Inquilab Logo

انوکھی ہڑتال

Updated: May 11, 2024, 2:22 PM IST | Mayal Khairabadi | Mumbai

چاندنی رات تھی، مَیں چارپائی پر لیٹا تھا، ابھی کچی ہی نیند تھی کہ آس پاس کچھ کھسر پھسر ہوتی سنی دھیان دیا تو معلوم ہوا کہ میرے ہی ہاتھوں، پیروں، آنکھوں اور کانوں میں کچھ بات چیت ہورہی تھی۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

چاندنی رات تھی، مَیں چارپائی پر لیٹا تھا، ابھی کچی ہی نیند تھی کہ آس پاس کچھ کھسر پھسر ہوتی سنی دھیان دیا تو معلوم ہوا کہ میرے ہی ہاتھوں، پیروں، آنکھوں اور کانوں میں کچھ بات چیت ہورہی تھی۔ بیچ میں میاں پیٹ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ ہاتھ سب سے کہہ رہا تھا:
 ’’دوستو! یہ میرا مالک، یہی احمد سعید، جس کا میں ہاتھ کہلاتا ہوں، دیکھو تو ابھی ہے کتنا سا لیکن بڑا ہی بے مروت اور بے ایمان ہے۔ اللہ میاں نے جو ذرا اختیار اسے دے دیا ہے کہ اپنی مرضی سے بھی کچھ کرسکتا ہے تو آپے میں نہ رہا۔ خدا کو بھول گیا، گھمنڈ کرنے لگا۔ اللہ میاں نے مجھے اس کے بس میں کر دیا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ مجھ سے خیرات کرتا لیکن کرتا یہ ہے کہ لوگوں کے پیسے چھینتا ہے۔ اپنے سے کمزور بچوں کے چپتیں لگاتا ہے۔ مارتا ہے، دیکھو تو، اسکول جانے میں غیر حاضری بھی کرتا ہے۔ پڑھتا کچھ ہے، لکھتا کچھ ہے۔ ایک دن ایک پرچے پر گالیاں لکھ کر شوکت کو دیں۔ گندے گانے تو لکھ لکھ کر روز ہی بانٹتا ہے۔ توبہ توبہ کتنا برا ہے میرا یہ مالک احمد سعید۔ مَیں تو اس سے پریشان ہوگیا ہوں۔‘‘
 ہاتھ چپ ہوا تو پیر بولا:
 ’’ہاں یار! یہ ایسا ہی ہے۔ مجھ ہی کو دیکھو، کیسا پریشان کرتا ہے مجھے۔ اللہ میاں نے مجھے بھی تو اس کے بس میں کر دیا ہے۔ اسے چاہئے تھا، مسجد کی طرف جاتا۔ اللہ کی مرضی کے کاموں میں دوڑ دھوپ کرتا مگر کرتا کیا ہے؟ آوارہ گردی۔ آوارہ گردی آپ سمجھے۔ ارے بھئی، بے کار میں اِدھر اُدھر برے کاموں کے لئے چکر لگاتا ہے۔ لڑائی جھگڑوں کی طرف دوڑتا ہے برے کھیلوں کی طرف دوڑتا ہے۔ دوسرے لڑکوں کے لنگڑی لگا کر انہیں گرا دیتا ہے۔ ٹھوکریں مارتا ہے۔ بھائی ہاتھ! تم نے بالکل سچ کہا۔ ہمارا یہ مالک احمد سعید بڑا ہی بُرا ہے میں بھی پریشان ہوں۔‘‘
 پیر چپ ہوا تو آنکھ پھڑک کر بولی:

یہ بھی پڑھئے: مُلّا پلاؤ

 ’’ہاں جی! یہ ایسا ہی ہے۔ دیکھو نا! اللہ میاں نے مجھے اس کے چہرے پر کیسی اچھی جگہ دی ہے۔ میری وجہ سے کیسی خوبصورتی آگئی ہے اس کے چہرے میں۔ بھائی ہاتھ اور پیر! آپ دونوں نے بالکل ٹھیک کہا کہ اللہ میاں نے اسے ہم پر ذرا سا اختیار کیا دے دیا کہ یہ آپے میں نہیں رہا۔ اتراتا پھرتا ہے۔ اسے چاہئے تھا کہ ہم سے اللہ میاں کی مرضی کے مطابق کام لیتا۔ قرآن کا مطالعہ کرتا۔ حدیث پڑھتا، اچھی اچھی کتابیں دیکھتا۔ مگر مجھ سے بھی الٹا ہی کام لیتا ہے۔ بے شرمی سے مجھے مٹکاتا ہے۔ ناچ دیکھتا ہے بُری کتابیں پڑھتا ہے۔ آپ لوگ بالکل سچ کہتے ہیں کہ ہمارا یہ مالک احمد سعید بڑا ہی شیطان ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا اس سے کیسے چھٹکارا ملے۔‘‘
 ابھی آنکھ نہ جانے کتنی دیر پھڑک پھڑک کر شکایت کرتی کہ کان بول اُٹھا:
 ’’ساتھیو! بالکل ٹھیک، میرا حال بھی بالکل تمہارا جیسا ہی ہے۔ جب یہ دیکھتا ہے کہ اچھی باتیں میرے اندر آرہی ہیں تو بھاگ جاتا ہے۔ مجھ میں انگلیاں ٹھونس لیتا ہے۔ بُری باتیں۔ گالیاں۔ غیبت کی باتیں سننا اسے بہت ہی پسند ہیں....‘‘
 کان اتنا ہی کہہ سکا تھا کہ میاں پیٹ ’’اُف اللہ اُف اللہ....‘‘ کرکے بولے:
 ’’بھائیو! ذرا میری طرف دیکھو۔ مَیں تو تم سب سے زیادہ سعید سے گھبرا گیا ہوں۔ رات دن انگاروں سے مجھے بھرا کرتا ہے۔ حرام حلال کی اسے پروا ہی نہیں۔ چوری کے لڈّو ہوں، چھین جھپٹ کی ریوڑیاں ہوں، دھوکہ دے کر لائی ہوئی ٹافی ہو۔ کچھ ہو، نہ یہ فکر کہ ایسی کمائی سے اللہ میاں ناخوش ہوتے ہیں۔ لیکن اسے کوئی پروا نہیں۔ بس مجھے بھرنے سے مطلب۔ بھائیو! مجھ سے تو اب اس کا کہنا مانا نہیں جاتا۔ مگر کیا کروں؟ اکیلا ہوں۔ اکیلا چنا بھاڑ کو کیسے پھوڑ سکتا ہوں۔‘‘
 میاں پیٹ اس طرح جھنجھلا کر خاموش ہوئے تو دل اور دماغ نے اسی طرح کی باتیں کیں۔ اور پھر رویاں رویاں یہی رونا رونے لگا۔ زبان ابھی تک چپ تھی۔ سب سے آخر میں وہ چہکی تو یہ کہ ’’ارے تو پھر اس طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے۔ کر ڈالو نہ کوئی فیصلہ۔ اور ہاں میاں دل اور دماغ صاحب! ہم میں تم ہی دونوں مڈھ ہو۔ آپس میں صلاح کرکے بتاؤ کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے۔‘‘
 زبان اس طرح چٹکی تو دل نے دماغ کی طرف دیکھا دماغ نے دل کی طرف۔ اور پھر دل نے زبان کی طرف اشارہ کیا۔ اور زبان پکار اٹھی:
 ’’بائیکاٹ، ہڑتال!‘‘
 ’’بہت ٹھیک۔ مگر ہماری مانگیں کیا ہوں گی۔‘‘ ہاتھ، پیر، آنکھ، کان، ناک وغیرہ سب نے پوچھا۔
 ’’ہماری مانگیں؟‘‘ زبان نے دل کی طرف دیکھا۔ دل نے دماغ سے مشورہ کیا۔ پھر دماغ نے دل سے کچھ کہا پھر دل نے زبان کو ٹیلی فون کر دیا اور زبان نے اعلان کیا:
 ’’ہماری مانگ صرف یہ ہے کہ ہم سے وہی کام لو جس سے ہمارا پیدا کرنے والا راضی ہو۔‘‘
 زبان نے یہ اعلان کیا تو ایک دم سناٹا چھا گیا۔ اور اس سناٹے کے ساتھ میری نظروں کے سامنے اندھیرا پھیل گیا۔ اب میں چاہتا ہوں کہ کچھ دیکھوں، لاکھ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کوشش کرتا ہوں لیکن کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ ایسا لگا جیسے آنکھیں پتھرا گئیں۔ آنکھ کی یہ حالت دیکھی تو مَیں نے چاہا کہ ہاتھ کی ٹیک لگا کر اٹھوں۔ ارے بھائی! مَیں اٹھتا ہی کیا میرا ہاتھ ہی نہ اٹھ سکا۔ لاکھ زور کرتا تھا مگر جیسے سوجاتا ہے نا! جیسے سُن ہوجاتا ہے نا! اس سے بھی بُری حالت ہوگئی اس کی۔
 اب مَیں نے چاہا پیر سمیٹوں۔ تو ایسا لگا کہ جیسے پیروں کی جان نکل گئی۔ مَیں نے چاہا کہ ابّا جان کو پکاروں لیکن زبان ہے کہ چپ۔ مجھ سے چلائی ہی نہیں گئی۔ مَیں نے سوچا کہ ناک سے زور زور سے سانس لوں تو شاید ابّا جان سنیں تو مجھے اٹھائیں لیکن اب سانس ہی دلی گئی۔ اور اس طرح ایک ایک کرکے میرے جسم کا رویاں رویاں بے کار سا ہوگیا۔ اور آخر میں میرے اندر سوچنے کی طاقت بھی نہ رہی۔
 پھر مجھے ایسا معلوم ہوا جیسے میری آنکھ کھل گئی ہو۔ مَیں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ یہ سب خواب میں ہوتا رہا۔ جب مَیں جاگا تو سوچنے لگا کہ اگر اللہ تعالیٰ سچ مچ میرے ہاتھ، پیر، آنکھ، کان، دل اور دماغ وغیرہ کو یہ اختیار دے دیتا کہ وہ اسی طرح میرا بائیکاٹ کرسکتے جس طرح خواب میں مَیں نے دیکھا۔ اور اسی طرح ہڑتال کر دیتے۔ جیسے سوتے میں مَیں نے دیکھی۔ تو میرا کیا حال ہو۔
 اُف اللہ! مَیں کچھ بھی تو نہ کرسکوں، نہ دیکھ سکوں نہ کچھ کھا سکوں۔ نہ پی سکوں، نہ کھیل سکوں، نہ پڑھ سکوں نہ لکھ سکوں۔ کچھ بھی تو نہ کرسکوں۔ یہ سوچتے سوچتے مَیں نے اپنے روئیں روئیں کو دیکھا۔ خدا کا شکر ہے۔ اب مَیں جاگ رہا تھا اور میرے ہاتھ، پیر وغیرہ سب اپنا اپنا کام کر رہے تھے۔ مَیں بڑا خوش ہوا۔ لیکن دل نے آواز دی:
 میاں سعید! آپے میں رہو۔ اتنا خوش نہ ہو۔ اتنا نہ پھولو کہ پیٹ پھٹ جائے۔ آج تم ہم سب پر مالک بنا دیئے گئے ہو تو کیا ہوا۔ ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب تم اللہ کے حضور میں کھڑے کئے جاؤ گے۔ تم نے یہاں جو کچھ کیا ہے۔ اُس وقت تمہارے سارے کرتوت سب کے سامنے ہوں گے۔ تمہارا مقدمہ ہوگا تم سے ایک ایک کام کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی۔ اور اس وقت ہم سب تمہارے خلاف گواہی دیں گے۔
 میاں سعید! ہمیں دیکھو۔ اللہ میاں نے ہم سب کو تمہارا تابعدار بنا دیا۔ جب تک اللہ کی مرضی ہے ہم سب تمہارا حکم مانیں گے۔ تم جو کہو گے، ویسا کریں گے۔ تم آج جو چاہو، ہم سے کام لے لو۔ مگر وہ دن یاد کر لو۔ جب کوئی تمہارا ساتھ دینے والا نہ ہوگا۔ تمہارے ابّا بھی تو تمہارا ساتھ نہ دیں گے۔ تمہاری ماں تو تم سے دور بھاگیں گی۔ سوچو! اس دن تم کیا کرسکو گے؟ توبہ کرو میرے اس دنیا کے مالک اور آخرت کی فکر کرو۔
 دل نے مجھ سے اس طرح کہا تو مَیں کانپنے لگا۔ مَیں پسینے پسینے ہوگیا۔ پھر مَیں یکدم چیخ چیخ کر رونے لگا۔ گھر والے حیران ہوگئے کہ سعید کو کیا ہوگیا ہے۔ سب پوچھنے لگے کیا ہوا، کیا ہوا؟
 مَیں نے کسی کی بات کاجواب نہ دیا۔ مَیں سجدے میں گر گیا۔ اور توبہ توبہ کرنے لگا پھر سجدے سے سر اٹھایا۔ امی جان اور ابّا جان کو آپ بیتی سنائی سب کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے۔ مَیں اس کوشش میں ہوں کہ جو کام کروں اللہ کی مرضی کا کروں۔
 دعا کیجئے کہ اللہ مجھے توفیق دے کہ مَیں اس کو راضی کرسکوں..... بس۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK