Inquilab Logo

محمد رفیع: تھا کوئی درویش جو اپنے گیت سنایا اور چلا گیا

Updated: October 05, 2023, 6:50 PM IST | Dr Humayun Ahmad | Mumbai

رفیع صاحب کو گزرے ہوئے چار دہائیوں سے بھی زیادہ کا عرصہ گزر گیامگر لگتا نہیں کہ وہ گزرے ہوئے زمانے کے گلوکار ہیں ۔ ان کے نغموں کی کشش کا کمال دیکھئے ! آج بھی کوئی گیت کانوں میں گونجتا ہے تو کسی راہ چلتے تک کے دل میں خواہش ہوتی ہے ٹھہر کے تھوڑی دیر سن لیں۔

Md Rafi. Photo: INN
محمد رفیع۔ تصویر: آئی این این

رفیع صاحب کو گزرے ہوئے چار دہائیوں سے بھی زیادہ کا عرصہ گزر گیامگر لگتا نہیں کہ وہ گزرے ہوئے زمانے کے گلوکار ہیں ۔ ان کے نغموں کی کشش کا کمال دیکھئے ! آج بھی کوئی گیت کانوں میں گونجتا ہے تو کسی راہ چلتے تک کے دل میں خواہش ہوتی ہے ٹھہر کے تھوڑی دیر سن لیں ۔ عالم موسیقی کے لیے محمد رفیع قدرت کی طرف سے ایک نایاب معجزہ تھے ۔ مشکل سے مشکل ترین اتار چڑھائو والے گانوں میں ان کی آواز کی دلکشی اور مٹھاس کو دیکھ کر موسیقی کی بڑی ہستیاں عش عش کر اٹھی ہیں ۔ ماحول کو سہانا بنا دینے والی رفیع کی رسیلی آواز اور ان کے دلکش نغموں کی ہمہ گیریت کا پوری دنیا میں کوئی ثانی نہیں ۔ آج کے بے آب و رنگ دور میں رفیع صاحب کے زندہ ترانوں کی تازگی حیات کے ہونے کا احساس جگا دیتی ہے۔ تھکان بھری خشک دنیا میں سکون کا پیاسا انسان ان کے گیتوں میں کچھ دیر ٹھنڈی راحت کی شادمانی پالیتا ہے۔ 
محمد رفیع کے فلمی سفر کا آغاز سن چالیس کے وسط میں ہوا۔ آوا ز میں موجود لافانی کشش اوراپنے دلفریب انداز ادائیگی کے صَوتیاتی اثرات کی بدولت وہ بہت جلد بلندی کے اعلیٰ ترین مقام پر پہنچ گئے۔ اس وقت سنیما ہال ریڈیو اور لائوڈ اسپیکر کا زمانہ تھا۔ مسلسل تین دہائیوں تک کچھ پڑوسی سمیت پورے ملک میں رفیع صاحب کے نغموں کی ایسی والہانہ دھوم تھی گویا وہ روزانہ کے معمول کا ایک حصہ بن گئے ہوں ۔ ہر جگہ ہر موقع پر رفیع صاحب کے مختلف رنگوں والے نغموں کی گونج فضا میں چھائی رہتی تھی۔ نہ جانے کتنے پشتوں کے لوگ رفیع صاحب کے رومانی گانوں کے دریامیں ڈوب کر بچپن سے جوان ہو گئے۔ 
مختلف انداز والے گانوں میں سروں کی کثیر الجہتی سے رفیع صاحب نے ہر رنگ کی مٹھاس بھری ہے۔ خوشیوں کی کھنک ہو یا شکستہ دلی کی اداسی آواز کی دنیا کی ساری ندیاں جس ایک سمندر میں آکر ملتی ہیں اس سمندر کانام ہے محمد رفیع ۔ حقیقت حال تو یہ ہے محمد رفیع پر ایک جامع تجزیاتی نگاہ ڈالیں تو سوچ و فکر میں آدمی ششدررہ جاتا ہے۔ رفیع صاحب کے نغموں کی طغیانی میں غوطے لگاتے جائیے۔ ان کی نغمہ سرائی کے بے کراں سرمایہ کا ایک غائر انکشاف کرتے جایئے۔ نئے نئے جہت کے نایاب نمونے و نادر جوہر ملتے جائیں گے ۔ یہاں یہ امر قابل لحاظ ہے کہ بات محمد رفیع کی ہورہی ہے۔ اتنے وسیع اور اتنی گہرائی والے سمندر کے موتیوں کو سجانے کے لیے جہاں کوئی دائرۃ المعارف (انسائیکلو پیڈیا) درکار ہو وہاں انہیں ایک مضمون میں پرونا ممکن نہیں ۔ پھر بھی رفیع کی گائیکی کی معجزاتی خصوصیات کا جائزہ لیاجائے تو سمندر سے لیے گئے چند قطرات کی بنا پر یہ کہاجاسکتا ہے ان کی گلوکاری میں حسن کی تعریف میں گائے نغموں کا مقام سرفہرست ہوگا۔ ان نغموں کو سن کر لگتا ہے حسن کی تخلیق کے بعد اس کی تعریف بیان کرنے کے لیے اوپر والے نے محمد رفیع کو بنایا۔ حسن کی تعریف میں گائے رومانی نغموں کا اتنا بڑا ذخیرہ ہے کہ اس کے قیمتی خزانے سے لافانی شاہ کار کو بھی لیں تو شمار کرنا مشکل ہوگا۔ دوسری جانب مذہب کے تعلق سے رفیع صاحب کے گائے عقیدت بھرے نغموں کو دیکھیں تو لگتا ہے کوئی بے بس فریادی عاجزی کے ساتھ اپنے مالک کو پکار رہا ہے۔ ان نغموں میں رفیع صاحب کی طلسماتی آواز کسی پر بھی ایک روحانی کیفیت طاری کردیتی ہے۔ وہیں اکثر یتی مذہب والوں کے لیے بھی رفیع صاحب نے بھکتی سنگیت کے ایسے ایسے شاندار راگ بکھیرے ہیں کہ سننے کے بعد بڑے بڑے بھکت جنوں پر بھی سکتہ طاری ہوجاتا ہے۔ عموماً جس جانب کم توجہ جاتی ہے وہ ہیں بچوں کے لیے گائے میٹھے چلبلے گیت، چٹ پٹے انداز میں گائے ان گانوں کی جانب بچے تو راغب ہوتے ہی ہیں ساتھ میں بڑوں کی بھی پاکیزہ تفریح ہوجاتی ہے۔ حب الوطنی سے لبریز قومی ترانوں کے رفیع صاحب شہنشاہ تھے۔ نازک موقعوں پر قربانی کے لیے دھرتی پکارتی ہے تو حرارت اور توانائی کا پیدا ہونا وقت کی ضرورت ہوجاتی ہے۔ وقت نے جب بھی پکارا رفیع کی آواز نے رگوں میں حرارت اور توانائی کی لہر دوڑادی ۔ سن باسٹھ کی چینی جنگ کے وقت رفیع صاحب کی گھن گرج والی آواز ایک بار آسمان سے ٹکراتی تھی تو لگتا تھا دشمن ہل رہا ہے۔ پاک صاف محمد رفیع صاحب نے کبھی ہاتھ تک نہیں لگایا مگر شراب کے نشے میں دھت ڈگمگاتے ہوئے کسی شرابی کے لیے بھی گانا ہوا تو اپنی نشیلی آواز کا ایسا جادو جگایا کہ دنیا جھوم اٹھی۔ رفیع کے دل نشیں لحن کا یہ کرشمہ ہے کہ وقت کے گذرنے کے ساتھ نغموں کا خمار اور اوپر جاتا ہے۔ حد تو یہ ہے موسیقی میں گائے جانے والے مختلف قسم کے غیر لفظی الاپوں کی ادائیگی میں بھی وہ اوروں سے بہت آگے ہیں ۔ جیسے آآآ۔۔۔۔ یا اوں ں ں ں ۔۔۔ وغیرہ ۔ ان کی بندشوں میں خوش الحان رفیع نے جنتی بے مثال اور بے شمار میٹھا رس بھرا ہے اس کے خوش گوار ذائقہ کو بھلا کون بھلا سکتا ۔ 
موسیقاروں اور شاعروں کے کسی بھی تخلیقی تخیل کا وجود میں آنا رفیع صاحب کی موجودگی میں بآسانی ممکن ہوجاتا تھا۔ ان کی آواز اور گائیکی میں اتنی روانی اور ایسی سیّالیت (Fluidiy)تھی کہ جب چاہو جہاں چاہو جیسے چاہو جدھر چاہو موڑ دو۔ جس سانجے میں چاہو ڈھال دو جس روپ میں چاہو اتار لو۔ وہیں ان کی زور دار آواز اونچائیوں میں بھی لہراتی ہے اور اتنی لہراتی ہے کہ کبھی آسمان کو چھوتی ہے تو کبھی ستاروں سے ٹکراتی ہے۔ دوسری جانب عشق و محبت کی حد انتہا کو چھونے والے کچھ نغموں میں ان کی لَے اتنی مدھم ہوئی ہے کہ آیا کوئی کانوں کے بالکل قریب آکے چپکے چپکے صرف ہونٹ ہلارہا ہو۔ سُر اور لَے میں آواز کی ایسی قدرتی صلاحیت وکثیر الجہتی کہیں اور ممکن نہیں ۔ کوئی موقع ہو کیسا بھی ماحول ہو انسانی فطرت کی ہرکیفیت کا احساس جگادینے میں رفیع صاحب کو انفرادی مہارت حاصل تھی۔ انسانی مزاج کے جس پہلو کوبھی لیں یوں لگتا ہے سننے والاان کی جاذب توجہ آواز میں اپنے کسی انکہے جذبات کو محسوس کررہا ہے۔ محمد رفیع کے اس کمال کا معیار اپنے عروج کی اس انتہا کو چھوتا ہے کہ ان کے بعد ایسے کسی اور نظیر کا تصور ممکن نہیں ۔ 
موسیقاروں کے تصور کی کسی بھی پرواز کو محمد رفیع اس کی اصل بلندی تک بڑی بے تکلفی سے پہنچا دیتے تھے۔ ان کی آواز نغمہ زن طائر کی طرح فضا میں ہرسمت آزادی سے چہل قدمی کرتی ہے۔ ان کے جانے سے موسیقاروں کی پرواز تخیل کے پر کٹ گئے۔ رفیع صاحب کے دور کے ایک سے بڑھ کر ایک نامور شاعروں نے ان کی آواز کی چاہ میں اعلیٰ درجے کی شاعری والے بہترین نغموں کا دریا بہا دیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کوئی لفظ رفیع صاحب کے گلے سے ہوکر گذرنے کے بعد اپنا معنیٰ و مفہوم خود بیان کررہا ہے۔ ان کے چلے جانے سے شاعروں کی شاعری میں شاعرانہ الفاظ کے اندر روح سمادینے والی آواز چلی گئی۔ اب نہ وہ ذوق رہا نہ معیار رہی نہ فلموں کی فضا میں ادبی بودو باش والی رونق رہی۔ 
محمد رفیع نے چھوٹے بڑے تمام اداکاروں کے لیے نغمے گائے۔ جہاں اپنی آواز کے طلسم سے بڑے بڑوں کی بڑائی کو اور بھی بڑا بنا یا وہیں اتنی ہی یکسوئی اور لگن کے ساتھ ان کرداروں کے لیے بھی گیت گاکر فلموں میں جان ڈال دی جن کوکوئی جانتا بھی نہیں تھا۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ ان کی ضرورت سب کو تھی۔ وہ انڈسٹری کے اتنے بڑے ستون تھے کہ بہت زیادہ فلموں میں ان کے اوپر ہر کسی کی کامیابی ٹکی رہتی تھی۔ کسی اداکار کے انداز و مزاج کو ذہن میں رکھتے ہوئے سین کے تقاضے کے مطابق گیتوں کو سروں میں ڈھالنا ایک ادق ذمہ داری ہو تی ہے۔ رفیع صاحب اس طلسماتی خوبی کے اچھوتے ماہر تھے۔ کلاسیکی موسیقی کے باریک پہلوئوں پر اپنی مضبوط گرفت کی بدولت وہ اس دو بھر ذمہ داری کو بڑی مہارت سے انجام دیتے تھے۔ کسی بھی ریکارڈنگ سے پہلے رفیع صاحب کو اس بات کا پتہ ہوتا تھا کہ شہد میں مٹھاس بھرنے کے لیے کب کس پھول سے رس نچوڑنا ہے۔ 
رفیع صاحب نے کل کتنے گیت گائے یہ بتانا مشکل ہے پھر بھی ایک عام تخمینہ کے مطابق یہ تعداد ربع لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے۔ یہاں یہ امر زیادہ اہم ہے کہ انھوں نے کتنے قسم کے گانے گائے۔ ان کے تمام گانوں کی مناسب طریقے سے درجہ بندی (Categorization) کردی جائے تو یہ ایک قابل قدر کو شش ہو گی ۔ ان کی فائق نغموں کا ضخیم خزانہ سنجیدہ تو جہ و تحقیق کا متقاضی ہے ۔ رفیع کے گیتوں کے تنّوع (Varieties) کا احاطہ کرنا ایک مشکل کام ہے۔ تاہم ماہرین موسیقی ایسا کریں تو دنیا ئے موسیقی کے لیے یہ ایک خدمت ہو گی۔ 
ہر بار نئے نکھارکے ساتھ نیا انداز پیدا کرنا، اس قدر اختراع (Innovation) ، اتنی تبدیلیاں ، اتنی زیادہ جدت نابغہ محمد رفیع کے علاوہ اور کہاں مل سکتی ہیں ۔ ساتھ میں یہ بھی دیکھیں کہ موسیقی کے اتار چڑھائو والی دشوار ترین راہوں پر جس آسانی سے محمد رفیع گذر جاتے ہیں اس کی مثال کیا کہیں اور ممکن ہے ؟ اندرون ملک تو دور دنیا کے کسی کونے میں بھی ڈھونڈکے دیکھا جائے۔ اتنا بڑا ذخیرہ میں اتنی ساری خوبیوں کو دیکھنے کے باوجود لوگ خواہ مخواہ دوسرے سنگر کا محمد رفیع سے مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ بانوے چورانوے کا سو (۱۰۰) سے موازنہ ہوسکتا ہے مگر تیس بتیس یاچونتیس کا سو سے کیا مقابلہ! موسیقی کے بڑے جانکاروں کو بین الاقوامی سطح پر بھی چند اہم نکات کے اوپر بھی غور کرلینا چاہیے۔ ارتعاشات کی اضافی سرعت (High Pitch) والی اونچی تان میں محمد رفیع کو مکمل طور پر امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ حیرت کی انتہا تو یہ ہے سُر اور الاپ کی کسی بھی بلندی پر خوش آہنگ مٹھاس ویسی ہی بنی رہتی ہے ۔ آواز کے سروں کی بے مثال حدیں (Unparalleled range) ، ہمہ گیریت (Versatatity) ، تنّوع (Variety) اور ارتعاشات کی شرح (Pitch) کی بنیاد پر عبقری (Genius) محمد رفیع کی برابری پر کون آسکتا ہے۔ نیز محمد رفیع کے بہت زیادہ مختلف زبانوں میں گائے گیتوں کی آواز کے مختلف پہلوئوں پر ماہر صَوتیات (Phoneticians) تحقیقی نگاہ ڈالیں تو ان کے پوری دنیا میں اعلیٰ ترین گلوکار ہونے کے امر کو مزید وثوق حاصل ہوجائے گا۔ یہاں یہ حقیقت بھی باعث دلچسپی ہے کہ آج عمرانی ذرائع ابلاغ (سوشل میڈیا ) کے غلبے نے محمد رفیع کے تعلق سے اتنی حیرت انگیز معلومات کو منظر عام پر نمایاں کردیا ہے جو اب تک لوگوں کی رسائی سے محروم تھیں ۔ رفیع صاحب کے ہم سر صف اول کے گلوکاروں ، موسیقاروں نیز ان کے اہل خانہ کے بے شمار ویڈیوز (Videos) آج عوام سے روبرو ہیں ۔ چوٹی کے مایۂ ناز فن کاروں نے رفیع صاحب کی تعریف میں جیسے والہانہ کلمات خود سے کہے ہیں ان کے بعد رفیع صاحب کے عظیم ترین گلوکار ہونے کی بات اب کسی مزید انکشاف کی محتاج نہیں رہی۔ 
ایک اعلیٰ درجہ کے نیک دل اور خوش مزاج انسان کے طور پر رفیع صاحب کی شناسائی میں صد فیصد اتفاق رائے پایاجاتا ہے۔ اس پایہ کااعزاز کسی بھی فن کار کے لیے ناقابل یقین حد تک غیر معمولی ہے۔ یایوں کہیے دنیائے موسیقی کی تاریخ کی کتاب میں محمد رفیع ایک ایسے سنہرے ورق کانام ہے جس کے ایک صفحہ میں سحرانگیز مسرور آواز کی خوبیاں ہیں تو دوسرے میں کسی نیک دل انسان کی طبیعت کا روشن پہلو۔ جس طرح ایک ورق کے دو صفحوں کو الگ نہیں کیاجاسکتا اسی طرح محمد رفیع کی شخصیت سے نیکی اور فن پارہ کو جدا نہیں کیاجاسکتا۔ انانیت یا تکبّر سے کوسوں دور اس سادہ فطرت انسان کے چہرے پر ہمیشہ ایک معصوم مسکراہٹ بنی رہتی تھی۔ رفیع صاحب کے زیادہ تر گانوں میں ان کے چہرے کی طرح ان کی آواز بھی مسکراتی ہے۔ رفیع صاحب فلمی دنیا کے بادشاہ تھے مگر ان کے اندر کوئی فقیر بستا تھا۔ یاد کرنے سے ایسا لگتا ہے تھاکوئی درویش جو اپنے گیت سنایا اور چلاگیا۔ 
اوارڈ خواہ کسی کو کچھ بھی ملے محمد رفیع اپنے آپ میں بھارت کے رتن ہیں ۔ کسی کو بھارت رتن ملنے پر کہتا ہے مجھے بھارت رتن ملا۔ رفیع صاحب کو بھارت رتن ملے تو بھارت رتن سے آواز آئے گی مجھ کو محمد رفیع مل گئے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK