EPAPER
Updated: November 02, 2023, 7:56 AM IST | Dr Muhammad Iqbal Khalil | Mumbai
قرآنِ پاک کی تلاوت کے دوران کچھ متعین ایسی آیات آتی ہیں جن پر سجدہ کرنے کا حکم ہے۔ یہ ہمارے پیارے نبی پاکؐ کی سنت مبارکہ ہے۔ ہم جب تلاوتِ قرآنِ پاک کے دوران ان آیات پر سجدہ کرتے ہیں تو اس سنت پرعمل کرتے ہیں اور اپنے رب کے حضور اپنی بندگی اور عاجزی کا اظہار کرتے ہیں۔
آٹھواں سجدہ
(ترجمہ) ’’ اس خدا کو سجدہ کریں جو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزیں نکالتا ہے اور وہ سب کچھ جانتا ہے جسے تم لوگ چھپاتے اور ظاہر کرتے ہو۔ ‘‘ (النمل ۲۷: ۲۵)
اس آیت سجدہ سے پہلے، سورۂ نمل میں حضرت سلیمان ؑ کے دربار میں ہُدہُد کا بیان ہے، جو اس نے ملک سبا کے دورے سے واپس آنے پر دیا۔ اس نے ایک ایسی قوم کا حال سنایا جس کی ایک ملکہ ہے اور وہ اور اس کی قوم اللہ کے بجائے سورج کو سجدہ کرتی ہے۔ شیطان نے ان کے اعمال ان کے لئے خوش نما بنا دیئے اور انھیں شاہراہ سے روک دیا۔ اس وجہ سے وہ یہ سیدھا راستہ نہیں پاتے کہ اس خدا کو سجدہ کریں جو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزیں نکالتا ہے اور وہ سب کچھ جانتا ہے جسے تم لوگ چھپاتے اور ظاہر کرتے ہو۔
یہاں اللہ کی دو صفات کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے، یعنی جو ہر آن نئی چیزوں کو ظہور میں لارہا ہے جو پوشیدہ تھیں۔ اس کا علم ہرچیز پر حاوی ہے، اس کے لئے ظاہر اور مخفی سب یکساں ہیں۔
[یہاں ] اللہ تعالیٰ کی ان دو صفات کو بطورِ نمونہ بیان کرنے سے مقصود دراصل یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ اگر وہ لوگ شیطان کے دھوکے میں نہ آتے تو یہ سیدھا راستہ انھیں صاف نظر آسکتا تھا کہ آفتاب نامی ایک دہکتا ہوا کرہ جو بے چارہ خود اپنے وجود کا ہوش بھی نہیں رکھتا، کسی عبادت کا مستحق نہیں ہے بلکہ صرف وہ ہستی اس کا استحقاق رکھتی ہے جو علیم و خبیر ہے اور جس کی قدرت ہرلحظہ نئے نئے کرشمے ظہور میں لارہی ہے۔ [اور وہ اللہ ہے جو عبادت کا مستحق ہے اور عرشِ عظیم کا مالک ہے۔ ]
اس مقام پر سجدہ واجب ہے۔ یہ قرآن کے ان مقامات میں سے ہے جہاں سجدۂ تلاوت واجب ہونے پر فقہا کا اتفاق ہے۔ یہاں سجدہ کرنے سے مقصود یہ ہے کہ ایک مومن اپنے آپ کو آفتاب پرستوں سے جدا کرے اور اپنے عمل سے اس بات کا اقرار و اظہار کرے، کہ وہ آفتاب کو نہیں بلکہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کو اپنا مسجود و معبود مانتا ہے۔ (تفہیم القرآن، ج۳، ص ۵۷۰۔ ۵۷۱)
نواں سجدہ
(ترجمہ) ’’ ہماری آیات پر تو وہ لوگ ایمان لاتے ہیں جنھیں یہ آیات سنا کر جب نصیحت کی جاتی ہے تو سجدے میں گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے۔ ‘‘ (السجدہ ۳۲:۱۵)
اس آیت سجدہ سے پہلے کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کی منظرکشی کی ہے: ’’کاش تم دیکھو وہ وقت جب یہ مجرم سرجھکائے اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے (اس وقت یہ کہہ رہے ہوں گے) اے ہمارے رب، ہم نے خوب دیکھ لیا اور سن لیا، اب ہمیں واپس بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں، ہمیں اب یقین ہوگیا ہے‘‘۔ (جواب میں ارشاد ہوگا) ’’اگر ہم چاہتے تو پہلے ہی ہرنفس کو اس کی ہدایت دے دیتے۔ مگر میری وہ بات پوری ہوگئی جو میں نے کہی تھی کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سب سے بھر دوں گا۔ پس اب چکھو مزا اپنی اس حرکت کا کہ تم نے اس دن کی ملاقات کو فراموش کردیا، ہم نے بھی اب تمہیں فراموش کردیا ہے۔ چکھو، ہمیشگی کے عذاب کا مزا اپنے کرتوتوں کی پاداش میں ‘‘۔ (السجدہ ۳۲:۱۲۔ ۱۴)
اس کے بعد آیت سجدہ میں اہلِ ایمان کی شان بیان کی گئی ہے کہ ’’وہ اپنے غلط خیالات کو چھوڑ کر اللہ کی بات مان لینے اور اللہ کی بندگی اختیار کر کے اس کی عبادت بجا لانے کو اپنی شان سے گری ہوئی بات نہیں سمجھتے۔ نفس کی کبریائی انھیں قبولِ حق اور اطاعت رب سے مانع نہیں ہوتی‘‘ (تفہیم القرآن، ج۴، ص۴۵)۔ لہٰذا جب وہ قرآن سنتے ہیں اور ان کو نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدے میں گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور غرور میں مبتلا نہیں ہوتے۔ اسی لئے تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ اس مقام پر سجدہ کر کے اپنے آپ کو بھی مؤمنین کے اس گروہ میں شامل کریں۔
دسواں سجدہ
(ترجمہ) ’’ داؤد ؑ نے جواب دیا: ’’اِس شخص نے اپنی دُنبیوں کے ساتھ تیری دُنبی ملا لینے کا مطالبہ کرکے یقیناًتجھ پر ظلم کیا، اور واقعہ یہ ہے کہ مل جل کر ساتھ رہنے والے لوگ اکثر ایک دوسرے پر زیادتیاں کرتے رہتے ہیں، بس وہی لوگ اس سے بچے ہوئے ہیں جو ایمان رکھتے اور عملِ صالح کرتے ہیں، اور ایسے لوگ کم ہی ہیں ‘‘۔ ’’(یہ بات کہتے کہتے) داؤد ؑ سمجھ گیا کہ یہ تو ہم نے دراصل اس کی آزمائش کی ہے، چنانچہ اس نے اپنے رب سے معافی مانگی اور سجدے میں گر گیا اور رجوع کرلیا۔ ‘‘(ص۳۸:۲۴)
یہاں پر یہ ممکن نہیں کہ اس واقعے کی تفصیل میں جایا جائے جو حضرت داؤد ؑ کے ساتھ پیش آیا اور قرآن میں مذکور ہے۔ اس کے لئے تفاسیر سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے لئے اتنا کافی ہے کہ حضرت داؤد ؑ سے کوئی قصور سرزد نہیں ہوا تھا جو دُنبیوں والے واقعے سے مماثلت رکھتا تھا۔ اسی لئے فیصلہ سناتے ہوئے معاً ان کو یہ خیال آیا کہ یہ میری آزمائش ہوئی ہے لیکن اس قصور کی نوعیت ایسی شدید نہ تھی کہ اسے معاف نہ کیا جاتا۔ جب انھوں نے سجدے میں گر کر توبہ کی تو [نہ صرف] یہ کہ انھیں معاف کردیا گیا بلکہ دنیا اور آخرت میں ان کو جو بلند مقام حاصل تھا اس میں بھی کوئی فرق نہ آیا۔
اس امر میں اختلاف ہے کہ اس مقام پر سجدۂ تلاوت واجب ہے یا نہیں۔ امام شافعیؒ کہتے ہیں کہ یہاں سجدہ واجب نہیں بلکہ یہ تو ایک نبی کی توبہ ہے۔ اور امام ابوحنیفہ وجوب کے قائل ہیں۔ اس سلسلے میں حضرت ابن عباسؓ سے تین روایتیں محدثین نقل کی ہیں۔ عکرمہؓ کی روایت یہ ہے کہ ابن عباسؓ نے فرمایا:’’ یہ ان آیات میں سے نہیں ہے جن پر سجدہ لازم ہے مگر مَیں نے اس مقام پر نبیؐ کو سجدہ کرتے دیکھا ہے‘‘ (بخاری).... سعید بن جبیرؓ سے روایت ہے کہ سورۂ صٓ میں نبی کریمؐ نے سجدہ کیا اور فرمایا: ’’داؤد ؑ نے توبہ کے طور پر سجدہ کیا تھا اور ہم شکر کے طور پر سجدہ کرتے ہیں ‘‘۔ (نسائی).... حضرت ابوسعید خدریؓ کا بیان یہ ہے کہ نبی ؐ نے ایک مرتبہ خطبے میں سورۂ صٓ پڑھی اور جب آپؐ اس آیت پر پہنچے تو آپؐ نے منبر سے اُتر کر سجدہ کیا اور آپؐ کے ساتھ سب حاضرین نے بھی سجدہ کیا (ابوداؤد)۔ ان روایات سے اگرچہ وجوبِ سجدہ کی قطعی دلیل تو نہیں ملتی لیکن کم از کم اتنی بات تو ضرور ثابت ہوتی ہے کہ نبی کریم ؐ نے اس مقام پر اکثر سجدہ فرمایا ہے، اور سجدہ نہ کرنے کی بہ نسبت یہاں سجدہ کرنا بہرحال افضل ہے۔ (تفہیم القرآن، ج۴، ص۳۲۵۔ ۳۲۶)
گیارہواں سجدہ
(ترجمہ) ’’ لیکن اگر یہ لوگ غرور میں آکر اپنی ہی بات پر اڑے رہیں تو پروا نہیں، جو فرشتے تیرے رب کے مقرب ہیں وہ شب و روز اس کی تسبیح کررہے ہیں اور کبھی نہیں تھکتے۔ ‘‘
(حم ٓ السجدہ ۴۱:۳۸)
اس سے پہلے کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں یہ رات اور دن اور سورج اور چاند۔ سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو بلکہ اس خدا کو سجدہ کرو جس نے انھیں پیدا کیا ہے۔ اگر فی الواقع تم اسی کی عبادت کرتے ہو‘‘(۴۱:۳۷)۔ ’’یعنی یہ اللہ کے مظاہر نہیں ہیں کہ تم یہ سمجھتے ہوئے ان کی عبادت کرنے لگو کہ اللہ ان کی شکل میں خود اپنے آپ کو ظاہر کر رہا ہے، بلکہ یہ اللہ کی نشانیاں ہیں جن پر غور کرنے سے تم کائنات کی اور ا س کے نظام کی حقیقت سمجھ سکتے ہو اور یہ جان سکتے ہو کہ انبیا علیہم السلام جس توحیدِ خداوندی کی تعلیم دے رہے ہیں وہی امرواقعی ہے۔ سورج اور چاند سے پہلے رات اور دن کا ذکر اس امر پر متنبہ کرنے کے لئے کیا گیا ہے کہ رات کو سورج کا چھپنا اور چاند کا نکل آنا، اور دن کو چاند کا چھپنا اور سورج کا نمودار ہو جانا صاف طور پر یہ دلالت کر رہا ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی خدا یا خدا کا مظہرنہیں ہے بلکہ دونوں ہی مجبورو لاچار ہیں جو خدا کے قانون میں بندھے ہوئے گردش کررہے ہیں۔ ۔ ۔ اور جو یہ کہتے ہیں کہ ہم ان چیزوں کو سجدہ نہیں کرتے بلکہ ان کے واسطے سے اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں، اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اگر تم واقعی اللہ ہی کے عبادت گزار ہو تو ان واسطوں کی کیا ضرورت ہے، براہِ راست خود اُسی کو سجدہ کیوں نہیں کرتے۔ (تفہیم القرآن، ج۴، ص۴۶۰۔ ۴۶۱)
گویا اب اگر یہ لوگ غرور میں آکر اپنی ہی بات یا جہالت پر اڑے رہیں تو پروا نہیں ہے۔ اللہ کے مقرب فرشتے جن کے ذریعے پوری کائنات کا نظام چل رہا ہے، اللہ کی توحید اور اس کی بندگی اختیار کئے ہوئے ہیں، اور اس نظام کے منتظم فرشتے ہر آن یہ شہادت دے رہے ہیں کہ ان کا رب اس سے پاک ہے کہ کوئی اس کا شریک ہو۔
اس مضمون کا پہلا حصہ: آیاتِ سجدہ
بارہواں سجدہ
(ترجمہ) ’’ جھک جاؤ اللہ کے آگے اور بندگی بجا لاؤ۔ ‘‘(النجم ۵۳:۶۲)
یہ وہ مشہور آیت سجدہ ہے جس پر جب آپؐ نے بیت اللہ شریف میں سجدہ کیا تو آپؐ کے ساتھ مسلم و کافر سب سجدے میں گر گئے۔ اس سے پہلے کی آیات میں مکہ کے کفار کے غلط طرزِعمل پر ان کو ٹوکا گیا تھا کہ تم ’’ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو؟ اور گابجا کر انھیں ٹالتے ہو؟‘‘ (۵۳:۶۱)۔ یعنی قرآن سن کر اس کا مذاق اُڑاتے ہو اور لوگوں کی توجہ قرآن سے ہٹانے کے لئے زور زور سے گانا شروع کر دیتے ہو، جب کہ صحیح طرزِعمل یہ ہے کہ تم ’’جھک جاؤ اللہ کے آگے اور بندگی بجا لاؤ‘‘۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، ابن عباسؓ اور مُطَّلِب بن ابی وداعہؓ کی متفق علیہ روایات ہیں کہ حضوؐر نے جب پہلی مرتبہ حرمِ پاک میں یہ سورت تلاوت فرمائی تو آپؐ نے سجدہ کیا اور آپؐ کے ساتھ مسلم و کافر سب سجدے میں گرگئے۔ (بخاری)
سیرت النبیؐ کی مشہور کتاب الرحیق المختوم میں یہ واقعہ یوں رقم ہے: ہجرتِ حبشہ اوّل کے بعد، اسی سال رمضان شریف میں یہ واقعہ پیش آیا کہ نبیؐ ایک بار حرم تشریف لے گئے۔ وہاں قریش کا بہت بڑا مجمع تھا۔ ان کے سردار اور بڑے بڑے لوگ جمع تھے۔ آپؐ نے ایک دم اچانک کھڑے ہوکر سورۂ نجم کی تلاوت شروع کر دی۔ ان کفار نے اس سے پہلے عموماً قرآن سنا نہ تھا.... اور ان کے کانوں میں ایک ناقابلِ بیان رعنائی و دل کشی اور عظمت لئے ہوئے کلامِ الٰہی کی آواز پڑی تو انھیں کچھ ہوش نہ رہا۔ سب کے سب گوش بر آواز ہوگئے۔ کسی کے دل میں کوئی اور خیال ہی نہیں آیا۔ یہاں تک کہ جب آپؐ نے سورہ کے اواخر میں دل دہلا دینے والی آیات تلاوت فرما کر اللہ کا یہ حکم سنایا اور اس کے ساتھ ہی سجدہ فرمایا تو کسی کو اپنے آپ پر قابو نہ رہا اور سب کے سب سجدے میں گر پڑے.... بعد میں جب انھیں احساس ہوا کہ کلامِ الٰہی کے جلال نے ان کی لگام موڑ دی اور وہ ٹھیک وہی کام کربیٹھے جسے مٹانے اور ختم کرنے کے لئے انھوں نے ایڑی سے چوٹی تک زور لگا رکھا تھا۔ اور اس کے ساتھ ہی اس واقعے میں غیرموجود مشرکین نے ان پر ہر طرف سے عتاب اور ملامت کی بوچھاڑ شروع کی تو ان کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے اور انھوں نے اپنی جان چھڑانے کے لئے رسولؐ اللہ پر یہ افتراپردازی کی اور یہ جھوٹ گھڑا کہ آپؐ نے ان کے بتوں کا ذکر عزت و احترام سے کرکے کہا تھا کہ تِلْکَ العَزَانِیْنُ۔ ۔ ۔ ’’یہ بلندپایہ دیویاں ہیں، اور ان کی شفاعت کی اُمید کی جاتی ہے‘‘۔ حالانکہ یہ صریح جھوٹ تھا جو محض اس لئے گھڑ لیا گیا تاکہ نبیؐ کے ساتھ سجدہ کرنے کی جو ’غلطی‘ ہوگئی ہے اس کے لئے ایک ’معقول‘ عذر پیش کیا جاسکے.... بہرحال مشرکین کے سجدہ کرنے کے اس واقعے کی خبر حبشہ کے مہاجرین کو بھی اس طرح پہنچی کہ قریش مسلمان ہوگئے ہیں چنانچہ انھوں نے ماہِ شوا ل میں مکہ واپسی کی راہ لی.... لیکن جب قریب پہنچے تو حقیقت حال آشکار ہوئی۔ (ص ۱۳۳۔ ۱۳۴)
تیرہواں سجدہ
(ترجمہ) : ’’ اور جب قرآن ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے۔ ‘’(الانشقاق ۸۴:۲۱)
اس آیت سجدہ کے پورے مفہوم کو سمجھنے کے لئے آیت نمبر ۱۶؍ سے پڑھیں : ’’پس نہیں، میں قسم کھاتا ہوں شفق کی، اور رات کی اور جو کچھ وہ سمیٹ لیتی ہے، اور چاند کی جب کہ ماہِ کامل ہوجاتا ہے، تم کو ضرور درجہ بہ درجہ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف گزرتے چلے جانا ہے۔ پھر ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ ایمان نہیں لاتے اور جب قرآن ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے؟‘‘
یعنی [انسان کو] ایک حالت پر نہیں رہنا ہے بلکہ جوانی سے بڑھاپے، بڑھاپے سے موت، موت سے برزخ، برزخ سے دوبارہ زندگی، دوبارہ زندگی سے میدانِ حشر، پھر حساب و کتاب اور پھر جزا و سزا کی بے شمار منزلوں سے لازماً تم کو گزرنا ہوگا۔ اس بات پر تین چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے: سورج ڈوبنے کے بعد شفق کی سرخی، دن کے بعد رات کی تاریکی، اور اس میں ان بہت سے انسانوں اور حیوانات کا سمٹ آنا جو دن کے وقت زمین پر پھیلے رہتے ہیں، اور چاند کا ہلال سے درجہ بہ درجہ بڑھ کر بدرِ کامل بننا۔ یہ گویا چند وہ چیزیں ہیں جو اس بات کی علانیہ شہادت دے رہی ہیں کہ جس کائنات میں انسان رہتا ہے اس کے اندر کہیں ٹھیراؤ نہیں ہے، ایک مسلسل تغیر اور درجہ بہ درجہ تبدیلی ہر طرف پائی جاتی ہے، لہٰذا کفار کا یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ موت کی آخری ہچکی کے ساتھ معاملہ ختم ہوجائے گا‘‘۔
[اس پر اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے بارے میں تعجب کا اظہار کرتے ہیں جو ایمان نہیں لاتے اور جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے] ’’یعنی ان کے دل میں اللہ کا خوف پیدا نہیں ہوتا اور یہ اس کے آگے نہیں جھکتے۔ اس مقام پر سجدہ کرنا رسول اللہ ؐ کے عمل سے ثابت ہے۔ امام مالکؒ، مسلمؒ اور نسائیؒ نے حضرت ابوہریرہؓ کے بارے میں یہ روایت نقل کی ہے کہ انھوں نے نماز میں یہ سورۃ پڑھ کر اس مقام پر سجدہ کیا اور کہا کہ رسول اللہ ؐ نے یہاں سجدہ کیا ہے۔ بخاری، مسلم، ابوداؤد، اور نسائی نے ابورافع کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ نے عشا کی نماز میں یہ سورۃ پڑھی اور سجدہ کیا۔ میں نے اس کی وجہ دریافت کی تو انھوں نے فرمایا کہ میں نے ابوالقاسمؐ کے پیچھے نماز پڑھی ہے اور حضوؐر نے اس مقام پر سجدہ کیا ہے، اس لئے میں مرتے دم تک یہ سجدہ کرتا رہوں گا۔
(تفہیم القرآن، ج۶، ص ۲۹۱۔ ۲۹۲)
چودہواں سجدہ
(ترجمہ) ’’ ہرگز نہیں، اُس کی بات نہ مانو اور سجدہ کرو اور (اپنے رب کا) قرب حاصل کرو۔ ‘‘
شانِ نزول کے حساب سے یہ پہلی آیت سجدہ ہے لیکن ترتیب کے حساب سے آخری۔ نبی پاکؐ پر وحی کا آغاز غارِحرا میں حضرت جبرئیل ؑ کے ذریعے سورۂ علق کی ابتدائی پانچ آیات کی صورت میں ہوا تھا۔ اس کے بعد کی آیات اس وقت نازل ہوئیں جب رسولؐ اللہ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے خانہ کعبہ میں نماز پڑھنی شروع کی اور ابوجہل کو یہ بات ناگوار گزری اور اس نے نبی پاکؐ کو منع کرنا چاہا۔ اس لئے سورۂ علق کی آیت نمبر ۶؍ سے آخر (۱۹) تک آیات میں اللہ پاک نے اس کافر کے ردعمل کا جواب دیا: ’’ہرگز نہیں، انسان سرکشی کرتا ہے اس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو بے نیاز دیکھتا ہے (حالانکہ) پلٹنا یقیناًتیرے رب ہی کی طرف ہے۔ تم نے دیکھا اُس شخص کو جو ایک بندے کو منع کرتا ہے، جب کہ وہ نماز پڑھتا ہو؟ تمہارا کیا خیال ہے اگر (وہ بندہ) راہِ راست پر ہو یا پرہیزگاری کی تلقین کرتا ہو؟ تمہارا کیا خیال ہے اگر (یہ منع کرنے والا شخص حق کو) جھٹلاتا اور منہ موڑتا ہو؟ کیا وہ نہیں جانتا کہ اللہ دیکھ رہا ہے؟ ہرگز نہیں، اگر وہ باز نہ آیا تو ہم اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر اسے کھینچیں گے، اس پیشانی کو جو جھوٹی اور سخت خطاکار ہے۔ وہ بلا لے اپنے حامیوں کی ٹولی کو، ہم بھی عذاب کے فرشتوں کو بلا لیں گے۔ ہرگز نہیں، اس کی بات نہ مانو اور سجدہ کرو اور (اپنے رب کا) قرب حاصل کرو‘‘۔
’’حضرت ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ ابوجہل نے قریش کے لوگوں سے پوچھا: ’’کیا محمد(ﷺ) تمہارے سامنے زمین پر اپنا منہ ٹکاتے ہیں ؟‘‘ لوگوں نے کہا: ہاں۔ اس نے کہا: ’’لات اور عُزّیٰ کی قسم، اگر میں نے ان کو اس طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لیا تو ان کی گردن پر پاؤں رکھ دوں گا اور ان کا منہ زمین میں رگڑ دوں گا‘‘۔ پھر ایسا ہوا کہ حضوؐر کو نماز پڑھتے دیکھ کر وہ آگے بڑھا تاکہ آپ کی گردن پر پاؤں رکھے، مگر یکایک لوگوں نے دیکھا کہ وہ پیچھے ہٹ رہا ہے اور اپنا منہ کسی چیز سے بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس سے پوچھا گیا کہ یہ تجھے کیا ہوگیا؟ اس نے کہا: میرے اور اُن کے درمیان آگ کی ایک خندق اور ایک ہولناک چیز تھی اور کچھ پَر تھے۔ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ اگر وہ میرے قریب پھٹکتا تو ملائکہ اس کے چیتھڑے اُڑا دیتے۔ (احمد، مسلم، نسائی)
ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ مقامِ ابراہیم پر نماز پڑھ رہے تھے۔ ابوجہل کا ادھر سے گزر ہوا تو اس نے کہا: اے محمدؐ! کیا میں نے تم کو اس سے منع نہیں کیا تھا؟ اور اس نے آپؐ کو دھمکیاں دینی شروع کیں۔ جواب میں رسول ؐ اللہ نے اس کو سختی سے جھڑک دیا۔ اس پر اس نے کہا: اے محمدؐ! تم کس بل پر مجھے ڈراتے ہو۔ خدا کی قسم! اس وادی میں میرے حمایتی سب سے زیادہ ہیں۔‘‘
(احمد، ترمذی)۔ (تفہیم القرآن، ج۶، ص ۳۹۴۔ ۳۹۵)
چنانچہ ان آیات کے ذریعے آپؐ کو تسلی دینے کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک بار پھر آپؐ کو حکم دیا کہ تم اس کی بات نہ مانو اور سجدہ کرو۔
[یہاں ]سجدہ کرنے سے مراد نماز ہے، یعنی اے نبیؐ! تم بے خوف اُسی طرح نماز پڑھتے رہو جس طرح پڑھتے ہو، اور اس کے ذریعے سے اپنے رب کا قرب حاصل کرو۔
صحیح مسلم وغیرہ میں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ ’’بندہ سب سے زیادہ اپنے رب سے اس وقت قریب ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہوتا ہے‘‘ اور مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ کی یہ روایت بھی آئی ہے کہ جب رسول اللہ ؐ یہ آیت پڑھتے تھے تو سجدۂ تلاوت ادا فرماتے تھے۔ (ایضاً، ص۳۹۹)