• Fri, 26 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

عالمی کہانیوں کا اردو ترجمہ: ماہی گیر اور اس کی روح

Updated: December 26, 2025, 4:48 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

آئرلینڈ کے معروف ادیب آسکر وائلڈ کی شہرہ آفاق کہانی ’’دی فشر مین اینڈ ہز سول‘‘ The Fisherman and his Soulکا اردو ترجمہ۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

ہر شام، جب سورج سمندر کے کنارے سرخ ہو کر ڈوبنے لگتا، ایک نوجوان ماہی گیر اپنی کشتی لے کر پانی میں اتر جاتا۔ وہ تنہا رہتا تھا کیونکہ اس کے دل میں ایسی باتیں تھیں جن کا بوجھ کوئی اور نہیں صرف سمندر ہی اٹھا سکتا تھا۔ وہ جال سمندر میں پھینکتا مگر اس میں مچھلیوں سے زیادہ خاموشی جکڑتی تھی۔ سمندر سے اس کی گہری دوستی تھی۔ جب وہ ساحل پر ہوتا تو لہریں اس کے قدموں سے ایسے لپٹ جاتیں، جیسے اسے صدیوں سے جانتی ہوں، اور وہ سمندر ہی کا باشندہ ہو۔ 
ایک شام، جب ہوا ساکت تھی اور پانی شیشے کی طرح صاف تھا، اس نے اپنا جال پھینکا۔ اور خیالوں میں کھوگیا۔ کچھ لمحوں بعد جال بھاری ہو گیا۔ اس نے سوچا یقیناً بڑی مچھلی ہاتھ لگی ہوگی مگر جب اس نے جال کھینچا تو اس میں ایک جل پری پھنسی ہوئی تھی۔ اس کے بال سمندر کی تہہ جیسے گہرے سبز تھے۔ اس کی آنکھیں نیلی نہیں بلکہ گہرے سمندر کی یادوں جیسی تھیں۔ وہ ماہی گیر کو دیکھ کر گھبرا گئی اور کہنے لگی، ’’مجھے چھوڑ دو، میں تمہیں وہ گیت سکھاؤں گی جو صرف سمندر جانتا ہے، میں تمہیں وہ راز بتاؤں گی جو صرف موتیوں کو معلوم ہیں۔ ‘‘ 
مگر ماہی گیر اسے یک ٹک دیکھتا رہا۔ اس نے اپنی زندگی میں بہت سی چیزیں دیکھی تھیں ؛ خوف، نفرت، حسد اور رشک مگر محبت کبھی نہیں دیکھی تھی، اور اب اسے یوں محسوس ہورہا تھا کہ وہ اس جذبے کو پہچان رہا ہے۔ اس نے آہستہ سے جال کھولا۔ جل پری آزاد ہو گئی، مگر پانی میں جانے سے پہلے اس نے مڑ کر کہا:’’رحمدل ماہی گیر! اگر تم مجھے دوبارہ دیکھنا چاہتے ہوتو ہر شام یہاں آنا، اور مجھے پکارنا۔ میں حاضر ہوجاؤں گی۔ ‘‘
اس رات ماہی گیر سو نہ سکا۔ اس نے ایسی مخلوق پہلی بار دیکھی تھی۔ اگلی صبح وہ اسی انتظار میں تھا کہ شام کب ہو۔ اور شام ہوتے ہی وہ تیزی سے ساحل کی جانب بھاگا اور بے تابی سے جل پری کو آواز دی۔ پھر وہ اپنی تمام خوبصورتی کے ساتھ پانی کی سطح پر ابھری۔ اس کی آواز میں سمندر کی سی گہرائی تھی۔ سننے والا اس میں ڈوب سا جاتا تھا۔ پھر ان دونوں نے خوب باتیں کیں۔ 
اب وہ ہر شام ملنے لگے۔ ماہی گیراسے زمین کی باتیں سناتا کہ دیوار کیا ہوتی ہے پرندے کیا ہوتے ہیں اور جل پری اسے سمندر کے خوابیدہ قصے سناتی، جسے سن کر ماہی گیر حیران رہ جاتا۔ پھر ایک رات، جل پری نے کہا ’’اگر تم مجھ سے محبت کرتے ہو تو میرے ساتھ سمندر میں چلو۔ نیلے گہرے سمندر میں .... مگر یاد رکھو کہ انسان کی روح سمندر میں نہیں رہ سکتی۔ ‘‘
ماہی گیر نے اسے غور سے دیکھا اور جواب دیا: ’’میری روح میرے دل پر بوجھ ہے۔ اگر وہ مجھے تم سے جدا کرتی ہےتو میں اس کے بغیر جینے کیلئے تیار ہوں۔ ‘‘ یہ الفاظ سمندر نے سن لئے اور انہیں ہمیشہ کیلئے یاد کر لیا۔ 
اگلی صبح، ماہی گیر چرچ گیا۔ چرچ کی دیواریں موٹی تھیں جن کے اندر صدیوں کی خاموشی سمائی ہوئی تھی۔ ایسی خاموشی جو سوالوں کو پسند نہیں کرتی۔ پادری قربان گاہ کے پاس کھڑا تھا۔ اس کی آنکھیں مقدس کتاب پر تھیں، اور دل حکم مسیح پر۔ 
ماہی گیر نے پادری سے کہا:’’میں نے سمندر میں ایک جل پری دیکھی ہے۔ میں اس سے محبت کرتا ہوں۔ وہ چاہتی ہے کہ میں اس کے ساتھ سمندر میں رہوں، اور میں بھی یہی چاہتا ہوں۔ ‘‘
پادری نے سر اٹھاکر اسے دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں خوف تھا۔ وہ خوف جو ہر اس چیز سے پیدا ہوتا ہے جسے دنیاوی نظام سے ترتیب نہ دیا گیا ہو۔ 
’’وہ شیطانی مخلوق ہے، ‘‘ پادری کی آواز کسی اندھے کنوئیں سے آتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔ ’’اس کے جسم میں روح نہیں، اور جو روح سے خالی ہو، اس میں محبت نہیں ہوتی اور وہ محبت کے لائق نہیں ہوتی۔ ‘‘
ماہی گیر شاید فیصلہ کرکے آیا تھا۔ اس نے جواب دیا:’’وہ مجھ سے محبت کرتی ہے، اور میں اس سے۔ فادر! کیا سچی محبت کو روح کی اجازت درکار ہوتی ہے؟‘‘ 
پادری کے چہرے پر سختی چھاگئی، اس نے تقریباً چیختے ہوئے کہا، ’’روح خدا کی سانس ہے۔ اور جو اسے چھوڑ دے، وہ خدا کو چھوڑ دیتا ہے۔ جاؤ، اور اس فتنہ کو اپنے دل سے نکال دو۔ ‘‘ 
مگر ماہی گیر کا دل پہلے ہی اس کے ہاتھوں سے نکل چکا تھا۔ وہ چرچ سے نکلا۔ اب اس کے قدم جنگل کی طرف اٹھ رہے تھے۔ اس جنگل کی طرف جہاں درخت پرانی دعاؤں سے زیادہ قدیم تھے۔ وہاں ایک انتہائی بدصورت چڑیل رہتی تھی۔ اس کی کمر جھکی ہوئی تھی، بال سوکھے پتے جیسے، اور آواز زمین جیسی کھردری تھی۔ 
جب ماہی گیر نے اپنے دل کی بات چڑیل کو بتائی تو اس نے کہا، ’’تم اپنی روح سے جان چھڑانا چاہتے ہو؟‘‘ ماہی گیر نے اثبات میں سر جھکا دیا۔ 
چڑیل نے کہا، ’’لوگ عام طور پر اپنی روح بیچتے ہیں مگر تم اسے چھوڑنا چاہتے ہو۔ ‘‘
ماہی گیر نے کہا:’’میں اسے اس لئے چھوڑنا چاہتا ہوں کیونکہ یہ مجھے محبت کرنے سے روکتی ہے۔ ‘‘
چڑیل ہنس دی۔ انتہائی مکروہ ہنسی۔ اس ہنسی میں تجربہ واضح طور پر جھلک رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اس نے کئی روحوں کو ان کے جسم سے آزاد کیا ہو۔ 
’’آج رات آؤ، ‘‘ اس نے کہا، ’’جب چاند پورا ہو، اور سمندر خاموش۔ ‘‘ اور وہ اپنی جھوپڑی میں لوٹ گئی۔ 
رات کو مکمل چاند جب سفید ہوگیا، اور سمندر نے اپنی سانسیں روک لیں تو ماہر گیر، چڑیل کی جھوپڑی کے سامنے حاضر ہوگیا۔ چڑیل نے ایک سیاہ دائرہ بنایا۔ اس دوران اس کی زبان سے قدیم الفاظ نکل رہے تھے، جو ماہی گیر کی سمجھ سے پرے تھے۔ پھر اس نے ماہی گیر کی طرف دیکھ کر کہا، ’’اب اپنی روح کو حکم دو کہ وہ تمہارا جسم چھوڑ دے۔ ‘‘ جب ماہی گیر نے یہ الفاظ دہرائے تو اس کے دل میں شدید درد اٹھا، جیسے کسی نے اس کا نام اندر سے پکارا ہو۔ اور چند لمحوں بعد اس کی روح اس کے سامنے کھڑی تھی۔ بالکل سفید اور خوبصورت۔ وہ بالکل اس کی مانند تھی مگر اس کی آنکھوں میں خواہش نہیں تھی، صرف دانائی اور حکمت بھری تھی۔ 
’’مجھے مت چھوڑو، ‘‘ روح نے تقریباً روتے ہوئے التجا کی، ’’میں تمہاری آنکھ ہوں، تمہاری سمجھ ہوں، تمہارا راستہ ہوں۔ تمہاری دانائی اور حکمت ہوں۔ میرے بغیر تم اچھے برے میں فرق نہ کر سکو گے۔ ‘‘
ماہی گیر نے جواب دیا:’’میں نے محبت کا انتخاب کیا ہے۔ اگر اس کی قیمت دانائی اور حکمت ہے تو میں اسے ادا کرنے کیلئے تیار ہوں۔ ‘‘ 
چڑیل نے چھری بڑھائی، اور اشارہ کیا۔ 
ماہی گیر نے چھری اپنے سینے پر رکھی۔ اور آنکھیں بند کرلیں۔ چند لمحوں بعد روح اس کے جسم سے الگ ہوگئی۔ مگر چند میٹر کے فاصلے پر کھڑی رہی۔ شاید اسے امید تھی کہ ماہی گیر کو پچھتاوا ہو اور وہ اسے دوبارہ قبول کرلے، اور وہ پھر سے اس کے جسم میں سما جائے۔ مگر ماہی گیر نے اس سے یوں آنکھیں پھیر لیں، جیسے اسے جانتا ہی نہ ہو۔ چڑیل نے کہا، ’’اب تمہارا جسم جادو کے زیر اثر ہے۔ تم سمندر میں جاسکتے ہو اور سمندر کے باہر بھی آسکتے ہو، بالکل تمہاری جل پری کی طرح۔ ‘‘
ماہی گیر خاموشی سے چڑیل کی باتیں سنتا رہا۔ 
پھر جدائی کا وقت آگیا۔ جدا ہوتے وقت روح نے کہا:’’چڑیل چاہے کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہو، تم ایک دن مجھے دوبارہ اپناؤگے۔ تم سمندر میں رہو۔ مَیں اس جسم کے بغیر دنیا دیکھوں گی، اور ہر سال تمہارے پاس آکر تمہیں بتاؤں گی کہ میں نے دنیا میں کیا دیکھا۔ اور جس دن تم نے میری بات مان لی، میں تم میں سما جاؤں گی۔ اور یقین جانو اس وقت تک تم برباد ہوچکے ہوگے۔ ‘‘
ماہی گیر نے کچھ نہ کہا۔ وہ سمندر کی طرف چلا گیا۔ اور چاند نے دیکھا کہ ایک انسان اپنی پوری انسانیت کا ایک حصہ لہروں کے حوالے کر رہا ہے۔ 
ایک سال گزر گیا۔ سمندر بدستور نیلا تھا، اور جل پری بدستور خوبصورت مگر ماہی گیر کے دل میں ایک تاریک اور خاموش جگہ تھی۔ اس جگہ میں اب جادوئی منتر داخل تھے۔ ایک رات، جب چاند کی کرنیں کمزور تھیں اور لہریں سست، ماہی گیر ساحل پر آکر بیٹھ گیا۔ وہاں اس کی روح کھڑی تھی۔ وہ اب پہلے جیسی نہیں تھی۔ اس کے قدموں پر گرد تھی، اور آنکھوں میں ایک چمک، ایسی چمک جو صرف دیکھ لینے سے دل کو بے چین کر دیتی ہے۔ ’’میں نے دنیا دیکھی ہے، ‘‘ روح نے کہا۔ ’’میں نے شہر دیکھے ہیں جن کے دروازے ہاتھی دانت کے ہیں، اور بازار دیکھے ہیں جہاں خواہشیں تول کر بیچی جاتی ہیں۔ ‘‘ اس نے بتایا کہ وہ ایک ایسے شہر میں گئی جہاں ایک نوجوان تاجر نے ایک بچے کو سونے کے بدلے بیچ دیا، اور اس عمل پر کسی کی آنکھوں سے آنسو نہ نکلے۔ 
’’آؤ میرے ساتھ، ‘‘ روح نے کہا، ’’میں تمہیں وہ سب دکھاؤں گی جو تم نے نہ دیکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تم ایک محبت کیلئے ساری دنیا کیوں چھوڑ دو؟‘‘ 
ماہی گیر نے جل پری کی طرف دیکھا۔ وہ خاموش تھی۔ لیکن وہ دعائیں مانگ رہی تھیں کہ ماہی گیر کا دل بدل نہ جائے۔ ’’نہیں، ‘‘ ماہی گیر نے کہا۔ ’’جو میں نے چُنا ہے، وہی میری دنیا ہے۔ ‘‘ 
روح نے مسکرا کر کہا: ’’میں اگلے سال پھر آؤں گی۔ ‘‘ دوسرا سال گزرا۔ 
سمندر اب بھی گیت گاتا تھا لیکن ماہی گیر کے تاریک دل کے سبب جل پری کے گیتوں میں بھی اداسی شامل ہو چکی تھی۔ اس رات، روح پھر آئی۔ ماہی گیر ساحل پر بیٹھا اسی کا انتظار کررہا تھا۔ 
اس مرتبہ روح کا لباس ارغوانی تھا، اور ہاتھوں میں قیمتی پتھر۔ ’’میں نے طاقت دیکھی ہے، ‘‘ روح نے کہا۔ ’’میں نے ایک بادشاہ دیکھا ہے جو لوگوں کی جانوں سے کھیلتا ہے، اور اسے خدا کہا جاتا ہے۔ ‘‘ 
’’میرے ساتھ آؤ، ‘‘ روح نے کہا، ’’اور میں تمہیں حکم دینا سکھاؤں گی۔ محبت تمہیں کمزور بناتی ہے، طاقت تمہیں مکمل کرے گی۔ ‘‘
 ماہی گیر کے دل میں لمحہ بھر کو ایک خواہش جاگی، چھوٹی، مگر خطرناک۔ لیکن اسی لمحے جل پری نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ وہ ہاتھ ٹھنڈا تھا، مگر سچی محبت کا ہاتھ تھا۔ 
’’نہیں، ‘‘ ماہی گیر نے کہا۔ ’’میں حاکم نہیں بننا چاہتا۔ میں محبوب ہوں۔ ‘‘ 
روح کی مسکراہٹ مدھم ہو گئی۔ ’’میں پھر آؤں گی، ‘‘ اس نے کہا، ’’کیونکہ تیسرا فتنہ سب سے میٹھا ہوتا ہے۔ ‘‘
تیسرا سال آیا۔ اس بار روح کے ہاتھ خالی تھے مگر آواز میں مٹھاس تھی۔ ’’میں نے محبت دیکھی ہے، ‘‘ روح کی آنکھوں میں چمک تھی۔ ’’انسانی محبت۔ وہ محبت جو روتی ہے، جو جھلک مانگتی ہے، اور جسے منتروں کے بغیر حاصل کیا جاتا ہے۔ تم نے آدھی محبت منتخب کی ہے، ‘‘  روح نے کہا۔ ’’آؤ، اور پوری محبت کا انتخاب کرو۔ ‘‘ 
یہ سن کر ماہی گیر جل پری کی جانب مڑا اور اس کا دل کانپ اٹھا کیونکہ اس نے پہلی بار جل پری کی آنکھوں میں خوف دیکھا تھا۔ 
جب ماہی گیر نے خوف کی وجہ پوچھی تو جل پری کہنے لگی: ’’میں تمہیں وہ محبت نہیں دے سکتی جو انسان دیتے ہیں۔ لیکن اگر تم مجھے چھوڑ کر اپنی دنیا میں لوٹ جاؤگے تو میں مر جاؤں گی کیونکہ یہی قدرت کا نظام ہے۔ ‘‘
ماہی گیر خاموش رہا۔ اور یہی خاموشی نے روح کو فاتح بنانا شروع کر دیا۔ 
روح اور ماہی گیر کی تیسری ملاقات کے بعد سے سمندر نے گیت گانا چھوڑ دیا۔ جل پری بھی خاموش ہوگئی۔ وہ ہر وقت چٹان پر بیٹھی رہتی، اور اس کی آنکھیں پانی کی گہرائی میں جمی رہتیں ، جیسے وہ کسی ایسی چیز کو دیکھ رہی ہو جو واپس نہیں آ سکتی۔ 
پھر ایک دن ماہی گیر نے اس سے کہا ’’میں اپنی دنیا میں جا رہا ہوں۔ ‘‘ 
جل پری نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سمندر رواں ہوگیا۔ وہ کہنے لگی، ’’اگر تم چلے گئےتو میں مر جاؤں گی کیونکہ تمہارا دل اب پورا نہیں رہا، اب اس میں صرف مَیں نہیں ہوں بلکہ تمہاری دنیا کی محبت بھی بھرگئی ہے اور آدھے دل کی محبت ہماری دنیا میں زندہ نہیں رہتی۔ ‘‘
ماہی گیر نے کچھ نہ کہا۔ اس کے دل و دماغ زمینی اور سمندری محبت کے درمیان جنگ کرتے کرتے تھک چکے تھے۔ ماہی گیر کئی برسوں بعد پہلی بار زمین پر بنے اپنے گھر کی طرف جارہا تھا۔ ماہی گیر نے سمندر ہمیشہ کیلئے چھوڑ دیا۔ اور پھر نیلگوں گہرے سمندر نے دیکھا کہ ’’محبت‘‘ (جل پری) سانس روک کر پانی میں ڈوب گئی۔ 
اگلی صبح، لہریں ایک جسم ساحل پر لے آئیں۔ یہ جل پری کی لاش تھی۔ اس کے بال سمندر کی طرح بکھرے تھے، اور چہرے پرکوئی شکوہ نہ تھا، صرف حیرت تھی۔ ماہی گیر جب ساحل پر آیا تو اسے دیکھ کر اس کے اندر وہ چیز ایک تیز آواز کے ساتھ ٹوٹ گئی جو ٹوٹنے کے بعد دوبارہ کبھی نہیں جڑتی۔ اسی لمحے ماہی گیر کی روح بھی وہاں آ گئی۔ 
وہ اس کے سامنے کھڑی تھی، نہ فاتح، نہ مغرور، صرف خاموش۔ 
’’اب میں تمہارے ساتھ رہ سکتی ہوں، ‘‘روح نے کہا۔ ’’کیونکہ تم نے وہ سب کچھ کھو دیا ہے جس نے تمہیں کمزور بنایا تھا۔ ‘‘
ماہی گیر نے روح کو نظر انداز کرتے ہوئے جل پری کو اپنے بازوؤں میں اٹھالیا، اور مردہ جل پری سے کہنے لگا: ’’جب تم میرے ساتھ نہ تھیں، تب میں زندہ تھا، مگر مکمل نہ تھا۔ اور جب تم مر گئیں تو میں پورا ہوا، مگر اب زندہ نہیں رہا۔ ‘‘
اس نے جل پری کو ریت میں دفن کیا۔ اس جگہ جہاں سمندر اس کے مردہ جسم کو کبھی نہ چھو سکے۔ اور خود اس کی قبر کے بازو میں لیٹ گیا۔ 
لوگ کہتے ہیں کہ اگلے دن جب سورج نکلا، تو ماہی گیر کے دل نے دھڑکنا چھوڑ دیا تھا۔ 
پادری کو بلایا گیا۔ اس نے دونوں کی لاشیں دیکھیں، اور کہا:’’میں ان کیلئے دعا نہیں مانگوں گا کیونکہ ان کی محبت قدرت کے قانون کے خلاف تھی۔ ‘‘ 
سمندری لاش منوں مٹی تلے دبی رہی جبکہ زمینی لاش اسی طرح زمین پر پڑی رہی۔ 
زمین والوں نے ان کی محبت قبول کرنے سے انکار کردیا تھا مگر اسی رات سمندر نے معجزہ کیا۔ ڈھیر سارا پانی ماہی گیر کے گرد جمع ہوا اور منوں ریت بہا لے گیا اور یوں ماہی گیر، جل پری کے بازو میں دفن ہوگیا۔ پھر ریت سے دو سفید پھول نکلے، ایک جل پری کی قبر سے، اور ایک ماہی گیر کی۔ دونوں کا ایک رخ ایک دوسرے کی جانب تھا۔ اس طرح جیسے وہ دونوں صدیوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں، پہچانتے ہوں۔ 
اگلی صبح جب پادری نے یہ دیکھا تو غالباً زندگی میں پہلی بار اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ اس نے کہا:’’جہاں دنیا نے محبت کا قانون ماننے سے انکار کیا، وہاں خدا نے رحم و کرم کا مظاہرہ کیا۔ ‘‘ 
پھر اس نے ان کیلئے دعائیں مانگیں۔ اور یہ دعائیں مقدس کتاب سے نہیں تھیں بلکہ پادری کے دل سے نکلی تھیں۔ 
یہ کہانی یہ نہیں کہتی کہ روح بے کار ہے، اور نہ یہ کہتی ہےکہ محبت سب کچھ ہے۔ یہ کہانی بتاتی ہے کہ روح بغیر محبت کے ظالم ہو جاتی ہے، اور محبت بغیر روح کے مر جاتی ہے۔ اسی طرح نجات انتخاب میں نہیں بلکہ قربانی میں ملتی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK