Inquilab Logo

مولانا ابوالکلام آزاد: جدو جہد آزادی کے مرکزی کردار

Updated: November 24, 2023, 6:02 AM IST | Dr Humayun Ahmad | Mumbai

ملک کی آزادی سے قبل سات سال کا وقت جدید بھارت کی تاریخ کا اہم ترین دور رہا ہے۔جب وقت کو بدل دینے والے بڑے بڑے فیصلہ کن واقعات پیش آرہے تھے۔کانگریس جدو جہد آزادی کی اصل نمائندہ تنظیم تھی اور مولانا ابوالکلام آزاد ۱۹۳۹ء سے ۷؍ جولائی ۱۹۴۶ء تک اس کے منتخب صد ر تھے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

ملک کی آزادی سے قبل سات سال کا وقت جدید بھارت کی تاریخ کا اہم ترین دور رہا ہے۔جب وقت کو بدل دینے والے بڑے بڑے فیصلہ کن واقعات پیش آرہے تھے۔کانگریس جدو جہد آزادی کی اصل نمائندہ تنظیم تھی اور مولانا ابوالکلام آزاد ۱۹۳۹ء سے ۷؍ جولائی ۱۹۴۶ء تک اس کے منتخب صد ر تھے۔یعنی تاریخ کے سب سے نازک اور دشوار ترین موڑ پر آزادی دلانے والی ٹیم کی قیادت مولانا کے کندھے پر تھی۔سات سالہ دور صدارت میں مولانا کی سربراہی کی سب سے خاص خوبی یہ تھی کہ ہر بڑے فیصلے عام اجلاس بلاکر سب کا اعتماد حاصل کر نے کے بعد لیے جاتے تھے۔پیچیدہ حالات ہوں یا الجھے ہوئے مسائل،مولانا کو فیصلہ لینے میں دیر نہیں لگتی تھی۔ذی اثر،واضح اور مدلل خطابت کے ذریعہ اتفاق رائے آسانی سے قائم کر لیتے تھے۔ان کی قائد انہ لیاقت اور اظہار خیال کی غیر معمولی طاقت تاریخ کے ناقابل فراموش پہلو ہیں۔مولانا کی طویل مدتی یادگار تاریخ چیلنجوں اور کارناموں سے بھری ہے۔اپنی پوری سیاسی زندگی میں وہ یا تو جیل میں بند رہے یا رہنمائی اور پالیسی وضع کر نے میں نمایاں کردار ادا کیا۔اعلیٰ ترین رہنماؤں میں مولانا کو سب سے زیادہ مدت تک جیل میں بند رکھا گیا۔مگر ایک بڑی حقیقت کو بطور خاص نظر انداز کیا جا تا ہے۔آزادی سے قبل بالکل آخر کے دنوں میں مولانا کا موقف دوستوں سے الگ رہا۔ان کو آزادی میں کچھ تاخیر گوارہ تھی مگر ملک کی تقسیم نہیں۔مولانا اکلوتے ایسے بڑے رہنما تھے جو ملک کی تقسیم کی قیمت پر آزادی پانے کی آخر آخر تک مخالفت کر تے رہے۔خیالات ہوں یا ظاہری طرز عمل،پالیسی ہو یا اصول مولانا کے اندر ابہام یا تضاد کبھی نہیں دیکھا گیا۔ملک و قوم پر جاں نثار مولانا سترہ سے لیکر ستر سال کی عمر تک وطن کی خدمت کر تے ہوئے۲۲؍ فروری ۱۹۵۸ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے۔
وائس رائے لارڈ کر زن کے وقت ۱۹۰۵ء ہی میں ۱۷؍ سال کے مولاناکا سیاسی شعور بیدار ہو چکا تھا۔ذہین مولانا گاندھی جی کے منظر عام پر نمایاں ہونے کے قریب ایک دہائی قبل حرکت میں آچکے تھے۔اس وقت لارڈ کرزن بنگال کو فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم کر نے کی سازش کر چکا تھا۔فرقہ وارانہ عدم اعتماد کے ماحول میں انقلابی سرگرمیاں خفیہ ہوتی تھیں۔انگریزی سازش کو چوکس مولانا نے بھانپ لیا۔صحیح تشخیص کے بعد بالکل صحیح نسخہ لیکر عملی میدان میں سب سے پہلے مولانا آگے آئے۔ایک بڑے انقلابی رہنما شری شیام سندر چکرورتی سے مولانا کی ملاقات ہوئی۔مولانا کی کر شمائی شخصیت سے متاثر ہونے کے بعد انہوں نے ان کو اور بھی ہندو انقلابیوں سے ملوایا۔دو یا تین بار شری اور بندو گھوش سے بھی ملے۔ایک انتہائی اعلیٰ خیال والے اتنے کم عمر مسلم نوجوان کو تحریک سے قریب آتا دیکھ کر بنگال کے ہندو انقلابیوں کو حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی۔کچھ ابتدائی مشکلوں کے بعد اپنی ذہانت اور دیانت داری کی بدولت سبھی کا اعتماد حاصل کر نے میں مولانا کامیاب ہو گئے۔یہاں تک کہ نقل و حرکت کے اندرونی حصے تک ان کی رسائی ہو گئی۔بالآخر ایک انقلابی گروپ کی رکنیت حاصل کر نے کے بعد ہندو انقلابیوں کو پراثر طریقے سے سمجھایا کہ سازش کے تحت انگریز کچھ مسلم افسران کو استعمال کر رہے ہیں،جب کہ عام مسلم عوام کا رجحان اور مزاج بالکل الگ ہے۔ہندوؤں کو قائل کر نے کے فوراً بعد مسلمانوں کی جانب مڑے،عالموں سے لیکر مسلم عوام تک سبھی سے مولانا براہ راست مخاطب ہوئے اور بی الآخر یہ سمجھانے میں کامیاب ہوئے کہ انگریز مسلمانوں کو استعمال کر نا چاہتے ہیں۔مسلمانوں کی جو بھی شکایات اور خدشات ہیں ان کو تصادم کے بجائے مفاہمت کے ذریعہ بہتر طور پر دور کیا جا سکتا ہے۔لہذا مسلمانوں کو انگریزوں کے خلاف بھر پور طریقے سے ہندوؤں کے ساتھ ملکر میدان میں آجانا چاہئے۔
فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضا بحال کر نے کے بعد مولانا ۱۹۰۸ء میں کلکتہ سے بیرونی ممالک کے دورے پر نکل گئے۔اس وقت مسلم دنیا میں نظام وقت کے خلاف انقلاب کی لہر چل رہی تھی۔پوری مسلم عوام سڑکوں پر تھی۔مصر،ایران،شام،عراق،ترکی وغیرہ میں مولانا کی دنیا کے بڑے بڑے انقلابیوں سے ملاقات ہوئی۔اس امنڈتے ہوئے طوفان میں بڑے بڑے انقلابیوں سے براہ، راست تعامّل کے بعد مولانا یہ بات اور شدت سے محسوس کر نے لگے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو جنگ آزادی میں پورے زور کے ساتھ شامل ہونا چاہیے۔واپس آنے کے بعد جہاں دیدہ اور دور اندیش مولانانے اپنے ایک طباعتی ادارہ (پریس)کی ضرورت کو محسوس کیا اور اس طرح الہلال پریس وجود میں آیا۔جون ۱۹۱۲ء میں الہلال کا پہلا شمارہ شائع ہوا۔سیاسی بصیرت والے اہل علم جانتے ہیں کہ الہلال طباعتی ادارہ کا قیام تحریک آزادی کا اہم ترین سنگ میل تھا۔مولانا کی مقناطیسی تحریر کا پورے بھارت میں برقیاتی اثر ہوا۔ ہندو مسلم قریب آنے لگے۔دیکھتے دیکھتے علی گڑھ سے اُٹھنے والی مسلم آواز مخالف سمت میں مڑ گئی۔ہندو اور مسلمان دونوں کو ایک ساتھ میدان عمل میں لادینے والی مولانا کی خوبی ہی انگریزوں کو سب سے زیادہ کھٹکتی تھی۔دو سال کے اندر الہلال کی ۲۶؍ ہزار کا پیاں فروخت ہو نے لگیں۔یہ اعداد و شمار اردو صحافت میں اس وقت تک بالااز تصور تھی۔جب پورے ملک کا جوش اپنے نقطۂ ابال کو چھونے لگا تو انگریز خوف کھانے لگے۔انجام کار ۱۹۱۵ء میں الہلال طباعتی ادارہ کو قرق کر لیا گیا۔5ماہ بعد مولانانے البلاغ کے نام سے ایک نیا پریس قائم کیا اور اسی نام سے البلاغ جریدہ شائع ہونے لگا۔جب پورا ملک متحد ہو کر سڑکوں پر آنے لگا تو قانون کا ایک اور سخت دفعہ لگا کر مولانا کو کلکتہ سے شہر بدر کر نے کا فرمان جاری ہو گیا۔انگریز حکومت اس حد تک خائف تھی کہ اس زمانے میں محض ۲۸؍ سالہ نوجوان مولانا پرپنجاب،دہلی،یوپی اوربمبئی میں داخلے پر پابندی لگ چکی تھی۔نہایت ہی اہم اس تاریخی واقعہ سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا کی مقبولیت اور عوامی پکڑ اس وقت پورے بھارت میں کس قدر مضبوط رہی ہو گی۔لہٰذا مولانا کو ۱۹۱۶ء میں رانچی جلا وطن کرنا پڑا۔ خیال رہے ۱۹۱۶ء میں جب سیاسی افق پر گاندھی جی کا ستارہ جگمگانا شروع ہوا تھا اس سے قبل ہی متحرک مولانا انقلابی راہبر کے طور پر بلندی کے اعلیٰ مقام پر پہنچ چکے تھے۔باوجودیکہ اس وقت ۲۸؍ سال کے نوجوان مولانا گاندھی جی سے عمر میں ۱۹؍ سال چھوٹے تھے۔
اب یہاں بجا طور پر یہ سوال دماغ میں دستک دیتا ہے کہ اس وقت مولانا سے انگریزوں کے دل و دماغ پر اس قدر ہیبت کیوں طاری تھی کہ ہندوستان بھر میں بڑی بڑی جگہوں میں داخلے پر پابندی لگانی پڑی۔جبکہ ہاتھ میں نہ کوئی ہتھیار اور نہ ہی کسی تشدد یا خفیہ سرگرمی کا الزام۔یہ ساری حقیقتیں اس بات کا جاگتا ثبوت ہیں کہ مولانا ہندو مسلم عوام کے دلوں پر حکومت کر تے تھے۔انقلابی سوچ،زو ر قلم اور زبان کا جادو ہی سب کچھ تھا۔بلا شک و شبہ مولانا ایک لاثانی نابغہ تھے۔یہ تاریخ کی بولتی حقیقت ہے۔
یکم جنوری ۱۹۲۰ء کو رانچی سے رہا ہوئے تو دہلی میں گاندھی سے مولاقات ہوئی۔۲۰؍ جنوری ۱۹۲۰ء کو دہلی کی ایک میٹنگ میں مولانا کے سامنے گاندھی جی اور لوک مانیہ تلک نے دیگر کانگریس رہنماؤں کے ساتھ خلافت تحریک کی کھل کر حمایت کا اعلان کیا۔۱۹۲۰ء کہی میں گاندھی جی کی عدم تعاون تحریک کی بات آئی تو مولانا کھل کے اس کی حمایت میں آگے آئے۔کیوں کہ ٹالسٹائی (Tolstoy)کے اس فلسفۂ احتجاج کو مولانا پہلے ہی پڑھ چکے تھے اور الہلال میں اس پر لکھ بھی چکے تھے۔ستمبر۱۹۲۰ء کمیں عدم تعاون تحریک کی میٹنگ کلکتہ میں ہوئی اور مولانا فضا ہموار کر نے کی غرض سے گاندھی جی کے ساتھ ملک گیر دورے پر نکل پڑے۔دسمبر ۱۹۲۰ء کمیں گرفتار ہوئے۔علی پور سنٹرل جیل میں سبھاش چندر بوس،سی آر داس وغیرہ کے ساتھ مقید رہے۔سبھوں کو چھ ماہ میں رہائی ملی مگر مولانا کو دو سال بعد ایک جنوری ۱۹۲۳ءکو چھوڑا گیا۔آخر کیوں؟(زیادہ دلیر سے زیادہ خائف! اور پھر زیادہ سزا !)۔اس درمیان گیا اجلاس میں کانگریس دو خیمے میں منقسم ہو چکی تھی۔بہت برا حال تھا۔باہر آتے ہی بڑی حکمت سے مولانا نے حالات کو سنبھالا۔مولانا کی غیر معمولی قائدانہ صلاحیت سے سبھی لوگ اتنے متاثر ہوئے کہ موتی لال نہرو،سی آر داس،سردار پٹیل،حکیم اجمل خان،ڈاکٹر راجندر پرساد جیسے قد آور رہنماؤں کے مکمل اتفاق رائے سے دہلی میں ستمبر ۱۹۲۳ءکو ایک خصوصی اجلاس بلاکر مولانا کو کانگریس کا صدر منتخب کر دیا گیا۔اس طرح ڈاکٹر راجندر پرساد سے چار سال اور سردار پٹیل سے تیرہ سال کم عمر والے ۳۵؍ سال کے مولانا کو کانگریس کے سب سے کم عمر صدر منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔ ۱۹۳۰ء میں نمک تحریک کے وقت میرٹھ میں دئے گئے ایک آتشی تقریر کی وجہ کر وہاں وہ ڈیڑھ سال کیلئے قید کیے گئے۔۱۹۳۵ء کے حکومت ہندقانون (Govt.of India act-1935)کے تحت ریاستی خود مختاری کیلئے ہونے والے انتخاب کے وقت کانگریس ورکنگ کمیٹی پورے تاؤ میں اس کابائیکاٹ کر نے جا رہی تھی۔مولانا کی قائدانہ اور دور اندیش حکمت عملی نے پھر کام کیا۔ایک پر زور خطاب میں مولانا نے سمجھایا کہ انتخاب کے ذریعہ ہمیں عوام کے قریب جانے،براہ راست مخاطب ہونے اور کام کر کے دکھانے کا موقع ہاتھ آجائے گا۔مولانا کی بات مانی گئی۔ ۱۹۳۷ء میں انتخاب ہوا اور کانگریس کو اچھی کامیابی ملی۔جس طرح سن بیس کی دہائی میں کانگریس سوراج والے قضیہ میں تبدیلی حامی اور تبدیلی مخالف گروپ میں تقسیم ہوئی تھی اسی طرح تیس کی دہائی میں د ائیں بازو اور بائیں بازو کا رجحان رکھنے والوں میں تقسیم ہو گئی تھی۔دونوں نازک موقعوں پر مولانا ہی نے کانگریس کو منتشر ہونے سے بجایا تھا۔بیشتر مقامات پر ہم مولانا کو صف اول کے رہنماؤں کی رہنمائی کرتے ہوئے پاتے ہیں۔قبل آزادی ہو یا بعد آزادی،تاریخ کے ہر اہم موڑ پر مولانا کے قدموں کے گہرے نشان موجود ہیں۔لیکن پتہ نہیں کس غرض کی بناء پر گاندھی جی نے محمد علی جناح کو قائد اعظم کے لقب سے نوازا تھا!
 بہر کیف،۱۹۳۹ءمیں مولانا دوسری بار کانگریس کے صدر منتخب ہوئے۔اس سے قبل ڈاکٹر راجندر پرساد کے زیر صدارت ورکنگ کمیٹی میں نہرو جی نہیں تھے۔پنڈت نہرو کو کانگریس ورکنگ کمیٹی میں مولانا آزاد نے شامل کیا۔مارچ۱۹۴۰ء کے رام گڑھ اجلاس میں صدر کے عہدے سے مولانا کا تاریخی خطاب آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔جن کی زیادہ تر باتیں رام گڑھ قرار داد میں شامل کر لی گئی تھیں۔جس پر زور انداز میں گیارہ اپریل ۱۹۴۲ء کو سر اسٹفرڈ کر پس (Sir Stafford Cripps)کے اسی روز والے طویل خط کا جواب مولانا نے دیا تھا اس کے کسے ہوئے تحریری مسودہ کو پڑھ کر مولانا کی سفارتی سوجھ بوجھ اور قابلیت کا اندازہ ہوتا ہے۔دستاویزی ثبوت کے طور پر آج بھی دونوں خطوط موجود ہیں۔ہندوستان چھوڑو تحریک کے دوران اگست ۱۹۴۲ءمیں احمد نگر فورڈ جیل کے اندر بطور صدر جب دوسرے رہنماؤں کے ساتھ قید کئے گئے تو سب سے زیادہ سخت اذیت مولانا کو دی گئی۔بیوی سخت علیل تھیں۔لگاتار تشویش ناک خبریں آرہی تھیں۔بار بار کے التجا کے بعد بھی انگریزوں نے ملنے نہیں دیا۔ایک روز ٹیلی گرام ملا کہ بیوی اس دنیا میں نہیں رہیں۔ تین ماہ بعد بہن کے گذر جانے کی بھی خبر جیل میں ملی۔۱۹۴۵ء میں جب رہا ہوئے تو بھوک ختم ہو چکی تھی،جسم ہڈی ہو گیا تھا،وزن ۴۰؍ پونڈ کم ہو گیا تھا۔
 بے شک مولانا ابولکلام آزاد بھارت کی تاریخ میں ایک انتہائی بلند قد آور لیڈر کانام ہے۔قائدانہ صلاحیت کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ ہر بڑی بڑی اہم مشہور تاریخی میٹنگوں میں انگریزی حکومت کے ساتھ ہندوستان کا نمائندہ کے طور پرمذاکرات مولانا اکیلے کر تے تھے۔۱۹۴۲ءکا کرپس مشن (Cripps Mission)ہو،جون۔جولائی ۱۹۴۵ء کا شملہ کانفرنس ہو یا پھر ۱۹۴۶ء کا برٹش کیبنٹ مشن (British Cabinet Mission)،سبھی تاریخی نشستوں میں گاندھی جی سمیت تمام ورکنگ کمیٹی کے مکمل اتفاق رائے سے مذاکرات میں بطور کانگریسی صدر اکیلے شامل ہو کر مولانانے تنہا پورے ہندوستان کی نمائندگی کی تھی۔پوری دنیا میں مولانا کی پہچان اور شہرت کتنی تھی وہ اس واقعہ سے پتہ چلتی ہے کہ ۱۹۴۲ءء میں دوسری عالمی جنگ کے موقع پر امریکہ کے صدر روز ولٹ(President Rosevelt)کا ذاتی نمائندہ ان کا خط لے کر ہندوستانی حمایت اور تعاون کی خاطر مولانا کے پاس آیا تھا۔
 مگر اسے ستم ظریفی یا ملک کی بد قسمتی کہئے کہ آزادی کی یاد کا جب بھی کوئی موقع آتا ہے تو لوگ انتہائی اہم واقعات کو نظر انداز کر تے ہوئے سیدھے آزادی کے اس پار چھلانگ لگا دیتے ہیں۔بطور خاص اس کا ذکر اہمیت کے ساتھ ہونا چاہئے کہ جون ۱۹۴۶ء میں مولانا کی انتھک کو ششوں کی بدولت سبھی فریقوں کے مکمل اتفاق رائے سے یہ طئے پا چکا تھا کہ آزادی بغیر تقسیم کے ملے گی۔پھر اچانک کیا ہوا کہ ملک تقسیم ہو گیا؟سارے اہم واقعات تاریخ کے ریکارڈ میں درج ہیں مگر ان کو چرچہ سے غائب کر دیا گیا۔آج جو کچھ بھی سامنے آتی ہے یا لائی جاتی ہے وہ ادھوری تاریخ کی ایک دھندلی داستان ہے۔عام طور پر گاندھی نہرو اور پٹیل کا ہی نام لیا جاتا ہے۔حیرت کی انتہا توتب ہوتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ پورے کھیل کا احوال بیان ہو گیا اور کپتان ہی چرچا سے غائب ! بڑے بڑے حقائق سے بار بار چشم پوشی انجانے پن کی خاموشی نہیں بلکہ دانستہ احسان فراموشی ہے۔
 آزادی ملنے کے بعد ملک کے پہلے وزیر تعلیم کے طور پر بڑی دور اندیشی سے مستقبل کو سامنے رکھ کر مولانا نے تعلیمی پالیسی وضع کیا۔فن و ثقافت اور تعلیم کے کئی اہم اداروں کے قیام کو عمل میں لایا۔مثلاً یونیورسٹی گرانٹ کمیشن،ساہتیہ اکاڈمی،سنگیت ناٹک اکاڈمی،للت کلا اکاڈمی جیسے کئی قیمتی کار آمد پروگرام مولانا کے دماغ کی ہی دین ہیں۔ان سب کے علاوہ انہوں نے سب سے زیادہ توجہ سائنس اور ٹکنالوجی کے شعبے کو دیا۔ان کے بڑے بڑے اداروں کا نقشہ ٔ راہ (روڈ میپ)تیار کرکے ۱۸؍ اگست ۱۹۵۱ء میں ملک کے پہلے تکنیکی ادارہ (آئی آئی ٹی)کا کھڑگ پور میں سنگ بنیاد رکھا۔مولانا ملک کے مستقبل ساز تھے،جدید بھارت کے نقاش تھے۔ان کی اعلیٰ ترین تعلیمی منصوبہ بندی کی بدولت ہمارے سائنسداں آج چاند ستاروں سے باتیں کر رہے ہیں۔سنجیدگی سے غور کر نے پر یہ امر یقینی معلوم ہو تا ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد جیسی عظیم ہستی کی بلندی کی پیمائش تاریخ میں صحیح طریقے پر نہیں ہو سکی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK