Inquilab Logo

چکنی ہانڈی

Updated: April 20, 2024, 1:51 PM IST | Abida Mahboob | Mumbai

گھر پر کسی مہمان کا آنا مشکل۔ آپا فوراً انہیں بتا دیتیں، ’’جی وہ اس لئے آپ کے سامنے آنے سے شرما رہی ہیں کہ اُن کی چکنی ہانڈی کر دی گئی ہے۔‘‘ مہمان شریف ہوتا تو خاموش رہ جاتا۔ اگر شریر ہوتا تو جب تک ہمارا ’’دیدار‘‘ نہ کر لیتا اُسے چین نہ ملتا!

Photo: INN
تصویر : آئی این این

کہانی کا نام پڑھتے ہی پہلے آپ ہنسیں گی۔ پھر شاید غصہ آئے کہ بھلا یہ بھی کوئی نام ہے ’’چکنی ہانڈی‘‘! لاحول ولاقوۃ کہانی کا نام تو کچھ ایسا پیارا پیارا میٹھا میٹھا ہونا چاہئے کہ پڑھتے ہی منہ میں پانی بھر آئے۔ یا پھر ایسا خوفناک ہونا چاہئے کہ بس راتوں کی نیند حرام ہو جائے! میرے خیال میں اس کہانی کا نام ’’چکنی ہانڈی‘‘ سے بہتر اور کوئی نہ ہوسکتا تھا۔ آپ خود کہانی پڑھ کر فیصلہ کر لیں۔ ویسے مجھے بڑی مسرت ہوگی اگر آپ اس سے بہتر کوئی نام تجویز کریں۔ بہرحال....
 گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہوچکی تھیں۔ امتحان کا بھوت کبھی کا سرے اتر چکا تھا۔ ہم سب پاس بھی ہوگئے تھے یہاں تک کہ آپ بھی (چاہے تھرڈ کلاس ہی سہی!) اب تو دن رات ہنگامے تھے انہیں ہنگامی دنوں میں ایک دن ’’زلزلہ‘‘ آگیا۔ زلزلہ تھما تو پتہ چلا کہ حاجی ماموں آئے ہیں۔ امی کے سب سے چھوٹے و لاڈلے بھائی۔ انتہائی شریر و کھلنڈرے۔ چونکہ حج کے دن پیدا ہوئے تھے اس لئے بزرگ انہیں نام سے پکارنے کے بجائے ’حاجی‘ کہتے اور ہم سب حاجی ماموں! میرا دل تو انہیں پاجی ماموں پکارنا چاہتا۔ کیونکہ یہ جب بھی آتے آپا ان کی صحبت میں بگڑ کر اور ’شیر‘ ہو جاتیں اور دونوں مل کر مجھے ہر بات میں سناتے اور نیچا دکھانے کی تاک میں رہتے! ظاہر ہے مجھے ماموں کے آنے سے بالکل خوشی نہ ہوئی تھی مگر آپا کو تو گویا کوئی خزانہ مل گیا۔ اب تک تو ہنگامے گھر کی چار دیواری کے اندر ہی ہوتے تھے مگر ماموں کے آنے سے یہ پابندی ختم ہوگئی.... کبھی پکنک کبھی بوٹنگ، کبھی پکچر تو کبھی تالاب کے کنارے مچھلیاں پکڑنے کا پروگرام! غرض آئے دن نت نئے پروگرام بنتے۔
 ایک شام امی میرے بال گوندھتے گوندھتے تقریباً چلّا اُٹھیں، ’’ہائے خدا! یہ جوئیں کہاں سے پڑگئیں تمہارے سر میں۔‘‘
 ’’جوئیں؟‘‘ مَیں نے پلٹ کر دیکھا تو واقعی کنگھی پر موٹی موٹی جوئیں چل رہی تھیں۔ جس سر میں جوئیں ہوں اس کو بھلا کب امی چھوڑنے والی تھیں وہ میرے سر کے ’’سر‘‘ ہوگئیں۔ مگر کم بخت جوئیں بھی ایسی بے غیرت تھیں کہ جانے کا نام نہ لیتی تھیں۔ آج امی صاف کرتیں کل جوں کی توں موجود! آخر ایک دن امی کے صبر کا پیمانہ چھلک گیا، ’’یہ نحوست کہاں سے سر میں آگئی؟ مَیں تھک گئی۔ یہ سر کیسے صاف ہوگا۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: جان بچی تو لاکھوں پائے....

 ’’آپا جان! آپ تو خواہ مخواہ پریشان ہو رہی ہیں۔‘‘ ماموں بولے، ’’سر آسانی سے صاف ہو جائے گا آپ حجام کو بلوایئے اور دو منٹ میں وہ....‘‘
 ’’ہاں امی! ماموں ٹھیک کہہ رہے ہیں۔‘‘ آپا نے ماموں کی بات کاٹ کر کہا، ’’آپ حجام کو بلوا کر سر صاف کروا دیجئے ایسا نہ ہو کہ میرے سر میں بھی پڑ جائیں!‘‘ مَیں نے بالوں کی چلمن سے جھانک کر دیکھا آپا اور ماموں کے چہروں پر شرارت آمیز مسکراہٹ تھی۔ میں سمجھ گئی۔ اس بار ’’حملہ‘‘ کافی تگڑا ہے۔ دونوں نے سازش کرکے میرا ’’حلیہ‘‘ بگاڑنے کی ٹھان لی ہے۔ اس سے پہلے کہ امّی کچھ جواب دیتیں مَیں جھٹ بول پڑی، ’’نہیں امی! مَیں بال نہیں کٹواؤں گی۔ یہ آپا اور ماموں کی شرارت ہے! دونوں مل کر....‘‘ ’’بس چپ رہو۔‘‘ امی نے مجھے ڈانٹ دیا، ’’جیسے جیسے قد بڑھ رہا ہے ویسے ویسے زبان بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ اپنی بہن اور ماموں کے بارے میں ایسا سوچتے ہوئے تمہیں شرم آنی چاہئے۔‘‘ ’’چھوڑیئے آپا جان۔‘‘ ماموں نے کہا، ’’وہ ابھی بچی ہے اُسے اپنا اچھا برا کیا معلوم؟ اس کی فکر تو ہم کو کرنی چاہئے۔‘‘ ’’وہی تو سوچتی ہوں۔‘‘ امی واقعی فکرمند ہوگئیں، ’’اب کیا کروں؟‘‘ ’’آپ سوچنا چھوڑ دیں۔‘‘ اس بار آپا نے کہا، ’’بس حجام کو بلوایئے اور سر صاف کروا دیجئے!‘‘ ’’ہاں آپا جان! پانچ منٹ کی تو بات ہے۔‘‘ ماموں نے حامی بھری، ’’اس کے بعد آپ کو آرام ہی آرام رہے گا۔‘‘ ’’ٹھیک ہے۔ اب ایسا ہی کرنا پڑیگا۔‘‘ امی نے اپنا فیصلہ سنا دیا، ’’سویرے بالیا حجام کو بلوا لو۔ یاد سے....‘‘
 تقدیر کو کوئی بدل نہیں سکتا۔ مگر تدبیر بھی تو کوئی چیز ہے۔ مَیں روتے جھینکتے بابا کے پاس گئی۔ بابا امّی کے پاس میری سفارش لے کر گئے، ’’بھئی! یہ جوئیں مارنے کی دوا وغیرہ ملتی ہے۔ اس سے کام لو۔ غریب روتے روتے نڈھال ہورہی ہے۔‘‘
 ’’مگر بھائی صاحب!‘‘ امّی کے بجائے ماموں ٹپک پڑے، ’’بازاری دوائیں دماغ کو متاثر کردیتی ہیں بال کمزور ہوجاتے ہیں اور اکثر تو بالکل نہیں آتے!‘‘ ’’اچھا....‘‘ بابا نے تعجب کا اظہار کیا، ’’بھئی یہ تو ہمیں بالکل معلوم نہ تھا۔‘‘ لیجئے! بابا بھی ساتھ چھوڑ گئے! لکھنے والے ہی نے میری تقدیر میں میرے بالوں کی بربادی لکھ دی تھی۔ کون پر مار سکتا تھا؟ اُس رات میں سو نہ سکی! بار بار بالیا حجام اور اس کا استرا آنکھوں میں گھوم جاتا تھا۔ یہاں تک کہ وہ وقت بھی آگیا جبکہ میرا رونا دھونا سب بیکار گیا اور ماموں و شرفو نے پکڑ دھکڑ کر مجھے ’’تختۂ دار‘‘ پر بٹھا دیا۔ ’’پھانسی‘‘ لگنے سے پہلے میں نے ’’دنیا پر‘‘ ایک نظر ڈالی! آپا نہ صرف خود بلا ٹکٹ تماشا دیکھ رہی تھیں بلکہ پڑوس سے اپنی سہیلیوں کو بھی اکٹھا کر لیا تھا۔ ’’نہیں.... چھوڑ دو مجھے۔ خدا کے واسطے چھوڑ دو.... بابا.... بابا۔‘‘ مَیں چلّا اُٹھی۔
 ’’بس ایک منٹ۔ ابھی چھوڑ دیتے ہیں بھئی۔‘‘ ماموں کہہ رہے تھے۔ ’’ہاں بالیا وہی بات جو مَیں نے کہی تھی۔ جلدی....‘‘ یکایک ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے سر پر گدگدی کی ہو۔ دوسرے منٹ ماموں نے مجھے چھوڑ دیا موقع ملتے ہی میں بھاگ کھڑی ہوئی۔ مگر آئینہ دیکھا تو حیران رہ گئی۔ چار انچ چوڑی مانگ پیشانی سے لے کر گردن تک چلی گئی تھی! گویا نہ اِدھر کے رہے تھے نہ اُدھر کے! جھک مار کر مجبوراً بالیا کے آگے سر جھکا دیا۔ جب ہوش آیا تو سامنے ایک کشن بال پڑے تھے۔ لانبے لانبے سنہری بال! کچھ ہنستی اور زیادہ روتی، کھڑی ہوئی تو آپا نے آئینہ ہاتھ میں تھما دیا۔ ایک جھلک دیکھ کر آئینہ پھینک دیا (ڈر تھا رعب ِ حسن سے ٹوٹ نہ جائے!) آئینہ تو نہ ٹوٹا ہاں میرا دل ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا!
 اب تو گھر اور باہر کے بڑوں و بچوں کے لئے مَیں تفریح کا نشانہ بن گئی۔ آپا (خدا سمجھے) اور حاجی ماموں (پاجی ماموں کہیں کا) کی تو بن آئی تھی۔ حاجی ماموں دھول جما کر کہتے، ’’بھئی آئینہ نہیں مل رہا۔ ذرا تم سامنے بیٹھ جاؤ.... مَیں شیو بنا لوں!‘‘
 کبھی کہتے، ’’میرا دل تو بس پھسلنے کو چاہ رہا ہے۔‘‘ آپا اپنی سہیلی سے کہتیں، ’’ممتاز! اس بار اپنے اسکول میں ایک نیا ’گلوب‘ آنے والا ہے جس پر ایک انوکھی ہی دنیا کا نقشہ ہوگا....‘‘ پھر ایک دن میری اور آپا کی خوب چلی۔ جبکہ انہوں نے مجھے چڑانے کو کنگھا اور خوبصورت ربن لا کر دیئے۔ ننھا منو بھی میرا مذاق اڑاتا، ’’چکنی ہانڈی گول گول پیسہ دوں گا، بول بول۔‘‘ یہاں تک کہ شرفو (گدھا کہیں کا!) بھی چلا چلا کر امی سے پوچھتا، ’’بیگم صاحب! آج کیا پکے گا؟ شلغم، آلو یا گول کدو؟ کس ہانڈی میں پکاؤں چکنی ہانڈی میں کہ کوری میں؟‘‘
 گھر پر کسی مہمان کا آنا مشکل۔ آپا فوراً انہیں بتا دیتیں، ’’جی وہ اس لئے آپ کے سامنے آنے سے شرما رہی ہیں کہ اُن کی چکنی ہانڈی کر دی گئی ہے۔‘‘ مہمان شریف ہوتا تو خاموش رہ جاتا۔ اگر شریر ہوتا تو جب تک ہمارا ’’دیدار‘‘ نہ کر لیتا اُسے چین نہ ملتا! ’’خدایا! ایسی زندگی سے تو مر جانا بہتر ہے۔ تو مجھے موت دے دے۔‘‘ مَیں نے اکثر دعائیں مانگیں مگر کہاں قبول ہوتیں؟‘‘
 مارے شرم کے باہر نکلنا مَیں نے بند کر دیا تھا۔ مگر ایک دن جب چڑیا گھر جانے کا پروگرام بنا تو میرا دل بھی مچل گیا۔ ماموں بولے، ’’ارے بھئی! تم نہ چلنا۔ ہلکی بوندا باندی تو ہو ہی رہی ہے کہیں اولے بھی پڑنے لگے تو تمہارے سر کی خیر نہیں!‘‘ ’’چڑیا گھر میں آئے ہوئے لوگ اگر تمہیں بھی کہیں کا ایک نمونہ سمجھ کر ہنسیں تو ہم سے کچھ نہ کہنا.... کیوں ماموں....‘‘ آپا بولیں۔
 اب کون ایسا بے غیرت تھا جو ساتھ جاتا۔ میرے دل سے بددعا نکل گئی، ’’خدایا! تو ان سب سے.... خصوصاً آپا سے اس کا بدلہ لے۔‘‘ اور خدا نے میری سن لی! بارش میں بھیگنے کی وجہ سے دبلی پتلی آپا کو بخار چڑھا اور کچھ ایسا چڑھا کہ ٹائیفائیڈ میں بدل گیا۔ امی اور بابا پریشان۔ ماموں دن رات تیمار داری میں مصروف۔ دوست رشتے دار مزاج پرسی کے لئے چلے آرہے تھے۔ صرف مَیں تھی جس نے آپا کے کمرے کا رُخ تک نہ کیا۔ نہ جانے کیوں میرا دل پتھر بن گیا تھا۔ ایک دن پتہ چلا کہ بخار نارمل ہوگیا پھر پتہ چلا کہ کمزوری کے باعث چل پھر نہیں سکتیں۔ پھر وہ دن بھی آیا جس کا مجھے انتظار تھا۔ امی ماموں سے کہہ رہی تھیں، ’’ٹائیفائیڈ کی وجہ سے بال کمزور ہو کر جھڑنے لگے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا ہے کہ کٹوا دو۔ تم بالیا کو بلا لاؤ۔ جلدی۔‘‘
 بالیا آیا اور اپنا کام کر چلا گیا! مگر میرا کام باقی تھا۔ ’’اب بتاتی ہوں۔‘‘ مَیں آپا کے کمرے کی طرف بھاگی! مگر جیسے ہی آپا پر میری نظر پڑی میرے انتقام کی آگ سرد پڑگئی۔ دبلا پتلا جسم، زرد چہرے... سوکھے ہونٹ... ناتواں سی آنکھیں... سر پر کالا کپڑا بندھا ہوا۔ یہ تھیں آپا جو تین تکیوں کا سہارا لئے بیٹھی تھیں! مجھے دیکھتے ہی اُن کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے، ’’مجھے معاف کر دو۔ میری منی بہن! مجھے معاف کر دو۔ مَیں نے تمہیں بہت ستایا۔ بہت تنگ کیا، مجھے اس کی سزا مل چکی!‘‘ ’’ارے! ارے!یہ کیا کہتی ہو آپا۔‘‘ مَیں دوڑ کر آپا سے لپٹ گئی۔ ’’ٹھیک کہتی ہوں۔ مَیں بہت بری ہوں۔ بہت۔‘‘ ’’بس۔ بس۔ زیادہ باتیں نہ کرو آپا۔ ڈاکٹر صاحب نے منع کیا ہے۔‘‘ مَیں نے اُن کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔
 مَیں چاہتی تو آپا کو خوب جلی کٹی سنا سکتی تھی۔ خوب چڑا سکتی تھی۔ آپا کے آنسوؤں نے میرا دل صاف کر دیا تھا۔ مَیں نے اُنہیں معاف کر دیا۔ معاف کرنے ہی میں انسان کی بڑائی و فتح ہے!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK