Census (سینسس) کو ۲۰۲۱ء میں مکمل ہوکر منظر عام پر آجانا چاہئے تھا مگر کووڈ کی وجہ سے اسے روکاگیا۔ اب یہ اکتوبر ۲۰۲۴ء میں متوقع ہے جسے مکمل ہونے میں ۱۸؍ ماہ لگ سکتے ہیں۔
EPAPER
Updated: September 24, 2024, 5:34 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
Census (سینسس) کو ۲۰۲۱ء میں مکمل ہوکر منظر عام پر آجانا چاہئے تھا مگر کووڈ کی وجہ سے اسے روکاگیا۔ اب یہ اکتوبر ۲۰۲۴ء میں متوقع ہے جسے مکمل ہونے میں ۱۸؍ ماہ لگ سکتے ہیں۔
مَردُم شماری (Census) (تلفظ: سینسس) ایک ایسا عمل ہے جو ہر ملک میں انجام دیا جاتا ہے۔ مردم کا معنی ہے، مرد، انسان، آدمی، لوگ۔ شماری کا معنی ہے گنتی کرنا۔ مردم شماری کا معنی ہے، آدمیوں کا شمار۔ ایک ملک میں کتنے لوگ آباد ہیں، ان کی گنتی تاکہ آبادی کا اندازہ لگایا جاسکے۔ مردم شماری میں صرف لوگوں کا شمار نہیں کیا جاتا بلکہ ان کے بارے بنیادی معلومات بھی اکٹھا کی جاتی ہے، مثلاً وہ مرد ہے یا عورت، اس کی عمر کیا ہے، وہ کون سی زبان بولتا ہے، کون سے مذہب سے تعلق رکھتا ہے، وغیرہ۔ مردم شماری عام طور پر ۱۰؍ سال میں ہوتی ہے۔ اس عمل سے جمع ہونے والا مواد معاشی منصوبہ بندی میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ملک کی ضروریات کیا ہیں، ملک کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے یا کمی آئی ہے، وغیرہ ۔ اس بنیاد پر سیاسی منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور ضروریات کی مناسبت سے پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں۔مردم شماری کے کئی فوائد ہیں یہی وجہ ہے ہر ملک اسے انجام دیتا ہے۔
ہندوستان میں مردم شماری کی تاریخ
ہندوستان (آزادی سے قبل) میں وائسرائے لارڈ مایو کی نگرانی میں ۱۸۷۲ء میں پہلی مردم شماری کی گئی تھی۔ تاہم، مکمل مردم شماری ۱۸۸۱ء میں ہوئی، اس کے بعد سے ملک میں ہر ۱۰؍ سال کے بعد مردم شماری ہورہی ہے۔ ۲۰۱۱ء میں مردم شماری کی ۱۵؍ ویں رپورٹ جاری ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے اب تک مردم شماری نہیں ہوئی ہے، یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے خبروں میں موضوع بحث ہے کہ حکومت جلد سے جلد مردم شماری کروائے۔
مردم شماری کیوں ضروری ہے؟
عوام کو حاصل بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا دارومدار آبادی کے درست اعداد و شمار پر ہوتا ہے۔ مردم شماری وہ پیمانہ ہے جس کے ذریعے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ ملک کی ضروریات کیا ہیں، ملک کو کن مسائل کا سامنا ہے، ملک کی آبادی میں کمی یا اضافہ کتنا ہوا ہے، ملک کی اکثریتی آبادی کا تعلق کس نسل یا زبان سے ہے، کتنے فیصد طبقے تعلیم یافتہ ہیں اور کتنے نہیں، خواندگی کی شرح کیا ہے؟ ملک میں موجود اقلیتوں کا کیا حال ہے؟ اس کےعلاوہ ہم معاشرے میں رہنے والے مختلف قسم کے لوگوں کے معیار زندگی کا مطالعہ بھی بہتر انداز میں کرسکتے ہیں۔
مردم شماری کے ذریعے ملک کی مجموعی آبادی، مردوں، خواتین اور بچوں کی تعداد، شرح نمو، شرح اموات، ملک کے اندرونی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد، بیرون ملک کام کرنے والوں کی تعداد، غیر شادی شدہ اور شادی شدہ افراد کی تعداد، گھروں کی تعداد، زراعت، صنعت یا ذاتی کاروبار سے منسلک افراد کی تعداد، پرائمری اور میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد، ذرائع آمدنی، گریجویٹ کی تعداد، غربت کی شرح وغیرہ معلوم کرسکتے ہیں۔ وہ قوم جو اپنی آبادی کی تعداد گننے میں دلچسپی رکھتی ہے، سیاسی، معاشی، سماجی اور ترقیاتی اعتبار سے مضبوط ہوتی ہے۔
ملک اُس وقت تک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا جب تک آبادی کے اعداد و شمار درست طور پر معلوم نہ ہوں۔ مردم شماری کے تحت ملکی آبادی کا تعین ہی وہ بنیادی عمل ہے جس کے ذریعےمعاشرے کے مسائل کی نشاندہی بہتر انداز میں کرکے انہیں حل کرنے کیلئے حکمت عملی بنائی جاسکتی ہے۔ مردم شماری کے تحت حاصل ہونے والا مواد اور اعداد و شمار کے ذریعے محققین اور تجزیہ نگار معاشرے میں مختلف امور پر معاشی اور معاشرتی تبدیلیوں کے ختم یا پیدا ہونے والے رحجان کی نشاندہی کرتے ہیں اور مسائل کا حل پیش کرتے ہیں۔
پھر اس مواد اور اعداد و شمار کے ذریعے مختلف علاقوں کے عوام کی طرز زندگی کا مطالعہ کرسکتے ہیں اور انہیں بہتر انداز سے جانچ سکتے ہیں کہ فلاں علاقے کے لوگ کس قسم کے ہیں، کیا پسند کرتے ہیں، کس پیشہ سے وابستہ ہیں؟ یہاں تعلیم دی جاتی ہے یا نہیں؟ خیال رہے کہ مردم شماری کے اعداد و شمار کی بنیاد پر ریاستوں اور یوٹیز میں قومی وسائل کی تقسیم کا حصہ طے کیا جاتا ہے اور آبادی کے تناسب سے وسائل کی منصفانہ تقسیم شفاف انداز سے کرنے میں مردم شماری کے اعداد و شمار معاون اور کار آمد ہوتے ہیں۔ اسی طرح مردم شماری کے اعداد و شمار کی بنیاد پر ملک کے پالیسی ساز مختلف شعبوں میں پالیسیاں بہتر انداز سے بنا سکتے ہیں۔ انہی اعداد و شمار کو سامنے رکھتے ہوئے حکومتیں اپنا لائحہ عمل طے کرتی ہیں، پھر چاہے وہ سیاسی ہو یا سماجی۔
۲۰۲۱ء میں مردم شماری کیوں نہیں ہوئی؟
۲۰۲۰ء میں کورونا وائرس کی وباء پھیل جانے کے سبب حکومت نے کہا تھا کہ ۲۰۲۱ء میں مردم شماری ممکن نہیں ہے۔ اس سے قبل مردم شماری کا آغاز یکم اپریل ۲۰۲۰ء سے ہونا تھا۔ وبائی حالات ختم ہوجانے کے باوجود مردم شماری متعدد مرتبہ تاخیر کا شکار ہوئی۔ ۲۰۲۲ء سے ۲۰۲۳ء اور پھر اب کہا جارہا ہے کہ مردم شماری کا عمل اکتوبر ۲۰۲۴ء سے شروع ہوگا۔ تاہم، حکومت کی طرف سے یہ واضح نہیں کیا گیا کہ مردم شماری ۲۰۲۲ء اور ۲۰۲۳ء میں کیوں نہیں ہوئی۔ اس کی وجہ سے محقق پریشان ہیں کیونکہ کوئی بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ہندوستان اور ہندوستانیوں کی ضرورت کیا ہے۔ خیال رہے کہ ۲۰۱۱ء کے بعد سے ملک میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، خاص طور پر ڈجیٹل محاذ پر۔ اس کے بعد وبائی حالات نے بھی لوگوں کی زندگیوں کو تبدیل کردیا ہے۔ ایسے میں ضروری ہوگیا ہے کہ ہندوستان میں مردم شماری ہو،اور نئی ضرورتوں اور سہولیات کی مناسبت سے عوام کیلئے پالیسیاں ترتیب دی جائیں۔
مردم شماری نہ ہونے کے نقصانات
(۱) وسائل کی غلط تقسیم:
مردم شماری کے تازہ ترین اعداد و شمار کے بغیر، حکومتیں وسائل کو غلط طریقے سے مختص کر سکتی ہیں، یعنی حکومت کی طرف سے جاری کردہ فنڈ ایسے لوگوں تک پہنچ سکتے ہیں جو اَب اس کے مستحق نہیں ہیں، اور جو حقیقتاً مستحق ہیں وہ اسکیموں کا فائدہ نہیں اٹھا پاتے۔
(۲) فلاحی اسکیموں سے اخراج:
اگر حکومت کے پاس آبادی کے بارے میں درست اعداد و شمار نہیں ہیں تو لوگوں کی بڑی تعداد فلاحی اسکیموں سے محروم ہوسکتی ہے۔بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ اسکیموں سے کوئی اور فائدہ اٹھا رہا ہوتا ہے۔
(۳) حلقوں کی حد بندی:
مردم شماری کے تازہ ترین اعداد و شمار کی کمی انتخابات کیلئے حلقوں کی حد بندی کے طریقہ کار پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ آبادی کے لحاظ سے حلقوں کی حد بندی ہوتی ہے۔
(۴) گمراہ کن سروے کے نتائج:
مردم شماری کا پرانا ڈیٹا ناقابل اعتبار ہو سکتا ہے، اس لئے اس پر مبنی نمونے کے سروے گمراہ کن نتائج تک لے جاسکتے ہیں، مثال کےطور پر ۲۰۱۱ء سے اب تک ہندوستان میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ حالات کے پیش نظر مردم شماری کافی اہم ہے۔ اگر ہم اب بھی ۲۰۱۱ء ہی کے ڈیٹا پر اکتفا کریں گے تو یقیناً مختلف محاذوں پر ناکام ثابت ہوں گے۔
(۵) عالمی ایجنسیوں، اسکالرز اور کاروبار پر اثرات:
مردم شماری مختلف گروہوں کیلئے اہم ہے، بشمول عالمی ایجنسیاں، اسکالرز اور کاروبار۔ اگر درست ڈیٹا نہ ہوں تو کوئی بھی ملک اور وہاں کے عوام کے حالات کا درست اندازہ نہیں لگاسکتا ہے۔
مردم شماری کیسے ہوتی ہے؟
مردم شماری ’’مردم شماری ایکٹ ۱۹۴۸ء اور اور مردم شماری کے قواعد ۱۹۹۰ء (۲۰۲۲ء میں ترمیم شدہ) کے ساتھ وقتاً فوقتاً کی گئی دیگر ترامیم کے مطابق کی جاتی ہے۔ وزارت داخلہ کے تحت رجسٹرار جنرل اور مردم شماری کمشنر کا دفتر مردم شماری کے انعقاد کا ذمہ دار ہے۔ یہ عام طور پر دو مراحل میں ہوتا ہے:
(۱) ہاؤس لسٹنگ اور ہاؤسنگ مردم شماری: اس مرحلے میں مردم شماری کیلئے تمام عمارتوں، مکانات اور گھرانوں کی شناخت اور فہرست درج کی جاتی ہے۔
(۲) آبادی کی گنتی: یہ عام طور پر پہلے مرحلے کے ۶؍ سے ۸؍ ماہ بعد ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں ہر فرد کی گنتی کی جاتی ہے اور ان کی سماجی و اقتصادی تفصیلات ریکارڈ کی جاتی ہیں جیسے کہ ان کی عمر، ازدواجی حیثیت، مذہب، تعلیم، معذوری وغیرہ۔