیع اور کسی قانون سے مسخر ہیں ۔ (تفہیم القرآن، ج۲، ص ۴۵۱)
اس آیت ِ سجدہ سے پہلے کی آیتوں میں اللہ تبارک و تعالیٰ، کفار کے مشرکانہ طرزِعمل پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’اسی کو پکارنا برحق ہے۔ رہیں وہ دوسری ہستیاں جنھیں اس کو چھوڑ کر یہ لوگ پکارتے ہیں ، وہ اُن کی دعاؤں کا کوئی جواب نہیں دے سکتیں ۔ انھیں پکارنا تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص پانی کی طرف ہاتھ پھیلا کر اُس سے درخواست کرے کہ تو میرے منہ تک پہنچ جا، حالانکہ پانی اس تک پہنچنے والا نہیں ۔ بس اسی طرح کافروں کی دعائیں بھی کچھ نہیں ہیں مگر ایک تیر بے ہدف‘‘۔ اس کے بعد اس اللہ کا ذکر ہے جس کو ہرچیز سجدہ کررہی ہے۔ اس لئے ہم کو بھی اظہارِ عبدیت کے طور پر اور پورے کائنات کے نظام سے ہم آہنگی اختیار کرتے ہوئے اس مقام پر سجدہ کرنا چاہئے۔ 
تیسرا سجدہ
’’ اپنے رب سے جو اُن کے اُوپر ہے، ڈرتے ہیں اور جو کچھ حکم دیا جاتا ہے اسی کے مطابق کام کرتے ہیں ۔ ‘‘(النحل ۱۶:۵۰)
اگر اس سے پہلے کی آیت نمبر ۴۸ کے سے ساتھ ملا کر پڑھیں تو مضمون واضح ہوجاتا ہے: ’’اور کیا یہ لوگ اللہ کی پیدا کی ہوئی کسی چیز کو بھی نہیں دیکھتے کہ اس کا سایہ کس طرح اللہ کے حضور سجدہ کرتے ہوئے دائیں اور بائیں گرتا ہے۔ سب کے سب اِس طرح اظہار عجز کر رہے ہیں ‘‘۔ اس کے بعد فرمایا: ’’زمین اور آسمان میں جس قدر جان دار مخلوقات ہیں اور جتنے ملائکہ ہیں سب اللہ کے آگے سربسجود ہیں ۔ وہ ہرگز سرکشی نہیں کرتے۔ اپنے رب سے جو اُن کے اُوپر ہے، ڈرتے ہیں اور جو کچھ حکم دیا جاتا ہے اسی کے مطابق کام کرتے ہیں ‘‘۔ 
[یہاں ] تمام جسمانی اشیاء کے سایے اس بات کی علامت ہیں کہ پہاڑ ہوں یا درخت، جانور ہوں یا انسان، سب کے سب ایک ہمہ گیر قانون کی گرفت میں جکڑے ہوئے ہیں ، سب کی پیشانی پر بندگی کا داغ لگا ہوا ہے، اُلوہیت میں کسی کا کوئی ادنیٰ حصہ بھی نہیں ہے۔ سایہ پڑنا ایک چیز کے مادی ہونے کی کھلی علامت ہے، اور مادی ہونا بندہ و مخلوق ہونے کا کھلا ثبوت۔ 
[اللہ کے آگے سربسجود ہونے سے مراد یہ ہے کہ صرف] زمین ہی کی نہیں ، آسمانوں کی بھی وہ تمام ہستیاں جن کو قدیم زمانے سے آج تک لوگ دیوی، دیوتا اور خدا کے رشتہ دار ٹھہراتے آئے ہیں دراصل غلام اور تابع دار ہیں ۔ ان میں سے بھی کسی کا خداوندی میں کوئی حصہ نہیں ۔ ضمناً اس آیت سے ایک اشارہ اس طرف بھی نکل آیا کہ جان دار مخلوقات صرف زمین ہی میں نہیں ہیں بلکہ عالم بالا کے سیاروں میں بھی ہیں ۔ یہی بات سورۂ شوریٰ، آیت ۲۹میں بھی ارشاد ہوئی ہے۔ (تفہیم القرآن، ج۲، ص ۵۴۵۔ ۵۴۶)

اس مضمون کا دوسرا حصہ: آیاتِ سجدہ

چوتھا سجدہ
’’ اور وہ منہ کے بل روتے ہوئے گر جاتے ہیں اور اسے سن کر ان کا خشوع اور بڑھ جاتا ہے۔ ‘‘ (بنی اسرائیل ۱۷:۱۰۹)
اگر آیت سجدہ کو پہلے کی دو آیتوں کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو مضمون مکمل ہوجاتا ہے: ’’اے نبی ؐ! ان لوگوں سے کہہ دو کہ تم اسے مانو یا نہ مانو، جن لوگوں کو اس سے پہلے علم دیا گیا ہے، انھیں جب یہ سنایا جاتا ہے تو وہ منہ کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں اور پکار اُٹھتے ہیں : ’’پاک ہے ہمارا رب، اس کا وعدہ تو پورا ہونا ہی تھا‘‘۔ اور وہ منہ کے بل روتے ہوئے گر جاتے ہیں اور اسے سُن کر ان کا خشوع اور بڑھ جاتا ہے‘‘۔ 
یعنی وہ اہلِ کتاب جو آسمانی کتابوں کی تعلیمات سے واقف ہیں اور ان کے اندازِ کلام کو پہچانتے ہیں ، قرآن کو سن کر فوراً سمجھ جاتے ہیں کہ جس نبی کے آنے کا وعدہ پچھلے انبیا کے صحیفوں میں کیا گیا تھا وہ آگیا ہے[اور وہ بے ساختہ پکار اُٹھتے ہیں کہ پاک ہے ہمارا رب، اس کا وعدہ تو پورا ہونا ہی تھا۔ اور اس کے بعد اظہارِ تشکر کے طور پر اور اپنی بندگی کا اظہار کرنے کے لئے سجدے میں گر جاتے ہیں ]۔ صالحین اہلِ کتاب کے اس رویے کا ذکر قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر کیا گیا ہے۔ (تفہیم القرآن، ج۲، ص ۶۴۹۔ ۶۵۰)
پانچواں سجدہ
’’ یہ وہ پیغمبر ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا آدم ؑ کی اولاد میں سے، اور اُن لوگوں کی نسل سے جنھیں ہم نے نوحؑ کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا، اور ابراہیم ؑ کی نسل سے اور اسرائیل ؑ کی نسل سے۔ اور یہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو ہم نے ہدایت بخشی اور برگزیدہ کیا۔ ان کا حال یہ تھا کہ جب رحمان کی آیات ان کو سنائی جاتیں تو روتے ہوئے سجدے میں گرجاتے تھے۔ ‘‘ (مریم ۱۹:۵۸)
اس آیت سجدہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے انبیاء ؑ کی جماعت کا ذکر کیا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے کہ یہ ہے انبیاءؑ کی جماعت جن کا ذکر اس سورۃ میں کیا گیا ہے، جو اللہ کے انعام یافتہ بندے ہیں ۔ اس میں انبیاءؑ کے چار گروہوں کا ذکر ہے۔ پہلا گروہ اولادِ آدم ؑ سے، یعنی حضرت ادریس ؑ اور ان کی اولاد۔ دوسرا حضرت نوحؑ کے ساتھ کشتی پر سوار ہونے والوں کی نسل سے مراد حضرت ابراہیم ؑ خلیل اللہ ہیں ، تیسرا ذُریت حضرت ابراہیم ؑ سے مراد حضرت اسحاقؑ، حضرت یعقوب ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ ہیں ، اور چوتھا گروہ ذُریت اسرائیل ؑ (یعقوب ؑ ) سے مراد حضرت موسٰی ؑ، حضرت ہارون ؑ، حضرت زکریاؑ، حضرت یحییٰ ؑ اور حضرت عیسٰی ؑ ہیں ..... فرمانِ الٰہی ہے کہ ان پیغمبروں کے سامنے جب کلام اللہ شریف کی آیتیں تلاوت کی جاتی تھیں تو اس کے دلائل و براہین کو سُن کر خشوع و خضوع کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا شکرواحسان مانتے ہوئے، روتے، گڑگڑاتے سجدے میں گر پڑتے تھے۔ اسی لئے اس آیت پر سجدہ کرنے کا حکم علما کا متفق علیہ مسئلہ ہے تاکہ ان پیغمبروں کی اتباع اور اقتدا ہوجائے۔ امیرالمومنین حضرت عمر بن خطابؓ نے سورۂ مریم کی تلاوت کی اور جب اس آیت پر پہنچے تو سجدہ کیا۔ پھر فرمایا: سجدہ تو کیا لیکن وہ رونا کہاں سے لائیں ؟ (ابن ابی حاتم اور ابن جریر)۔ (تفسیر ابن کثیر، ج۳، ص ۲۳۸)
چھٹا سجدہ
’’ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کے آگے سربسجود ہیں وہ سب جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں ، سورج اور چاند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان اور بہت سے وہ لوگ بھی جو عذاب کے مستحق ہوچکے ہیں ؟ اور جسے اللہ ذلیل و خوار کردے اسے پھر کوئی عزت دینے والا نہیں ہے، اللہ کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے۔ ‘‘ (الحج ۲۲:۱۸)
[جس طرح پہلی آیات میں گزر چکا ہے کہ ] فرشتے، اجرامِ فلکی اور وہ سب مخلوقات جو زمین کے ماورا، دوسرے جہانوں میں ہیں ، خواہ وہ انسان کی طرح ذی عقل و ذی اختیار ہوں ، یا حیوانات، نباتات، جمادات اور ہوا اور روشنی کی طرح بے عقل و بے اختیار۔ [سب اللہ کے سامنے سربسجود ہیں ]۔ یعنی وہ نہیں جو محض مجبوراً ہی نہیں بلکہ بالارادہ اور بطوع و رغبت اس کو سجدہ کرتے ہیں ۔ ان کے مقابلے میں دوسرا انسانی گروہ جس کا بعد کے فقرے میں ذکر آرہا ہے، وہ ہے جو اپنے ارادے سے خدا کے آگے جھکنے سے انکار کرتا ہے، مگر دوسری بے اختیار مخلوقات کی طرح وہ بھی قانونِ فطرت کی گرفت سے آزاد نہیں ہے اور سب کے ساتھ مجبوراً سجدہ کرنے والوں میں شامل ہے۔ اس کے مستحق عذاب ہونے کی وجہ یہی ہے کہ وہ اپنے دائرۂ اختیار میں بغاوت کی روش اختیار کرتا ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۳، ص ۲۱۱۔ ۲۱۲)
اس لئے یہاں اہلِ ایمان کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ وہ اپنی مرضی اور اختیار سے سجدہ کرنے والوں میں شامل ہوجائیں ۔ یہاں سجدۂ تلاوت واجب ہے اور یہ سجدہ متفق علیہ ہے۔ 
ساتواں سجدہ
(ترجمہ) ’’ان لوگوں سے جب کہا جاتا ہے کہ اس رحمان کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں : رحمان کیا ہوتا ہے؟ کیا بس جسے تو کہہ دے اسی کو ہم سجدہ کرتے پھریں ؟ یہ دعوت ان کی نفرت میں اُلٹا اور اضافہ کردیتی ہے۔ ‘‘ (الفرقان ۲۵:۶۰)
اس سے پہلے والی آیت (۵۹) میں رحمان کی شان بیان کی گئی ہے، یعنی وہ خدا جو زندہ ہے، کبھی مرنے والا نہیں ، وہ باخبر ہے۔ اس نے چھ دنوں میں زمین اور آسمانوں کو بنایا۔ پھر آپ ہی عرش پر جلوہ فرما ہوا۔ 
جب منکرین یہ بات کہتے کہ رحمان کیا ہوتا ہے تویہ بات دراصل وہ محض کافرانہ شوخی اور سراسر ہٹ دھرمی کی بنا پر کہتے تھے۔ جس طرح فرعون نے حضرت موسٰی ؑ سے کہا تھا: ’’رب العالمین کیا ہوتا ہے؟‘‘ حالانکہ نہ کفارِ مکہ خدائے رحمان سے بے خبر تھے اور نہ فرعون ہی اللہ رب العالمین سے ناواقف تھا۔ بعض مفسرین نے اس کی یہ تاویل کی ہے کہ اہلِ عرب کے ہاں اللہ تعالیٰ کے لئے ’رحمان‘ کا اسمِ مبارک شائع [مقبول] نہ تھا اس لئے انھوں نے یہ اعتراض کیا۔ لیکن آیت کا اندازِ کلام خود بتا رہا ہے کہ یہ اعتراض ناواقفیت کی بنا پر نہیں بلکہ طُغیانِ جاہلیت کی بنا پر تھا، ورنہ اس پر گرفت کرنے کے بجائے اللہ تعالیٰ نرمی کے ساتھ انھیں سمجھا دیتا کہ یہ بھی ہمارا ہی ایک نام ہے، اس پر کان نہ کھڑے کرو۔ علاوہ بریں یہ بات تاریخی طور پر ثابت ہے کہ عرب میں اللہ تعالیٰ کے لئے قدیم زمانے سے رحمان کا لفظ معروف و مستعمل تھا....
اس جگہ سجدۂ تلاوت مشروع ہے اور اس پر تمام اہلِ علم متفق ہیں ۔ ہرقاری اور سامع کو اس مقام پر سجدہ کرنا چاہئے۔ نیز یہ بھی مسنون ہے کہ آدمی جب اس آیت کو سنے تو جواب میں کہے: (ترجمہ)، ’’اللہ کرے ہمارا خضوع اتنا ہی بڑھے جتنا دشمنوں کا نفور بڑھتا ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۳، ص ۴۶۰۔ ۴۶۱)

quran islam Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK