دورِ حاضر کی سیاست پیچ در پیچ ایک دُشوار گزار راستے جیسی ہوگئی ہے۔ اگر بہت تفصیل سے نہیں تو آپ کو کم از کم چند موٹی موٹی باتیں جاننی چاہئیں۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ اکثر طلبہ کا ’’پولیٹکل آئی کیو‘‘ زیادہ نہیں ہوتا۔
EPAPER
Updated: May 24, 2024, 3:32 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
دورِ حاضر کی سیاست پیچ در پیچ ایک دُشوار گزار راستے جیسی ہوگئی ہے۔ اگر بہت تفصیل سے نہیں تو آپ کو کم از کم چند موٹی موٹی باتیں جاننی چاہئیں۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ اکثر طلبہ کا ’’پولیٹکل آئی کیو‘‘ زیادہ نہیں ہوتا۔
سیاست عام طور پر خشک موضوع خیال کیا جاتا ہے اور بیشتر افراد اس میں دلچسپی نہیں لیتے۔ آج سے ۵؍ عشروں قبل تک یہ مردوں کا میدان خیال کیا جاتا تھا۔ لیکن جیسے جیسے لوگوں میں سیاسی بیداری آئی، ہر عمر اور جنس کے افراد اس میں حصہ لینے لگے۔ ہندوستانی تاریخ میں ایسے بے شمار افراد گزرے ہیں جنہوں نے اپنی عمر اور جنس کی پروا نہیں کی اور ملک کی سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ آزادی کی لڑائی بھی سیاست تھی۔ آزادی کا عمل بھی سیاست تھا اور آزادی کے بعد آزاد ملک کا قیام اور اس کے امور بھی سیاست ہی کے زمرے میں آتے ہیں۔
اسکول میں طلبہ تاریخ اور شہریت جیسے مضامین کے ذریعے قومی اور عالمی سیاست سے کسی نہ کسی طرح جڑے رہتے ہیں، اس طرح ان میں سیاسی سوجھ بوجھ پیدا ہوتی ہے البتہ بالغ ہونے کے بعد بعض طلبہ اس میں دلچسپی لیتے ہیں جبکہ متعدد اس سے کنارہ کشی اختیار کرلیتے ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ ایک جمہوری ملک میں سیاست سے کنارہ کشی کس حد تک درست ہے؟ جمہوری ملک میں شہری کو متعدد حقوق حاصل ہوتے ہیں جن میں ایک اہم حق ووٹ دینے کا ہے۔ ووٹ تبدیلی کا ذریعہ ہے۔ سیاست سے باخبر شخص ہی اپنے اس حق کا درست استعمال کرسکتا ہے۔ اگر آپ سیاسی طور پر بیدار نہیں ہیں تو گھر کے بڑے یا دوست جو کہیں گے، آپ وہ کریں گے۔ وہ اگر کہیں گے کہ فلاں امیدوار کو ووٹ دینا ہے تو آپ کوئی سوال پوچھے بغیر اسے ووٹ دے دیں گے۔ لیکن اگر آپ سیاسی طور پر بیدار ہوں گے تو کسی بھی امیدوار کو ووٹ دینے سے قبل اپنے آپ سے درجنوں سوال پوچھیں گے، اور اچھی طرح تجزیہ کرنے کے بعد ہی اپنا قیمتی ووٹ دیں گے۔ اس طرح آپ اپنے آس پاس کےلوگوں کو بھی متاثر کرسکیں گے۔
ہر شخص کا اپنے ملک کی سیاست سے باخبر رہنا اشد ضروری ہے۔ ایک جمہوری ملک کا قیام ذمہ داری، جوابدہی اور آزادانہ ماحول پر ہوتا ہے۔ جمہوری اور سیکولر ملک میں ہر شہری ذمہ دار ہوتا ہے، اس لئے اسے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا اور ان پر عمل کرنا چاہئے۔
نوجوان ملک کا مستقبل
نوجوانوں، خاص طور پر طلبہ، سے امید کی جاتی ہے کہ وہ مستقبل میں ملک کی بہتری میں کلیدی کردار ادا کریں گے لیکن ملکی سیاست میں ان کی عدم دلچسپی مایوس کن ہے۔ لوک سبھا انتخابات ۲۰۲۴ء میں ووٹوں کے تناسب میں کمی یہ ظاہر کرتی ہے کہ شہری انتہائی اہم جمہوری عمل میں حصہ نہیں لے رہے ہیں۔ ’’سیاست بری چیز ہے اور اس میں بدعنوانی ہوتی ہے،‘‘ جیسے جملے کہہ کر نوجوان سیاست سے دوری اختیار کررہے ہیں۔ لیکن ان حالات میں انہیں سیاست سے کنارہ کشی نہیں اختیار کرنا چاہئے بلکہ تبدیلی کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس میں دلچسپی لیں اور اپنے ملک اور آئین سے عہد کریں کہ وہ سیاسی طور پر اپنے ملک کو مستحکم کرنے کے اقدامات کریں گے۔ آج کے نوجوان ہی کل کے مضبوط ہندوستان کا مستقبل ہیں۔ انہیں اپنی طاقت کے کا اندازہ کم عمر ہی میں ہوجانا چاہئے۔ اگر کوئی چیز درست نہ ہو تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دینا ٹھیک نہیں ہے بلکہ اسے سنوارا جانا چاہئے۔
سیاسی شعور کیا ہے؟
سیاسی شعور کا معنی ہے سیاست کی بنیادی معلومات سے واقفیت، تاریخ کے اہم مسائل کا مطالعہ اور موجودہ واقعات کا باخبر عینک سے تجزیہ کرنے کی صلاحیت۔ سیاست سے باخبر ہونا اور سیاست میں داخل ہونا، دو الگ باتیں ہیں۔ جو طلبہ سیاست کے میدان میں داخل نہیں ہونا چاہتے، وہ اس میں داخل نہ ہوں، مگر ہر طالب کو سیاست سے باخبر ضرور رہنا چاہئے۔ ہر شہری کو اپنے ملک کے حالات سے باخبر رہنا چاہئے۔
سیاسی بیداری کیوں ضروری ہے؟
اگر آپ غور کریں تو احساس ہوگا کہ آپ کی پوری زندگی سیاست سے متاثر ہے۔ مہنگائی ہو، روزگار ہو، معیشت ہو، انفرااسٹرکچر ہو، ہر چیز پر سیاست کی چھاپ ہے۔ حکومت ہی ہر چیز طے کرتی ہے، اور حکومت کا انتخاب شہری کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے شہری زیادہ طاقتور ہیں مگر وہ اپنی اس طاقت سے ناواقف ہیں۔ چونکہ آپ کی پوری زندگی پر سیاست چھائی ہوئی ہے اس لئے آپ کا سیاسی طور پر بیدار رہنا ضروری ہے۔
پارلیمنٹ میں سیاستدانوں کی جانب سے بنایا گیا ایک اصول یا قانون آپ کی پوری زندگی پر مثبت یا منفی طریقے سے اثر انداز ہوسکتا ہے۔
شہری ۱۸؍ سال کی عمر میں ووٹ دینے کے اہل ہوجاتے ہیں، جیسے جیسے ہائی اسکول کے طلبہ ووٹ ڈالنے کی عمر کے قریب پہنچتے ہیں، انہیں قومی اور عالمی خبروں سے آگاہ رہنا چاہئے۔ انہیں مختلف سیاستدانوں کے بارے میں پڑھنا چاہئے، بطور خاص ان کے متعلق جو اہم عہدوں پر فائز ہیں اور جو آپ کے حلقے سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ آپ کو اس بات کا احساس رہنا چاہئے کہ آپ صحیح امیدوار کو ووٹ دیں ۔ یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب آپ سیاسی طور پر بیدار رہیں گے۔
اسکولی نصاب میں، تاریخ، شہریت اور معاشیات جیسے مضامین اسی لئے شامل کئے گئے ہیں کہ طلبہ کم عمری ہی سے اپنے ملک اور اپنے حقوق کے بارے میں جانیں۔ اگر غور کریں تو احساس ہوگا کہ اسکولی سطح ہی پر طلبہ کے ذہنوں میں سیاسی بیج بونے کی کوشش کی جاتی ہے مگر کالج میں آنے کے بعد سیاست بطور مضمون، کا انتخاب وہی طلبہ کرتے ہیں جنہیں سیاست میں دلچسپی ہوتی ہے جبکہ جائزہ لیں تو آپ پر یہ حقیقت آشکار ہوگی کہ آپ کی پوری زندگی کے گرد سیاست گھومتی ہے۔ جمہوری ملک آپ کو ووٹ دینے اور اپنی حکومت منتخب کرنے کا حق دیتا ہے، اس لئے سیاست سے واقفیت ضروری ہے۔
طلبہ سیاسی طور پر کیسے بیدار ہو سکتے ہیں؟
آج کی دنیا میں یہ بہت آسان ہے۔ مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور ویب سائٹس نے خبروں کے پھیلاؤ کو آسان بنادیا ہے۔ مستند خبروں کیلئے آپ ملک کے اہم اور بڑے اخبارات کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔ ٹی وی چینلوں کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ آج کی دنیا میں سب سے بڑا مسئلے جعلی اور درست خبروں کا بھی ہے جن سے بچنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ خبر کی حقیقت جاننے کیلئے آپ مختلف ویب سائٹس اور اخبارات میں اس کے بارے میں پڑھیں، اور انہیں ویریفائی کریں، تبھی آپ صحیح اور غلط میں فرق کرسکیں گے۔ آپ سیاسی مباحثے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ آپ جس امیدوار کو ووٹ دینا چاہتے ہیں اس کا تعین کرنے کیلئے مختلف پالیسیوں کے بارے میں ان کے نقطہ نظر کو صحیح معنوں میں سمجھنے کیلئے از خود تحقیق کر سکتے ہیں۔
اسی طرح نوجوان، خاص طور پر طلبہ، ملک اورسماج کا مستقبل ہیں اور انہیں اپنے آپ کو اپنے ملک، دنیا اور معاشرے میں شامل رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
یاد رہے کہ تعلیم کا مقصد ڈگری حاصل کرنا، پرکشش تنخواہ کمانا اور معیاری زندگی گزارنا نہیں بلکہ ایسا ’تعلیم یافتہ‘ شہری بننا ہونا چاہئے جو سماجی و سیاسی شعور سے عاری نہ ہو، اور ذاتی ترقی کے ساتھ ملکی ترقی کی بھی پروا کرے۔ جو نوجوان سیاسی شعور نہیں رکھتے، یا اپنے حق رائے دہی کی اہمیت کو نہیں سمجھتے، کیا وہ لوگوں، تنظیموں، نظریات اور زندگی کے بارے میں تنقیدی اور آزادانہ رائے کا اظہار کرنے کی ہمت کرسکتے ہیں؟ کیا ملک و قوم کی ترقی میں مثبت کردار ادا کر سکیں گے؟
تنقیدی سوچ، مباحثے
سیاسی اور نفسیاتی ماہرین کہتے ہیں کہ سیاست میں دلچسپی لینے والے طلبہ تنقیدی سوچ کے حامل ہوتے ہیں۔ انہیں نہ صرف سرکاری پالیسیوں کا علم ہوتا ہے بلکہ وہ دیگر ممالک کی پالیسیوں سے ان کا موازنہ کرنے کے بعد یہ سمجھنے کے بھی اہل ہوجاتے ہیں کہ ان کا ہندوستانی عوام پر کیا اثر پڑے گا۔
طلبہ کو چاہئے کہ وہ اپنے طور پر سیاسی موضوعات پر بحث کریں۔ اس طرح ان کی تنقیدی اور تخلیقی سوچیں پروان چڑھیں گی اور وہ صحیح طریقے سے فیصلے کرنے کے قابل ہوں گے۔ ایک صحت مند معاشرہ اس وقت مزید صحت مند بنے گا جب وہاں کے طلبہ فعال ہوں گے۔
بالغ ہوجانے کے بعد طلبہ کو سیاست میں اس لئے بھی دلچسپی لینا چاہئے کہ وہ صحیح غلط کا فیصلہ کرسکیں۔ انہیں اپنی سوجھ بوجھ سے حکومت کو جوابدہ بنانا چاہئے کہ ان کے سیاسی موضوعات شہریوں کے حق میں ہیں یا نہیں۔ یاد رہے کہ تاریخ میں طلبہ کی جانب سے ایسے کئی مظاہرے ہوئے ہیں جنہوں نے اس وقت کی حکومت کو اپنے فیصلے تبدیل کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ طلبہ سیاست کے میدان میں کافی طاقت رکھتے ہیں۔ تاہم، انہیں اپنی اس طاقت کو نہ صرف سمجھنا چاہئے بلکہ ان کا درست استعمال بھی کرنا چاہئے۔