Inquilab Logo

عالمی کہانیوں کا ترجمہ: بغیر راز کا ابوالہول

Updated: December 01, 2023, 4:22 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

آسکر وائلڈ کی کہانی ’’دی اِسفنگس وِد آؤٹ اے سیکرٹ ‘‘The Sphinx Without a Secret کا اُردو ترجمہ۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

ایک دوپہر میں کیفے دی لا پائیکس کے باہر بیٹھا پیرس کی شان و شوکت دیکھ رہا تھا۔ میرے سامنے امارت اور غربت کے عجیب مناظر گزر رہے تھے کہ اچانک کسی نے مجھے آواز دی۔ پلٹ کر دیکھا تو میرا دیرینہ دوست لارڈ مرچیسن کھڑا تھا۔ تقریباً دس سال پہلے ہم کالج میں ساتھ پڑھتے تھے۔ اس کے بعد سے ہماری ملاقات نہیں ہوئی تھی اس لئے اس سے دوبارہ مل کر بہت خوشی ہوئی۔ ہم نے گرمجوشی سے مصافحہ کیا۔ آکسفورڈ میں ہم اچھے دوست تھے۔ مَیں اسے بہت پسند کرتا تھا۔ وہ ایک خوبصورت، بلند حوصلہ اور عزت دار شخص تھا۔ ہم اس کے بارے میں اکثر کہتے تھے کہ اگر وہ ہر وقت سچ نہ بولے تو اس کا شمار یقیناً ’’ اچھے افراد‘‘ میں ہوگا۔ تاہم، اس کی بے تکلفی کے ہم سبھی دلدادہ تھے۔ مگر آج وہ کافی بدلا ہوا اور پریشان نظر آرہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ کسی چیز کے بارے میں شک میں مبتلا ہے۔ مرچیسن ایک زندہ دل آدمی تھا، اور اس کا اضطراب میں نظر آنا مجھے الجھن میں مبتلا کررہا تھا۔ بات چیت کا آغاز کرتے ہوئے مَیں نے اس سے اس کی شادی کے متعلق سوال کرلیا۔ 
’’مجھے عورتیں سمجھ میں نہیں آتیں ۔‘‘ اس نے الجھے ہوئے انداز میں جواب دیا۔
’’میرے پیارے جیرالڈ!‘‘ میں نے کہا، ’’ عورتوں کو سمجھنا ضروری نہیں ہے۔‘‘ 
’’مَیں کسی کو سمجھے بغیر اس پر بھروسہ نہیں کرسکتا۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’یقیناً تم مجھ سے کچھ چھپا رہے ہو۔‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’کیا تم اس بارے میں بات کرنا چاہتے ہو؟‘‘ 
اس نے جواب دیا، ’’چلو! ڈرائیو پر چلتے ہیں ۔ یہاں بہت بھیڑ ہے۔‘‘ اور کچھ دیر بعد ہم سڑکیں ناپ رہے تھے۔ ’’ہم کہاں جارہے ہیں ؟‘‘ مَیں نےپوچھا۔
’’اوہ، تم جہاں کہوں ۔‘‘ اس نے جواب دیا، ’’بوئس کے ریستوراں میں چلتے ہیں ۔ وہاں کھانا کھائیں گے، اور تم مجھے اپنے بارے میں بتانا۔‘‘
’’مَیں پہلے تمہارے بارے میں سننا چاہتا ہوں ،‘‘ مَیں نے اسے ٹوکا۔ ’’مجھے اپنا راز بتاؤ۔‘‘
اس نے اپنی جیب سے چاندی کا ایک چھوٹا سا مراکشی ڈبہ نکال کر میری طرف بڑھا دیا۔ جب مَیں نے اسے کھولا تو اس میں ایک عورت کی تصویر تھی۔ وہ لمبے قد کی بڑی آنکھوں والی ایک خوبصورت عورت تھی۔ اس کے بندھے ہوئے ڈھیلے بالوں میں عجیب سی دلکشی تھی۔ وہ کسی ساحرہ کی طرح لگ رہی تھی۔ اس نے پروں کا لمبا کوٹ پہنا ہوا تھا۔ 
’’اس کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘ مرچیسن نے سوال کیا ۔ ’’کیا یہ ایک سچی عورت نظر آرہی ہے؟‘‘ 
مَیں نے تصویر کا بغور جائزہ لیا۔ یہ کسی ایسے شخص کا چہرہ لگ رہا تھا جس میں کوئی راز چھپا ہو لیکن وہ راز اچھا تھا یا برا، یہ مَیں نہیں کہہ سکتا تھا۔ اس کی خوبصورتی اسرار سے چھپی ہوئی تھی۔ وہ بلا کی خوبصورت تھی۔ اس کے لبوں پر ہلکی مسکراہٹ تھی۔ ’’اچھا!‘‘ مرچیسن نے بے صبری سے پکارا، ’’کیا کہتے ہو؟‘‘
’’وہ اسرار میں ڈوبی ایک عورت لگ رہی ہے۔‘‘ مَیں نے جواب دیا۔ ’’مجھے اس کے بارے میں بتاؤ۔‘‘ 
’’ابھی نہیں ،‘‘ اس نے کہا؛ ’’رات کے کھانے کے بعد۔‘‘ اور پھر وہ دوسری چیزوں کے بارے میں بات کرنے لگا۔ کھانے کے بعد جب ویٹر ہمارے لئے کافی لایا تو میں نے جیرالڈ مرچیسن کو اس کا وعدہ یاد دلایا۔ 
وہ اپنی نشست سے اٹھا، بے چینی سے چہل قدمی کرنے لگا، اور پھر یہ کہانی سنائی: 
ایک شام مَیں تقریباً پانچ بجے بانڈ اسٹریٹ سے گزر رہا تھا۔ سڑکوں پر گاڑیوں کا ہنگامہ تھا۔ سگنل لائٹ بند تھی۔ میری گاڑی کے قریب ایک چھوٹا سا زرد رنگ کا یکہ کھڑا تھا۔ جب میں اس کے قریب سے گزرا تو اس میں جس چہرے کو دیکھا، اسے دیکھ کر مبہوت رہ گیا۔ یہ وہی چہرہ تھا جو مَیں نے ابھی کچھ دیر پہلے تمہیں دکھایا تھا۔ ساری رات میں اسی کے بارے میں سوچتا رہا، اور اگلا دن بھی اسی کے خیالوں میں نکل گیا۔ مَیں نے کئی مرتبہ بانڈ اسٹریٹ کا چکر لگایا۔ گاڑیوں میں جھانکتا رہا۔ زرد رنگ کا یکہ ڈھونڈتا رہا مگر اسے تلاش نہیں کرسکا۔ اور آخر کار مَیں نے سوچنا شروع کر دیا کہ وہ خاتون محض ایک خواب ہے۔ 
تقریباً ایک ہفتہ بعد مَیں میڈم ڈی رسٹیل کی دعوت پر مدعو تھا۔ رات کا کھانا آٹھ بجے تھا مگر ساڑھے آٹھ بجے تک ہم ڈرائنگ روم میں تھے۔ آخر کار ایک نوکر نے مرکزی دروازہ کھول کر لیڈی الروئے کے آنے کا اعلان کیا۔ یہ وہی عورت تھی جس کی مجھے تلاش تھی۔ وہ آہستگی سے اندر آئی۔ وہ بھورے رنگ کے کوٹ میں چاند کی طرح چمک رہی تھی۔ اس وقت میری خوشی کی انتہا نہیں رہی جب کہا گیا کھانے کی میز پر وہ میرے ساتھ بیٹھے گی۔ بیٹھنے کے بعد، مَیں نے بڑی معصومیت سے کہا ’’مجھے لگتا ہے کہ مَیں نے چند دنوں پہلے آپ کو بانڈ اسٹریٹ پر دیکھا تھا، لیڈی الروے۔‘‘
وہ زرد پڑگئی اور دھیمی آواز میں کہنے لگی، ’’براہ کرم! اونچی آواز میں مت بولئے۔ کوئی سن لے گا۔‘‘ 
ہماری بات چیت کی اس بری ابتداء پر مجھے افسوس ہورہا تھا۔ پھر فرانسیسی ڈراموں کے موضوع میں مَیں ڈوب گیا۔ لیڈی الروئے بہت کم بولتی تھی۔ آواز کافی دھیمی ہوتی اور ایسا لگتا تھا جیسے وہ ڈر رہی ہو کہ کوئی اس کی بات سن لے گا۔ مجھے اس کی پراسراریت میں کشش محسوس ہورہی تھی۔ کھانے کے فوراً بعد وہ جانے کیلئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ تبھی مَیں نے اس سے پوچھا کہ کیا میں اس سے اگلے دن ملاقات کر سکتا ہوں ۔ وہ ایک لمحے کیلئے ہچکچائی، چاروں طرف یہ دیکھنے لگی کہ کوئی ہمارے قریب تو نہیں ہے، پھر اس نے آہستہ سے کہا، ’’ہاں ؛ کل ساڑھے پانچ بجے۔‘‘
مَیں نے میڈم ڈی رسٹیل سے گزارش کی کہ وہ مجھے اس کے بارے میں بتائیں ۔ انہوں نے بتایا کہ لیڈی الروئے ایک بیوہ ہے جس کا پارک لین میں ایک خوبصورت گھر ہے۔ اس کی زندگی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور اس کے بارے میں کوئی زیادہ نہیں جانتا۔‘‘
اگلے دن مَیں وقت مقررہ پر پارک لین پہنچ گیا مگر بٹلر نے بتایا کہ لیڈی الروئے ابھی باہر گئی ہیں ۔ مَیں کافی ناخوش اور پریشان ہو کر کلب چلا گیا، اور طویل غور و خوض کے بعد اسے ایک خط لکھا، جس میں مَیں نے پوچھا کہ کیا میں کسی اور وقت اس سے مل سکتا ہوں ۔ 
اس خط کا جواب کئی دنوں تک نہیں آیا۔ ایک دن مجھے ایک چھوٹا سا نوٹ ملا جس میں کہا گیا تھا کہ لیڈی الروئے اتوار کو چار بجے گھر پر ہوں گی۔ نوٹ پر نیچے درج تھا، ’’براہ کرم، میرے لئے اس پتے پر دوبارہ خط نہ بھیجیں ۔ مَیں اس کی وضاحت بعد میں کروں گی۔‘‘ 

یہ بھی پڑھئے: عالمی کہانیوں کا ترجمہ: چاندنی میں ڈوبی سڑک (ایمبروس بیئرس)

اتوار کو اس نے میرا استقبال کیا۔ ہم دونوں میں کافی دیر تک بات چیت ہوئی اور جب میں نے رخصتی چاہی تو اس نے التجا کی کہ اگر مَیں کبھی خط لکھوں تو اس پتے پر بھیجوں ، ’’مسز۔ ناکس، وائٹیکر کی لائبریری کی منتظم، گرین اسٹریٹ۔‘‘ اس نے وجوہات نہیں بتائیں کہ وہ اس پتے پر خط کیوں نہیں موصول کرسکتی۔ 
ہمارے درمیان دوستی بڑھتی گئی لیکن اس کا پراسرار ماحول ہمیشہ اس کے ساتھ رہا۔ کبھی کبھی مجھے لگتا تھا کہ کوئی قوت اسے کچھ بھی کرنے سے روکتی ہے۔ میرے لئے کسی نتیجے پر پہنچنا واقعی بہت مشکل تھا کیونکہ وہ ان عجیب و غریب مجسموں کی طرح تھی جو عجائب گھروں میں کبھی صاف اور کبھی دھندلے نظر آتے ہیں ۔ 
آخر کار مَیں نے اس سے شادی کے بارے میں پوچھنے کا فیصلہ کیا۔ مَیں اس کی مسلسل رازداری سے تھک گیا تھا۔ مَیں نے خط لکھا کہ کیا اگلے پیر کو وہ مجھ سے چھ بجے مل سکتی ہے۔ اس نے ہاں میں جواب دیا اور میں ساتویں آسمان پر تھا۔ میں اس سے متاثر تھا۔ مَیں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ ہم دونوں کی قسمت شاید ایک سی ہے تبھی ہم ملے، ورنہ کبھی نہیں ملتے۔
’’کیا تم نے اس سے پوچھا؟‘‘ مَیں نے سوال کیا۔ 
’’مَیں اس سے کسی حد تک خائف تھا۔ اس کی شخصیت ہی عجیب تھی،‘‘ مرچیسن نے جواب دیا۔ ’’تم خود سوچ سکتے ہو کہ ایسا کیوں ہے!‘‘ 
پیر کو مَیں اپنے انکل کے ساتھ لنچ پر گیا، اور تقریباً چار بجے ہم گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ مجھے وقت پر لیڈی الروئے کے پاس پہنچنا تھا اس لئے میں نے چند شارٹ کٹ لینے کا فیصلہ کیا۔ مختلف گلیوں سے گزرتے ہوئے دفعتاً میری نظریں لیڈی الروئے پر پڑیں جوایک لمبا لبادہ پہنے تیزی سے چل رہی تھی۔ گلی کی آخری عمارت کے پاس پہنچ کر، وہ سیڑھیاں چڑھ گئی، چابی سے دروازہ کھولا، اور اندر چلی گئی۔ 
’’اوہ تو یہ راز ہے،‘‘ مَیں نے اپنے آپ سے کہا۔ 
پھر مَیں نے جلدی جلدی گھر کا جائزہ لیا۔ یہ ایک بڑی عمارت تھی جس میں کرائے پر کمرے دیئے جاتے تھے۔ دہلیز پر لیڈی الروئے کا رومال گرا ہوا تھا جسے اٹھا کر مَیں نے اپنی جیب میں ڈال لیا۔ پھر سوچنے لگا کہ مجھے کیا کرنا چاہئے۔ میں اس نتیجے پر پہنچا کہ مجھے اس کی جاسوسی کا کوئی حق نہیں ہے، اور پھر مَیں کلب چلا گیا۔ 
وقت مقررہ پر مَیں اس سے ملنے گیا۔ وہ ایک صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی۔ چاندی اور چائے کے رنگ والے گاؤن میں کافی حسین نظر آرہی تھی۔ لباس پر چاندی کے پتھر جڑے ہوئے تھے۔ 
’’تمہیں دیکھ کر خوشی ہوئی۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’مَیں آج سارا دن باہر ہی نہیں گئی۔‘‘ 
مَیں نے حیرت سے اسے دیکھا اور جیب سے رومال نکال کر اس کے حوالے کر دیا۔
’’تم نے آج سہ پہر کمنور اسٹریٹ میں اسے گرا دیا تھا، لیڈی الروئے۔‘‘ مَیں نے سکون سے کہا۔ 
اس نے خائف نگاہوں سے میری طرف دیکھا لیکن رومال لینے کی کوشش نہیں کی۔ ’’تم وہاں کیا کر رہی تھیں ؟‘‘ مَیں نے پوچھا۔
’’تمہیں مجھ سے سوال کرنے کا حق نہیں ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’مَیں یہاں شادی کا پیغام لے کر آیا ہوں ۔‘‘ 
میری یہ بات سن کر اس نے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا، اور زار و قطار رونے لگی۔ 
’’تمہیں مجھے بتانا چاہئے کہ تم وہاں کیا کررہی تھیں ۔‘‘ مَیں نے کہا۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی، اور میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہنے لگی، ’’لارڈ مرچیسن! تمہیں بتانے کیلئے میرے پاس کچھ نہیں ہے۔‘‘
’’تم کس سے ملنے گئی تھیں ؟‘‘ مَیں نے پھر پوچھا۔ ’’کیا یہی تمہارا راز ہے؟‘‘ 
وہ خوفناک حد تک سفید پڑگئی اور کہنے لگی، ’’مَیں کسی سے ملنے نہیں گئی تھی۔‘‘
’’کیا تم سچ نہیں بتا سکتیں ؟‘‘ مَیں نے غصے سے کہا۔’’مَیں نے بتا دیا ہے،‘‘ اس نے جواب دیا۔ 
مَیں غصے سے پھٹ پڑا اور مجھے یاد بھی نہیں کہ غصے میں مَیں نے اسے کیا کچھ کہہ دیا۔ 
پھر مَیں اس کے گھر سے نکل گیا۔
اگلے دن مجھے اس کی طرف سے ایک خط ملا جسے میں نے کھولے بغیر واپس بھیج دیا، اور اپنے ایک دوست کے ساتھ ناروے چلا گیا۔ ایک مہینے کے بعد جب میں واپس آیا تو اخبار میں پڑھا کہ لیڈی الروئے کی موت ہوچکی ہے۔ اوپیرا ہال میں اسے ٹھنڈ لگ گئی تھی اور وہ پانچ دنوں میں فوت ہوگئی تھی۔ اس خبر کے بعد مَیں اپنے مکان میں قید ہوگیا۔ لوگوں سے ملنا جلنا ترک کردیا۔ مَیں لیڈی الروئے سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ میرے اوپر اس کی موت کی خبر پہاڑ بن کر ٹوٹی تھی۔ 
’’کیا تم گلی میں واقع اس عمارت میں گئے تھے؟‘‘ اس کی کہانی سننے کے بعد مَیں نے سوال کیا۔ 
’’ہاں !‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’ایک دن میں کمنور اسٹریٹ گیا۔ مجھے اس بات کا افسوس تھا کہ مَیں نے اس پر شک کیا اور اس کی مدد نہیں کر سکا۔ دستک دینے پر عمارت کا دروازہ ایک شائستہ خاتون نے کھولا۔ مَیں نے پوچھا کہ ’’کیا آپ کے یہاں کرائے پر کوئی کمرہ ہے؟‘‘ اس نے اثبات میں جواب دیا، ’’تین ماہ سے ایک خاتون نہیں آئی ہے اور اس پر کرایہ واجب الادا ہے، آپ اس کا کمرہ لے سکتے ہیں۔‘‘ 
’’کیا وہ خاتون یہ ہیں ؟‘‘ مَیں نے تصویر دکھاتے ہوئے پوچھا۔’’ہاں ! یہ وہی ہے۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’یہ کب واپس آ رہی ہے، جناب؟‘‘
’’اس کا انتقال ہوچکا ہے۔‘‘ مَیں نے جواب دیا۔
’’اوہ جناب، مجھے معلوم نہیں تھا۔‘‘ عورت نے کہا؛ ’’وہ میری سب سے اچھی کرائے دار تھی۔ وہ مجھے تین گنا زیادہ کرایہ صرف کمرے کے ڈرائنگ روم میں بیٹھنے کیلئےدیتی تھی۔‘‘
’’کیا وہ یہاں کسی سے ملی تھی؟‘‘ مَیں نے سوال کیا، لیکن خاتون نے پورے یقین سے کہا کہ وہ یہاں ہمیشہ تنہا آتی تھی۔ 
’’پھر وہ یہاں کرتی تھی؟‘‘ مَیں نے پوچھا۔
’’وہ بس ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر کتابیں پڑھتی تھی، اور چائے پیتی تھی۔‘‘ عورت نے جواب دیا۔ 
’’یہ سننے کے بعد مجھے نہیں سمجھ آیا کہ کیا کہوں لہٰذا وہاں سے نکل آیا۔ اب، تم بتاؤ، تمہارے خیال میں اس سب کا کیا مطلب ہے؟ کیا تمہیں لگتا ہے کہ لیڈی الروئے ایک سچی خاتون تھیں ؟‘‘ 
’’ہاں ۔‘‘ 
’’پھر لیڈی الروئے وہاں کیوں گئی؟‘‘
’’میرے پیارے جیرالڈ،‘‘ مَیں نے جواب دیا، ’’تمہاری پوری بات سننے کے بعد مَیں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ لیڈی الروئے کو پراسرار بننے کا خبط تھا۔ اس نے کمرہ کرائے پر اس لئے لیا تھا کہ اسے پراسرار نظر آنے کا جنون تھا۔ وہ کچھ دیر کیلئے اپنے اس جنون کو جینا چاہتی تھی۔ وہ بیوگی اور اکیلے پن کی زندگی سے عاجز تھی اور نہیں چاہتی تھی کہ اس کی زندگی اتنی سادہ رہے کہ لوگ اس پر ترس کھائیں ۔ لہٰذا اس نے اپنی سادہ زندگی کو پراسرار بنانے کا فیصلہ کیا۔ وہ اپنی کہانی کی ہیروئن تھی۔ اسے پراسرار بننے کا جنون تھا لیکن درحقیقت وہ محض ایک ایسا اِسفنگس (ابوالہول) تھی جس کا کوئی راز نہیں تھا۔‘‘
’’کیا تم واقعی ایسا سوچتے ہو؟‘‘
’’مجھے پورایقین ہے۔‘‘ مَیں نے جواب دیا۔
اس نے مراکشی ڈبہ نکالا، اسے کھولا، اور اس میں موجود لیڈی الروئے کی تصویر کو دیکھا۔
’’مجھے حیرت ہے؟‘‘ اس نے آخر میں کہا۔

نوٹ: واضح رہے کہ مصنف نے لیڈی الروئے کو اسفنکس (ابوالہول) سے تشبیہ دی ہے۔ ابوالہول کے مجسمے سے آپ واقف ہوں گے جو مصر میں اہرام مصر کے قریب ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ابوالہول کے مجسمے کے نیچے قدم مصر کے کئی راز دفن ہیں۔ تاہم، لیڈی الروئے ایسا انفنگس ہوتی ہے جس کا کوئی راز نہیں ہوتا لیکن وہ پراسرار نظر آنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کہانی کے ذریعے مصنف نے بتانے کی کوشش کی ہے کہ ’’اگر آپ کی زندگی میں کوئی راز نہیں ہے تو آپ اپنے طور پر اپنی شخصیت کو پراسرار بناسکتے ہیں!‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK