Inquilab Logo

عالمی کہانیوں کا ترجمہ: تجربہ کار سپاہی

Updated: August 25, 2023, 6:43 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

معروف امریکی ادیب اسٹیفن کرین کی شہرۂ آفاق کہانی ’’دی ویٹیرن‘‘ The Veteranکا اُردو ترجمہ

Photo. INN
تصویر:آئی این این

نچلی کھڑکی سے تین ہیکوری درخت دیکھے جاسکتے تھے جو گھاس کے بڑے میدان میں ایستادہ تھے۔ موسم بہار میں یہ درخت سبز رنگ میں نہا جاتے تھے۔ اس کھڑکی سے گاؤں کے چرچ کی پرانی عمارت کے پاس پائن کے درخت بھی نظر آتے تھے۔ ان درختوں کے سائے میں ایک گھوڑا سستی سے اپنی دم ہلا رہا تھا۔ گرم دھوپ نے گھاس کو زرد رنگ دے رکھا تھا۔
’’کیا تم ان کی آنکھوں کی سفیدی دیکھ سکتے ہو؟‘‘ صابن کے ڈبے پر بیٹھے آدمی نے سوال پوچھا۔
’’نہیں۔‘‘ بوڑھے مگر تجربہ کار سپاہی ہنری فلیمنگ نے گرمجوشی سے جواب دیا۔
’’مسٹر فلیمنگ،‘‘ پنساری نے کہا،’’کیا آپ جنگوں میں خوفزدہ نہیں ہوتے تھے؟‘‘ 
بوڑھا تجربہ کار سپاہی مسکرایا۔ ’’مجھے لگتا ہے کہ مَیں خوفزدہ تھا۔‘‘ اس نے جواب دیا۔ ’’کبھی کبھی بہت ڈر لگتا ہے۔ جب مَیں پہلی جنگ لڑ رہا تھا تو ایسا محسوس ہورہا تھا کہ آسمان گر رہا ہو۔ مجھے لگ رہا تھا کہ دنیا ختم ہونے والی ہے۔ آپ لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ مَیں کتنا خوفزدہ تھا۔‘‘
سبھی ہنس پڑے۔ شاید انہیں یقین نہیں آیا تھا۔ اس گروہ میں بیٹھے لوگوں کیلئے یہ بات حیرت انگیز تھی کہ کوئی سپاہی یہ قبول کرلے کہ وہ جنگ میں خوفزدہ تھا۔ بوڑھا فلیمنگ ہمیشہ ہی سے بہادر رہا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ ہنری ہمیشہ ہی سے ایک منظم فوجی رہا ہے۔ اس کی بہادری کے قصے دور دور تک مشہور تھے۔ اس کی وردی پر سجے ستارے بتاتے تھے کہ اس نے ایک کامیاب فوجی زندگی گزاری ہے۔ مگر جب آج ہنری نے اعتراف کیا کہ وہ خوفزدہ تھا، تو لوگ بے اختیار ہنس پڑے۔ 
بوڑھے فوجی نے کہا، ’’مشکل یہ تھی کہ مجھے لگتا تھا کہ سب مجھ ہی پر گولی چلا رہے ہیں۔ سامنے والی فوج کا ہر آدمی خاص طور پر مجھے اور صرف مجھے ہی نشانہ بنا رہا ہے۔ میں انہیں سمجھانا چاہتا تھا کہ میں برا انسان نہیں ہوں ۔ شاید میں سوچ رہا تھا کہ ایسا کہنے سے وہ مجھ پر حملہ کرنے کی کوششیں کرنا چھوڑ دیں گے لیکن ان کی گولیاں چلتی رہیں اور میں بھی گولیاں چلاتا رہا۔‘‘
ہنری کی آنکھوں کے کونوں پر موجود جھریوں پر دو چھوٹی مثلثیں نمودار ہوئیں۔ ظاہر ہے، وہ اس سنجیدہ کہانی کو مزاحیہ رخ دینے کی کوشش کررہا تھا تاکہ لوگ اس کی کہانیاں سن کر خوفزدہ نہ ہوجائیں۔ اس کے پاؤں کے قریب بیٹھا اس کا چھوٹا پوتا جم کافی خوفزدہ لگ رہا تھا۔ گھبراہٹ کے مارے اس کے دونوں ہاتھ آپس میں جکڑے ہوئے تھے۔ اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلی ہوئی تھیں۔ اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اس کے بہادر دادا ایسی بات کہیں گے۔
’’ایسا پہلی جنگ میں ہوا تھا۔ اس کے بعد مجھے اس کی عادت پڑگئی۔ بیشتر افراد جنگوں کے عادی ہوتے ہیں، خاص طور پر وہ جو فوج کا حصہ بننے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ میرے پاس جنگوں کا تجربہ نہیں تھا اس لئے ابتداء میں مَیں گھبرایا ہوا تھا لیکن آہستہ آہستہ جنگیں میرا معمول بنتی چلی گئیں۔ ‘‘
جب چھوٹا جم اپنے دادا کے ساتھ سیر کو جاتا تھا تو خوب اچھل کود کرتا تھا۔ لیکن آج وہ خاموشی سے دادا کی انگلی پکڑے چل رہا تھا۔ شاید وہ کچھ سوچ رہا تھا۔ پھر اس نے پوچھا، ’’دادا! کیا وہ تمام باتیں سچ تھیں؟‘‘
’’کون سی باتیں ؟‘‘ دادا نے پوچھا۔
’’آ پ کے خوفزدہ ہوجانے کے بارے میں۔‘‘ 
’’ہاں، وہ کافی حد تک سچ تھا، جمی۔ وہ میری پہلی جنگ تھی۔ اس لئے مَیں خوفزدہ تھا۔‘‘ 
جمی کو اپنے دادا کی بہادری پر فخر تھا لیکن آج اس کا بھرم ٹوٹ رہا تھا۔ وہ سارا راستہ خاموش رہا۔

یہ بھی پڑھئے: پُرانے شاہ بَلُوط کا آخری خواب (ہینس کرسچین اینڈرسن)

بوڑھا فوجی رات کو سکون سے سو گیا۔ اس کی آنکھ باورچی خانے سے آنے والی دھیمی آواز سے کھلی۔ اسے سویڈی کی رونے کی آواز آرہی تھی۔ وہ اس ایک منزلہ مکان میں کرائے دار کی حیثیت سے رہتا تھا۔ بوڑھے کو دیکھتے ہی وہ چیخنے لگا ’’گودام میں آگ لگی ہے۔ گودام میں آگ لگی ہے۔‘‘ 

 بوڑھے کے جسم میں اچانک بجلی سی بھر گئی۔ نیند کا خمار غائب ہوگیا۔ تبھی اوپری منزل سے ایک بوڑھی خاتون کی آواز آئی، ’’کیا بات ہے؟ کیا بات ہے؟‘‘
جب وہ گودام کی طرف لپکے تو ان کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ سویڈی کی لالٹین گودام کے دروازے کے سامنے الٹی پڑی تھی اور آگ تیزی سے پھیل رہی تھی۔ گودام سے مویشیوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ آس پاس بے شمار شہد کی مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔ بوڑھے فوجی نے گودام کے بڑے دروازے کو ہٹایا اور ایک زرد اور نارنجی شعلہ تیزی سے باہر آیا۔ فوجی اگر ہٹ نہیں جاتا تو اس کی زد میں ضرور آجاتا۔
آس پاس کے افراد بالٹیوں سمیت آگئے تھے اور پاس موجود کنویں سے پانی بھر رہے تھے لیکن اس سے ایک وقت میں صرف ایک ہی بالٹی بھری جاسکتی تھی۔ لوگ دیوانہ وار بالٹیاں بھرنے کی کوشش کررہے تھے۔ بوڑھا فلیمنگ اپنے ہاتھ میں چاقو لے کر گودام میں گھس گیا، جہاں گہرا دھواں تھا۔ وہاں بمشکل ہی کچھ نظر آرہا تھا۔ آگ کے شعلے تیزی سے پھیل رہے تھے۔ جانور کی تیز آوازیں آرہی تھیں۔ عجیب وحشت پھیلی ہوئی تھی۔
ہنری نے ایک بوڑھی گھوڑی کے سر پر کمبل پھینکا اور چاقو سے اس کی رسی کاٹ دی اور اسے دروازے کی جانب دھکیلا۔ جب گھوڑی باہر نکل گئی تو وہ دوسرے جانوروں کو بچانے کیلئے پھر گودام میں آیا۔ اس طرح اس نے پانچ گھوڑوں کو باہر نکالا۔ اس کے کپڑوں پر آگ لگ گئی تھی۔ آخری گھوڑے کو لے کر جیسے ہی باہر آیا لوگوں نے پانی کی بالٹیںا س پر الٹ دیں۔ وہ پھر گودام کی طرف پلٹا ۔ وہ تہ خانے کی طرف بھاگا جا رہا تھا جہاں گائوں والوں نے اپنا اناج جمع کر رکھا تھا۔ وہ لنگڑا رہا تھا۔ شاید گھوڑوں کو نکالنے میں اسے کہیں چوٹ لگ گئی تھی یا بوڑھی ٹانگیں جواب دے گئی تھیں لیکن وہ ہمت سے دوڑ رہا تھا۔ کسی زخمی جنونی گھوڑے کی طرح۔
لوگ اپنے مویشیوں کو آتش زدہ گودام کے پاس سے ہٹا کر محفوظ درختوں سے باندھ رہے تھے۔ جانور پریشان تھے۔ آگ نے سبھی کے اوسان خطا کردیئے تھے۔ کنویں پر افراتفری کا ماحول تھا۔ ہر شخص چاہ رہا تھا کہ اس کی بالٹی بھرجا ئے اور وہ اسے آگ پر ڈال آئے۔بوڑھے فوجی نے گودام کے ایک حصے پر بندھی ایک گائے کوبچایا اور اسے محفوظ درخت کی طرف ہانکا۔ مگر گائے سویڈی سے ٹکرا گئی جس کے ہاتھ میں دودھ کی ایک بالٹی تھی۔ گائے کی رسی سویڈی کے پاؤں میں اٹک گئی۔ اب عالم یہ تھا کہ گائے تیزی سے بھاگ رہی تھی اور سویڈی اس کے پیچھے زمین پر رگڑتا جارہا تھا۔ دودھ کی بالٹی سے دودھ گرتا جارہا تھا، اور زمین پر ٹیڑھی میڑھی لکیریں بنتی جارہی تھیں۔ ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے زمین پر کسی نے چاندنی کھینچ دی ہو۔ 
بوڑھے فلیمنگ نے چاقو سویڈی کی جانب اچھالا اور اس نے رسی کاٹ کر اپنے آپ کو گائے سے الگ کیا۔ پھر وہ گودام کے اگلے حصہ پر دوبارہ آئےاور افسردہ ہو کر بھڑکتی آگ کو تکنے لگے۔ ان کی حالت ایسی تھی کہ بطور انسان ہر تدبیر آزما لی ہے لیکن آگ بجھانا اب ان کے بس میں نہیں۔ آس پاس کے لوگ بھی جمع ہوگئے تھے۔ کسی نے چرچ کو بھی اطلاع دے دی تھی ،اور اب دور سے پرانی گھنٹی بج رہی تھی۔ آسمان پر سرخی مائل شعلہ بلند ہوتا جارہا تھا۔ دور دراز کے لوگ قیاس آرائیوں میں مصروف تھے کہ آگ کہاں لگی ہے۔
لمبے لمبے زرد شعلوں سے عجیب سی آوازیں آرہی تھیں۔ ہوا نے تماشائیوں کے چہروں پر دھوئیں کے بادل بکھیر دیئے تھے ۔ زرد اور نارنجی رنگ کے شعلوں نے اس رنگین پرانے گودام کی شکل سیاہ کردی تھی۔ 
پھر سویڈی ایک مرتبہ پھر روتا ہوا آیا، ’’گھوڑوں کے بچے، گھوڑوں کے بچے اندر ہی ہیں!‘‘ 
بوڑھا فلیمنگ لڑکھڑا گیا۔ یہ سچ تھا۔ وہ گودام کے پچھلے حصے میں بندھے گھوڑوں کے دو بچوں کو بھول گئے تھے۔ ’’لڑکے،‘‘ ہنری نے کہا، ’’مجھے انہیں باہر نکالنے کی کوشش کرنی چاہئے۔‘‘ مگروہاں موجود لوگ فلیمنگ کیلئے پریشان تھے۔ وہ بوڑھا تھا، کمزور تھا۔ اس کے کپڑوں میں آگ بھی لگ گئی تھی۔ وہ لڑکھڑارہا تھا لیکن اس کے علاوہ کسی میں ہمت نہیں تھی کہ جلتے گودام میں جائے۔
لوگ کہنے لگے’’جان بوجھ کر موت کو گلے نہ لگاؤ!‘‘
ایک گروپ نے کہا ’’اگر وہ اندر چلا گیا تو واپس زندہ نہیں آئے گا۔ آگ کافی بڑھ چکی ہے۔‘‘
پاس کھڑے خواتین کے گروپ نے کہا ’’ایسی حالت میں اندر جانا خودکشی کے مترادف ہے۔‘‘ 
’’بیچارے گھوڑے!‘‘ بوڑھے ہنری فلیمنگ نے کہا اور تمام لوگوں کی باتیں نظر انداز کرتا ہوا، تیزی سے گودام میں گھس گیا۔ اس کے اندر جانے کے چند سیکنڈ بعد ہی گودام کی چھت ایک زوردار آواز سے گرگئی۔ کثیف دھوئیں سے اپنے آپ کو بچانے کیلئے لوگوں نے منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔ دھوئیں کا ایک بڑا جھونکا آسمان کی طرف لپکا۔ گویا بوڑھے فوجی کی طاقتور روح اس کے جسم سے نکل گئی ہو۔ جیسے کسی چھوٹی سی بوتل سے ایک طاقتور جن آزاد ہوگیا ہو۔ زرد اور نارنجی رنگوں کے شعلوں میں ہلکا گلابی رنگ شامل ہوگیا۔ غالباً آدھی رات کی سیاہی اور شعلے کے رنگ بھی اس روح کی رنگینی کو چھپانے کی طاقت کھو بیٹھے ہوں۔ تبھی لوگوں نے تباہ شدہ گودام سے گھوڑوں کے دو بچوں کو باہر آتے دیکھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK