Inquilab Logo

خلائی سائنس میں ہندوستان کی پیش رفت، ۷؍ اہم پروجیکٹ

Updated: August 25, 2023, 5:11 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

چندریان۳؍ کی کامیاب لینڈنگ کے بعد ہمارے حوصلے بلند ہیں۔ اسرو ۷؍ اہم پروجیکٹ پر کام کررہا ہے ۔ آئندہ چند برسوں میں انہیں مختلف مشن مثلاً زہرہ، سورج، خلاء وغیرہ کی تحقیق کیلئے بھیجا جائے گا

Nassauros Cosmos after CNSA and European Space Agency After that, ISRO is one of the largest and most important space agencies in the world.Photo. INN
ناسا، روسکوسموس ، سی این ایس اے اوریورپین خلائی ایجنسی کے بعد ’’اسرو‘‘ کا شمار دنیا کے بڑے اور اہم خلائی اداروں میں ہوتا ہے۔ تصویر:آئی این این

۲۳؍ اگست ۲۰۲۳ء کو وقت مقررہ یعنی ۶؍ بجکر ۴؍ منٹ پر چندریان ۳؍ کا وکرم لینڈر کامیابی سے چاند کی سطح پر اتر گیا۔ یہ ہمارا چاند پر اترنے کا سفر تھا یعنی چندریان ۳؍ مشن کا پہلا مرحلہ۔ دوسرا مرحلہ ہے چاند پر تحقیق۔ لینڈر سے پرگیان روور کے باہر آتے ہی چاند پر ہماری تحقیق شروع ہوجائے گی۔ یہی نہیں ہندوستان چاند کے قطب جنوبی پر اترنے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے۔
 گزشتہ ۷۶؍ برسوں میں ہندوستان نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اہم کارنامے انجام دیئے ہیں۔ زرعی شعبہ ہو یا فارماسوٹیکل ، ان میں ہندوستان کا شمار دنیا کے طاقتور ممالک میں ہوتا ہے۔ ہندوستان ہر محاذ پر کامیابی حاصل کررہا ہے۔ خلائی سائنس میں بھی ہم نے دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ چندریان ۳؍ کے بعد ہمارا خلائی ادارہ اسرو نئے مشن کیلئے تیار ہے۔ اس کے بعد آدتیہ ایل ون لانچ کیا جائے گا ۔ 
 یہی نہیں اور بھی ایسے کئی پروجیکٹ ہیں جن پر اسرو کے سائنسداں دن رات محنت کررہے ہیں۔ زہرہ اور مریخ پر تحقیق کیلئے بھی اسرو تیار ہے۔ بین الاقوامی خلائی ایجنسیوں (ناسا، ای ایس اے وغیرہ) کے ساتھ اسرو کئی پروجیکٹ پر کام کررہا ہے۔ اس میں روس، فرانس اور امریکہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ اسرو کے سائنسداں دیگر خلائی ایجنسیوں کے ساتھ مل کر خلاء میں خلائی اسٹیشن بھی قائم کررہے ہیں۔ وہ اسٹیشن جہاں خلا باز قلیل یا طویل مدت کیلئے قیام اور تحقیق کرتے ہیں۔ زیر نظر کالموں میں ایسے ہی ۷؍ پروجیکٹ کی مختصر معلومات پیش کی گئی ہے۔

مارس آربیٹر۲(منگل یان۲)
 فروری ۲۰۲۱ء میں اسرو کے چیئرمین نے ٹائمز آف انڈیا سے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ۲۰۲۴ء میں منگل یان ۲؍ خلاء میں بھیجا جائے گا۔ اسے مارس آربیٹر ۲؍ کا نام بھی دیا گیا ہے جو مریخ کی سطح پر اترے گا نہیں بلکہ اس کے مدار میں ہوگا جہاں سے ہمارا خلائی ادارہ مریخ پر اپنی تحقیق جاری رکھے گا۔ واضح رہے کہ پہلے منگل یان کا رابطہ اسرو سے ٹوٹ چکا ہے۔ منگل یان۲؍ کو ’’ایل وی ایم ۳‘‘ کے ذریعےلانچ کیا جائے گا۔ جنوری ۲۰۱۶ء میں ہندوستان کے اسرو اور فرانس کے سی این ای ایس نے منگل یان ۲؍ تیار کرنے کے ایک معاہدے پر دستخط کئے تھے لیکن ۲۰۱۸ء تک فرانس نے اس پر کام نہیں شروع کیا تھا۔ تاہم، ۲۰۲۰ء میں حکومت ہند نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنے طور پر منگل یان ۲؍ تیار کرے گا۔اس میں ہائی ٹیک کیمرہ اور طاقتور رڈار بھی نصب کیا جارہا ہے تاکہ مریخ کی سطح کا باریک بینی سے مشاہدہ کیا جاسکے۔

گگن یان
 گگن یان ہندوستانی خلابازوں کو خلا میں بھیجنے کا پلان ہے۔ خلابازوں کو روس میں تربیت دی جا رہی ہے۔ خلاء میں ’’آئی ایس ایس‘‘(انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن) نامی ایک خلائی اسٹیشن ہے۔ تاہم، اس کی مدت کار ختم ہونے والی ہے اس لئے نیا خلائی اسٹیشن بنانے کی تیاری کی جارہی ہے۔ وبائی حالات کے پیش نظر یہ پروجیکٹ التواء کا شکار ہوگیا ہے لیکن آئندہ چند برسوں میں اسے لانچ کیا جائے گا۔اس مشن کے تحت ۳؍ ہندوستانی خلاء بازوں کو خلاء میں ۴۰۰؍ کلومیٹر دور بھیجا جائے گا جہاں وہ ۴؍ دن قیام کریں گے، اس کے بعد انہیں بحفاظت ہندوستانی سمندر میں اتارا جائے گا۔ یہ پہلا ایسا مشن ہوگا جب ہندوستان کسی انسان کو خلاء میں بھیجے گا۔ اس لئے اس میں روس کی مدد لی جارہی ہے تاکہ اس کے تجربات کی روشنی میں ہندوستان کامیابی سے اس مشن کو پورا کرسکےاور آئی ایس ایس ۲؍ کی تکمیل میں ہمارا ملک اہم کردار ادا کرے۔

این ای ایس اے آر (نِثار)
 اس کا فل فارم ہے ’’ناسا اسرو سینتھیٹک اپرچر رَڈار‘‘ جسے امریکی خلائی ایجنسی ناسا اور اسرو مل کر بنارہے ہیں۔ اس کے ذریعے خلاء میں ایک ایسا رڈار بھیجا جائے گا جو خلا اور زمین کی ٹو ڈی یا تھری ڈی تصویریں بناسکے گا۔ یہ پہلا ایسا مصنوعی سیارہ ہوگا جو تھری ڈی تصویریں بنائے گا۔ اس کے ذریعے انسانوں کو خلاء اور زمین کو بہتر طریقے سے سمجھنے اور اسے دیکھنے میں مدد ملے گی۔ اس پروجیکٹ کی لاگت ۱ء۵؍ بلین ڈالر (۱۲۴؍ بلین روپے) ہے۔ یہ دنیا کا سب سے مہنگا مصنوعی سیارہ ہوگا۔ اس کے ذریعے سائنسداں زمین پر زلزلہ، سیلاب، برف کا پگھلنا وغیرہ جیسے قدرتی عوامل کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ اس مشن کا دورانیہ ۳؍ سال ہوگا۔ خیال رہے کہ اگر تمام چیزیں منصوبہ بند طریقے سے ہوتی ہیں تو اسے جنوری ۲۰۲۴ء میں ستیش دھون اسپیس سینٹر، سری ہری کوٹہ، ہندوستان سے لانچ کیا جائے گا۔

آدتیہ ایل وَن
 یہ ہندوستان کا پہلا سورج مشن ہوگا جس کے تحت ہندوستان سورج پر اپنی تحقیق شروع کرے گا۔ اسے زمین اور سورج کے درمیان لگ رینج ون میں قائم کیا جائے گا جو زمین سے ۱ء۵؍ ملین کلومیٹر دور ہے۔ خبروں کے مطابق اسے ستمبر ۲۰۲۳ء کے پہلےہفتے میں لانچ کیا جاسکتا ہے۔ یہ وہ مقام ہےجہاں سورج گہن وغیرہ کا اثر نظر نہیں آتا۔ یہاں کوئی بھی چیز جوں کی توں رہتی ہے یعنی اگر کوئی سامان یہاں چھوڑ دیا جائے تو وہ خلاء میں جوں کا توں معلق رہے گا۔اس مقام پر کسی بھی قسم کے گہن کا کوئی اثر نہیں ہوتا اس لئے کسی بھی رکاوٹ کے بغیر سائنسداں اپنی تحقیق مسلسل جاری رکھ سکتے ہیں۔ آدتیہ ایل ون پر جنوری ۲۰۰۸ء میں کام ہونا شروع ہوا تھا۔ ۲۰۱۶ء کے مالی سال میں اس پروجیکٹ کیلئے ۳؍ کروڑ روپے مختص کئے گئے تھے۔ اب تک ہمارے اس پروجیکٹ پر ۳۷۸ء۵۳؍ کروڑ روپے صرف کئے جاچکے ہیں۔

اسپیڈ یکس
 اسرو ’’اسپیس ڈاکنگ‘‘ (اسپیڈیکس) پر بھی کام کررہا ہے۔اس پروجیکٹ کے تحت دو خلائی جہازوں کو خلاء میں جوڑا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ خلائی اسٹیشن کی تعمیر میں کلید ہے۔ اگر اسرو اس میں کامیابی حاصل کرلیتا ہے تو وہ خلاء میں اپنا خلائی اسٹیشن قائم کرسکتا ہے جہاں ہندوستانی خلا باز اور سائنسداں تحقیق کرسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں، دیگر ممالک کے خلا بازوں اور سائنسدانوں کیلئے بھی یہ ایک لیبارٹری ثابت ہوسکتا ہے۔ واضح رہے کہ خلائی اسٹیشن میں کئی ماڈیول کام کرتے ہیں یعنی اس کا ایک ایک حصہ خلاء میں بھیجا جاتا ہے اور پھر انہیں جوڑ کر ایک اسٹیشن قائم کیا جاتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی مستقبل کے خلا بازوں اور مشن کیلئے کافی اہم ہے۔ اسے مدار میں خلائی جہاز میں ایندھن بھرنے کیلئےبھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسرو نے اس کی لانچ کی تاریخ عام نہیں کی ہے لیکن ماہرین کا ماننا ہے کہ اسے آئندہ ۵؍ برسوں کے دوران لانچ کیا جاسکتا ہے۔

۳۰؍ میٹر ٹیلی اسکوپ
 ہندوستان، چین، جاپان، امریکہ اور کینیڈا اس پروجیکٹ پر مشترکہ طور پر کام کررہے ہیں۔ تھرٹی میٹر ٹیلی اسکوپ (ٹی ایم ٹی)، ماؤنا کیا (ہوائی) میں تعمیر کی جارہی ہے۔ یہ ہوائی کا ایک آتش فشانی پہاڑ ہے۔ یہ ٹیلی اسکوپ ۱۸؍ منزلہ کا ہوگا جس میں دنیا کا سب سے بڑا ٹیلی اسکوپ لگایا جائے گا۔ یہ دنیا کا بلند ترین ٹیلی اسکوپ بھی ہوگا جس سے بہتر طریقے سے خلاء کا نظارہ کیا جاسکے گا۔ اس کے ذریعے ارورا کو بھی سمجھنے کی کوشش کی جائے گی۔ علاوہ ازیں، آسمان اور خلاء میں رونما ہونے والے ایسے واقعات جنہیں انسانی آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں، ان پر اس ٹیلی اسکوپ سے نظر رکھی جائے گی، جیسے روشنیوں کے دھماکے اور کہکشاؤں کا مطالعہ وغیرہ۔واضح رہے کہ اس ٹیلی اسکوپ کا خیال ۱۹۸۰ء کے عشرے میں پیش کیا گیا تھا۔ تاہم، اس پر کام ۲۰۱۵ء میں شروع ہوا ہے۔ اس کے افتتاح کی تاریخوں کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔

وینس آربیٹر
 ۲۰۱۸ء میں اسرو نے وینس (زہرہ) کیلئے ’’پے لوڈ‘‘ (سیٹیلائٹ لے جانے والا آلہ) کیلئے تجاویز طلب کی تھیں۔ ۱۹۶۰ء اور ۱۹۷۰ء کے عشرے میں اس سیارے پر تحقیق جاری تھی لیکن پھر ممالک کے درمیان مریخ کو دریافت کرنے کی دوڑ لگ گئی اور وینس کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا تھا۔ تاہم، اسرو کے خلائی پروجیکٹوں میں وینس آربیٹر بھی شامل ہے جس کے ذریعے اس سیارے پر تحقیق کی جائے گی۔ فی الحال اس سیارے پر صرف ایک خلائی جہاز ہے جسے جاپان نے بھیجا ہے جبکہ مریخ کی تحقیق کیلئے ۸؍ مشن ہیں۔  لہٰذا اسرو کا زہرہ پر مشن بھیجنا اہم ہوگا۔ ابتداء میں کہا جارہا تھا کہ یہ زمین کا جڑواں سیارہ ہے جہاں انسانی کالونیاں بسانا آسان ہے اس لئے ۴۰؍ سال تک زہرہ پر تحقیق ہوتی رہی لیکن مریخ کی جانب سے مثبت اشارے ملنے کے بعد تمام خلائی اداروں کی توجہ اس جانب ہوگئی۔ اس ضمن میں ناسا بھی تیاری کررہا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK