معروف آئرش ادیب آسکر وائلڈ کی شہرۂ آفاق کہانیThe Happy Prince کا اُردو ترجمہ
EPAPER
Updated: November 25, 2024, 9:32 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
معروف آئرش ادیب آسکر وائلڈ کی شہرۂ آفاق کہانیThe Happy Prince کا اُردو ترجمہ
شہر کے بلند ترین مقام کے ایک اونچے ستون پر خوش و خرم شہزادہ کا مجسمہ تھا جس پر سونے کی پرت چڑھی تھی۔ آنکھوں میں دو چمکدار نیلم جڑے تھے جبکہ تلوار کے دستے پر ایک بڑا سرخ یاقوت چمک رہا تھا۔ ہر خاص و عام ہمہ وقت اس مجسمہ کی تعریف کرتے تھے۔ شہر کے کاؤنسلرز اسے دیگر خوبصورت چیزوں سے تشبیہ دیتے تھے۔ لوگ اس مجسمہ کی مثالیں مختلف طریقے سے دیتے تھے۔ ’’تم خوش و خرم شہزادے کی طرح کیوں نہیں بن سکتے؟‘‘ ایک ماں نے اپنے بچے کو کہا جو چاند کیلئے رو رہا تھا۔ شہزادہ کبھی کسی چیز کیلئے نہیں روتا۔
’’اس دنیا میں کوئی تو ہے جو خوش ہے۔‘‘ ایک مایوس آدمی مجسمہ کی طرف دیکھتے ہوئے بڑبڑایا۔’’وہ بالکل فرشتہ لگتا ہے۔‘‘ یتیم خانے میں پلنے والے بچوں نے کہا جو سامنے واقع چرچ سے نکلے تھے اور سبھی نے سفید لباس پہن رکھا تھا۔
ایک رات ایک چھوٹا ابابیل شہر کے اوپر اُڑنے لگا۔ اس کے دوستوں نے چھ ہفتے پہلے مصر کی جانب ہجرت کی تھی لیکن وہ پیچھے رہ گیا تھا کیونکہ اسے دنیا کی سب سے خوبصورت ابابیل (ریڈ) سے محبت ہوگئی تھی لیکن وہ اس کے ساتھ ہجرت کرنے کیلئے تیار نہیں تھی۔ اسے اپنے گھر سے زیادہ محبت تھی لہٰذا اس نے مصر کی جانب اکیلے ہی پرواز کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ دن بھر اڑتا رہا اور رات کے وقت شہر پہنچا۔
’’رات گزارنے کیلئے شاید یہاں جگہ مل جائے۔‘‘ یہ سوچتے ہی اس کی نظر بلند ستون پر بنے خوبصورت مجسمہ پر ٹھہر گئی اور پھراس نے وہیں ٹھہرنے کا فیصلہ کرلیا اور خوش و خرم شہزادے کے قدموں کے درمیان اتر گیا۔ اس نے سونے کیلئے جیسے ہی اپنا ایک بازو سر کے نیچے رکھا پانی کا ایک بڑا قطرہ اس پر گر پڑا۔ ’’کتنی عجیب بات ہے!‘‘ اس نے سوچا۔ `آسمان پر بادل کا نشان تک نہیں ہے، ستارے بالکل صاف اور روشن ہیں پھر بھی بارش ہو رہی ہے۔ پھر ایک قطرہ اور گرا۔
’’ایسے مجسمے کا کیا فائدہ جو مجھے بارش سے نہیں بچاسکتا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ اُڑنے کیلئے پر تولنے لگا۔ اس سے پہلے کہ وہ پر کھولتا، تیسرا قطرہ گرا، اور اس نے اوپر دیکھا۔ اوہ! اس نے کیا دیکھ لیا! خوش و خرم شہزادے کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں اور آنسو اس کے سنہری گالوں پر بہہ رہے تھے۔ اس کا چہرہ چاندنی میں اتنا حسین نظر آرہا تھا کہ ننھے ابابیل کا دل پگھل گیا۔
’’تم کون ہو؟‘‘ ابابیل نے پوچھا۔
’’مَیں خوش و خرم شہزادہ ہوں۔‘‘
’’تو پھر کیوں رو رہے ہو؟‘‘ ابابیل نے پوچھا۔
’’جب میں زندہ تھا اور میرے سینے میں دل دھڑکتا تھا، تب مجھے نہیں معلوم تھا کہ آنسو کیا ہوتے ہیں کیونکہ میں ایک شاندار محل میں رہتا تھا جہاں غم کو داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ دن میں مَیں اپنے ساتھیوں کے ساتھ باغ میں کھیلتا تھا اور شام کو محل کے بڑے ہال میں رقص کرتا تھا۔ باغ کے چاروں طرف اونچی دیواریں تھیں لیکن میں نے کبھی یہ پوچھنے کی پروا نہیں کی کہ اس سے آگے کیا ہے۔ میری پوری زندگی حسین گزری ہے۔ میرے درباری مجھے خوش و خرم شہزادہ کہتے تھے جو ہمیشہ خوشیاں ہی بکھیرتا تھا۔ مَیں جب زندہ تھا آس پاس خوشیاں تھیں لیکن میرے مرنے کے بعد مجھے شہر کی بلند ترین جگہ پر کھڑا کردیا گیا جہاں سے مجھے میرے شہر کی بدصورتی نظر آتی ہے۔ مجھے غمگین لوگ نظر آتے ہیں۔ میرا دل سیسہ سے بنا ہوا ہے اور میرے پاس رونے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
’’بہت دور،‘‘ مجسمہ نے دھیمی آواز میں پھر کہنا شروع کیا، ’’دور ایک چھوٹی سی گلی میں ایک گھر ہے جس کی کھڑکی کھلی ہے۔ وہاں ایک غریب خاتون میز پر بیٹھی ہے۔ اس کے چہرے پر نقاہت عیاں ہے۔ ہاتھ میں سوئیاں چبھنے کے نشان ہیں کیونکہ وہ ایک درزی ہے۔ وہ محل میں ہونے والی ایک تقریب کیلئے ملکہ کی خادماؤں کا لباس تیار کررہی ہے۔ کمرے کے کونے میں ایک بستر پر اس کا چھوٹا لڑکا بیمار پڑا ہے۔ اسے تیز بخار ہے اور وہ پیٹ بھرنے کیلئے سنترے مانگ رہا ہے۔ اس کی ماں نے اسے دریا کے پانی کے سوا کچھ نہیں دیا، اس لئے وہ رو رہا ہے۔ ابابیل، ابابیل، میرے پیارے ابابیل! کیا تم اسے میری تلوار کے دستے کا سرخ یاقوت دے آؤگے؟ میرے پاؤں جکڑے ہوئے ہیں اس لئے یہ کام مَیں نہیں کرسکتا۔
’’مصر میں میرا انتظار ہو رہا ہے۔‘‘ ابابیل نے کہا۔ ’’میرے دوست دریائے نیل کے اوپر اڑ رہے ہیں اور بڑے بڑے کنول سے باتیں کر رہے ہیں۔ جلد ہی وہ عظیم بادشاہ کی قبر پر جائیں گے۔ بادشاہ خوش رنگ تابوت میں سو رہا ہے۔ اسے مسالہ لگا کر زرد کپڑے میں لپیٹ دیا گیا ہے۔ اس کی گردن میں ہلکے سبز رنگ کی زنجیر ہے، اور اس کے ہاتھ سوکھے پتوں کی طرح ہیں۔‘‘’’ ابابیل، ابابیل، میرے پیارے ابابیل!‘‘ شہزادے نے کہا `’’کیا تم میرے ساتھ ایک رات نہیں رہو گے اور میرے قاصد نہیں بنو گے؟ لڑکا بہت بھوکا ہے اور اس کی ماں بہت اداس ہے۔‘‘ شہزادہ اتنا اداس تھا کہ ننھے ابابیل کا دل پگھل گیا۔ ’’یہاں بہت سردی ہے،‘‘ اس نے کہا، `’’لیکن میں ایک رات تمہارے ساتھ رہوں گا، اور تمہارا قاصد بنوں گا۔‘‘
’’شکریہ، چھوٹے ابابیل!‘‘ شہزادے نے کہا۔
یہ بھی پڑھئے: ماڈل کروڑ پتی (آسکر وائلڈ)
ابابیل نے اپنی چونچ سے یاقوت نکالا اور شہر کی چھتوں پر اڑنے لگا۔ وہ چرچ سے گزرا جہاں سفید سنگ مرمر کے فرشتوں کے مجسمے ایستادہ تھے۔ محل کے پاس سے گزرا تو رقص اور موسیقی کی تیز آواز سنائی دی۔ وہ دریا کے اوپر سے گزرا اور دیکھا کہ بحری جہازوں پر لالٹینیں لٹک رہی ہیں۔ وہ یہودی بستی کے اوپر سے گزرا، اور بوڑھے یہودیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ سودے بازی کرتے اور تانبے کے ترازو میں پیسے تولتے دیکھا۔ آخر کار وہ اس غریب خاتون کے گھر پر پہنچ گیا۔ اندر جھانکا تو بخار میں جل رہے لڑکے کو تڑپتا پایا۔ اس کی ماں تھکن کے سبب سو چکی تھی۔ ابابیل اندر گیا اور یاقوت کو خاتون کے انگوٹھے کے پاس رکھ دیا۔ پھر وہ لڑکے کے اطراف تیزی سے اڑنے لگا تاکہ اس کے پروں سے نکلنے والی ٹھنڈی ہوا سے لڑکے کو کچھ سکون ملے اور پھر لڑکا واقعی سوگیا اور ابابیل شہزادے کے پاس لوٹ آیا۔ اسے بتایا کہ اس نے کیا کیا ہے۔
’’یہ دلچسپ ہے۔‘‘ شہزادے نے خوش ہوکر کہا۔
’’موسم سرد ہے لیکن میں کافی گرم محسوس کررہا ہوں۔
شہزادے نے کہا ’’یہ اسلئے کہ تم نے اچھا کام کیا ہے۔
ابابیل اس بارے میں سوچنے لگا اور پھر سوگیا۔ سورج نکلا تو وہ ندی میں جاکر نہانے لگا۔ لوگوں کو تعجب ہورہا تھا کہ ایک ابابیل اس موسم میں ٹھنڈے پانی سے نہا رہا ہے۔ اس نے شہر کی تمام یادگاروں کا دورہ کیا تھا اور کافی دیر تک چرچ کی چوٹی پر بیٹھا رہا تھا۔ چاند نکلتے ہی وہ مبارک شہزادے کے پاس لوٹ آیا۔ ’’کیا مصر میں تمہیں کوئی اہم کام ہے؟ ابھی تو میں نے اچھے کام کرنے شروع کئے ہیں۔ میرے پیارے ابابیل! کیا تم میرے ساتھ ایک رات اور نہیں ٹھہروگے؟‘‘ شہزادے نے التجا کی۔ ابابیل نے جواب دیا ’’کل میرے دوست دوسرے علاقے کی طرف اڑ جائیں گے جہاں ایک بڑے تخت پر مصریوں کا خدا بیٹھا ہے۔ دوپہر کے وقت وہاں شیر پانی پینے کیلئے آتے ہیں جن کی آنکھیں گہری سبز ہوتی ہیں۔‘‘
’’ابابیل، ابابیل، میرے پیارے ابابیل!‘‘ شہزادے نے کہا، `’’شہر کے اس پار ایک نوجوان ایک بوسیدہ کمرے میں بیٹھا ہوا ہے جس کی میز کاغذوں سے ڈھکی ہوئی ہے۔ اس کے بال بھورے ہیں اور ہونٹ انار کی طرح سرخ ہیں۔اس کی بڑی بڑی خوابیدہ آنکھیں پریشان ہیں۔ وہ تھیٹر کے ایک ڈائریکٹر کیلئے ایک ڈراما لکھ رہا لیکن اس سے لکھا نہیں جارہا ہے کیونکہ سردی سے اس کا ذہن اور ہاتھ شل ہوچکے ہیں۔ اس کے پاس آگ جلانے کے بھی پیسے نہیں ہیں اور وہ بھوک کی وجہ سے بے ہوش ہوگیا ہے۔‘‘ ’’میں تمہارے ساتھ ایک رات اور گزاروں گا۔‘‘ ابابیل نے کہا جس کا دل واقعی بہت اچھا تھا۔ `’’کیا میں اس کے پاس یاقوت لے جاؤں؟‘‘
’’افسوس! میرے پاس اب کوئی یاقوت نہیں،‘‘ شہزادے نے کہا۔ ’’میری آنکھیں نایاب نیلم سے بنی ہیں جو ایک ہزار سال پہلے ہندوستان سے لائے گئے تھے۔ ان میں سے ایک نکال کر اس کے پاس لے جاؤ۔ وہ اسے بیچ کر اپنے لئے کھانا اور لکڑیاں خریدلے گا، اور پھر اپنا ڈراما مکمل کرلے گا۔
’’پیارے شہزادے!‘‘ ابابیل نے کہا، ’’میں ایسا نہیں کر سکتا۔‘‘ اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
’’ابابیل، ابابیل، میرے پیارے ابابیل!‘‘ شہزادے نے کہا، ’’مَیں تمہیں ایسا کرنے کا حکم دیتا ہوں۔‘‘ ابابیل نے روتے ہوئے شہزادے کی ایک آنکھ نکال لی اور اس نوجوان کے مسکن کی طرف اڑ گیا۔ اس کے گھر میں داخل ہونا آسان تھا کیونکہ چھت میں ایک بڑا سوراخ تھا۔ نوجوان بے ہوش تھا اس لئے اسے پرندوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ نہیں سنائی دی۔ ہوش میں آنے پر جب اس نے میز پر نظر دوڑائی تو اسے ایک خوبصورت نیلم نظر آیا۔ اسے پاکر وہ کافی خوش تھا۔
اگلے دن ابابیل بندرگاہ کی طرف اڑ گیا۔ وہ لکڑی کے پل پر بیٹھ کر ملاحوں کو لنگر اٹھاتے ہوئے دیکھنے لگا جو زور زور سے چیخ رہے تھے کہ ’’ہم مصر جارہے ہیں!‘‘’’میں بھی مصر جا رہا ہوں!‘‘ ابابیل نے کہا اور چاند طلوع ہوتے ہی شہزادے کے پاس پہنچ گیا۔ میں تمہیں الوداع کہنے آیا ہوں۔‘‘ ابابیل نے کہا۔
’’ابابیل، ابابیل، میرے پیارے ابابیل!‘‘ شہزادے نے کہا، ’’کیا تم میرے ساتھ ایک رات مزید نہیں ٹھہرو گے؟
’’یہ موسم سرما ہے،‘‘ ابابیل نے جواب دیا، ’’اور یہاں جلد ہی برف باری شروع ہوجائے گی مصر میں کھجور کے سبز درختوں پر سورج چمک رہا ہے جہاں مگرمچھ کیچڑ میں لیٹے دھوپ سینک رہے ہیں۔ میرے ساتھی بعلبک کے مندر میں گھونسلا بنا رہے ہیں۔ پیارے شہزادے، مجھے اب چلنا چاہئے لیکن میں تمہیں کبھی نہیں بھولوں گا اور اگلے موسم بہار میں میں تمہارے لئے دو خوبصورت پتھر لاؤں گا۔ یاقوت جو گلاب سے زیادہ سرخ اور نیلم عظیم سمندر سے زیادہ نیلا ہو گا۔‘‘
’’نیچے چوک پر!‘‘ شہزادے نے کہا، ’’ماچس بیچنے والی ایک ننھی لڑکی کھڑی رورہی ہے جس کے تمام ڈبے گٹر میں گرگئے ہیں۔ وہ گھر جائے گی تو باپ کے ہاتھوں مار کھائے گی۔ اس کے پاؤں میں جوتے ہیں نہ جرابیں اور سر ننگا ہے۔ میری دوسری آنکھ نکال کر اسے دے دو۔‘‘
’’میں تمہارے ساتھ مزید رہوں گا،‘‘ ابابیل نے کہا، ’’لیکن تمہاری آنکھ نہیں نکال سکتا۔ تم اندھے ہو جاؤ گے۔‘‘ ’’ابابیل، ابابیل، میرے پیارے ابابیل!‘‘ شہزادے نے کہا، `’’میں تمہیں حکم دیتا ہوں۔‘‘ ابابیل نے بھاری دل کے ساتھ شہزادے کی دوسری آنکھ نکالی اور اسے ننھی لڑکی کے جھولے میں ڈال دیا۔ لڑکی نے جب جھولے میں ہاتھ ڈالا تو شیشے جیسا شفاف پتھر پاکر خوش ہوگئی اور کھلکھلاتی ہوئی گھر کی طرف دوڑی۔
یہ بھی پڑھئے: خود غرض دیو نما (آسکر وائلڈ)
’’اب تم اندھے ہوگئے ہو اس لئے میں تمہارے ساتھ ہمیشہ رہوں گا۔‘‘ابابیل نے کہا۔ ’’نہیں، میرے پیارے ابابیل،‘‘ شہزادے نے کہا، ’’تمہیں مصر جانا چاہئے۔‘‘ ’’میں تمہارے ساتھ ہمیشہ رہوں گا۔‘‘ ابابیل نے کہا اور شہزادے کے قدموں میں سو گیا۔
اگلے دن وہ شہزادے کے کندھے پر بیٹھ گیا اور اپنی سفر کی عجیب و غریب کہانیاں سنانے لگا۔ اُس نے سرخ پہاڑوں کے بارے میں بتایا، نیل کے کنارے آباد شہروں کی تعریف کی، دریا میں سونے جیسی نظر آنے والی مچھلیوں کی کہانیاں سنائیں، عظیم صحرا کی تپتی ریت کی بات کرتا رہا، ان تاجروں کے بارے میں بتایا جو اونٹوں کے ساتھ آہستہ آہستہ چلتے ہیں۔ اس بادشاہ کے بارے میں بتایا جو چاند جیسے سفید محل میں رہتا ہے۔ اس سبز سانپ کے بارے میں بتایا جو کھجور کے درخت سے لپٹا رہتا ہے۔ شہد کی مکھیوں کے بارے میں بتایا جو میلوں دور کا سفر طے کرکے شہد جمع کرتی ہیں۔ ان پھولوں کے بارے میں بتایا جو جھیلوں پر تیرتے رہتے ہیں۔
شہزادے نے کہا `’’پیارے ابابیل!تم مجھے حیرت انگیز کہانیاں سناتے ہو۔ لیکن انسانوں کی تکلیف سے زیادہ حیرت انگیز چیز کوئی نہیں ہے۔ مصائب سے بڑھ کر کوئی راز نہیں۔ میرے شہر پر پرواز کرو اور بتاؤ کہ تمہیں کیا نظر آتا ہے؟‘‘
ابابیل شہر پر اڑنے لگا۔ اس نے دیکھا کہ امیر اپنے عالیشان گھروں میں خوشیاں منا رہے ہیں جبکہ بھکاری ان کے دروازوں پر بیٹھے ہیں۔ وہ تاریک گلیوں میں اڑا اور بھوک سے مرتے بچوں کے سفید چہرے دیکھے جو سیاہ گلیوں میں بے بسی کی مورت بنے ہوئے تھے۔ ایک پل کے نیچے دو چھوٹے لڑکے ایک دوسرے کو گرم رکھنے کیلئے ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے تھے۔ وہ بھوک سے بیتاب تھے۔ایک چوکیدار نے انہیں وہاں سے بھگا دیا اور وہ بارش میںبھیگنے لگے۔
ابابیل شہزادے کے پاس آیا اور اسے وہ سب کچھ بتایا جو اس نے دیکھا تھا۔ خوش وخرم شہزادے نے کہا ’’سونا انسانوں کو خوش کرتا ہے۔ مجھے پر چڑھے سونے کی ایک ایک پرت شہر کے غربا اور مجبوروں میں بانٹ دو۔‘‘
غریبوں اور مجبوروں کی مدد کیلئے آہستہ آہستہ مجسمہ سے سونے کی پرتیں نکلنے لگیں یہاں تک کہ شہزادے کی خوبصورتی بالکل ختم ہوگئی۔ لیکن سونے کی پرتوں نے غریبوں اور بھوکے بچوں کے چہرے کی رونق لوٹا دی تھی۔ وہ گلیوں میں ہنسنے کھیلنے لگے تھے۔
پھر موسم سرما کی برفباری شروع ہوگئی۔ ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے شہر کی گلیاں چاندی سے ڈھک گئی ہوں۔ برف کی چادر نے انہیں روشن اور چمکدار بنادیا تھا۔ ہر کوئی کوٹ پہن کر گھومتا تھا۔ چھوٹے لڑکے سرخ رنگ کی ٹوپیاں پہن کر برف پر اسکیٹنگ کرتے تھے۔ بیچارہ ابابیل موسم کے ساتھ ٹھنڈا، اور مزید ٹھنڈا ہوتا چلا گیا لیکن شہزادے کو نہ چھوڑنے کے اپنے عزم پر قائم رہا۔ اسے شہزادے سے محبت ہوگئی تھی۔ وہ نانبائی کے دروازے کے باہر ٹکڑوں کو کھاتا اور پر پھڑپھڑا کر خود کو گرم رکھنے کی کوشش کرتا لیکن وہ جانتا تھا کہ اب اس کی زندگی ختم ہونے والی ہے۔ اس میں اتنی ہی طاقت باقی تھی کہ اڑ کر شہزادے کے کندھے پر بیٹھ سکتا۔ وہ بڑبڑایا ’’کیا تم مجھے اپنا ہاتھ چومنے دو گے؟‘‘
شہزادے نے کہا، ’’مجھے خوشی ہے کہ تم مصر جا رہے ہو، پیارے ابابیل! تم یہاں کافی دن تک ٹھہرگئے۔ تمہیں میرے گالوں پر بوسہ دینا چاہئے کیونکہ میں نے تمہارے جیسا دوست کبھی نہیں پایا۔ مجھے تم سے محبت ہے۔‘‘ ’’میں مصر نہیں، موت کے منہ میں جارہا ہوں۔‘‘ ابابیل نے کمزور آواز میں کہا۔ ’’موت، نیند کی بہن ہے، ہے نا؟‘‘ وہ شاید شہزادہ کی تائید چاہ رہا تھا۔
پھر اس نے شہزادے کے گال چومے اور اس کے قدموں میں گر گیا۔اسی لمحے مجسمے کے اندر سے ایک عجیب سے آواز آئی۔ جیسے کچھ ٹوٹ گیا ہو۔ در حقیقت سیسہ پلایا ہوا دل دو حصوں میں ٹوٹ گیا تھا۔
اگلی صبح میئر، شہر کے کاؤنسلرز کے ساتھ چوک پر چہل قدمی کر رہا تھا۔ جب وہ ستون کے پاس سے گزرا تو مجسمہ کی طرف دیکھ کر کہنے لگا ’’میرا خوش و خرم شہزادہ! کتنا بدصورت لگ رہا ہے۔ اس کی تلوار سے یاقوت گر گیا ہے، اس کی آنکھیں ختم ہو گئی ہیں، اور اب اس پر سونے کی پرت بھی نہیں رہی۔ یہ ایک بھکاری لگ رہا ہے۔‘‘ تمام کاؤنسلروں نے میئر کی ہاں میں ہاں ملائی۔
یہ تمام لوگ ستون پر پہنچے تو میئر نے کہا’’اس کے قدموں میں ایک مردہ پرندہ بھی ہے۔ ہمیں اعلان کرنا چاہئے کہ یہاں پرندوں کو مرنے کی اجازت نہیں ہے۔‘‘ اور کاؤنسلروں نے اس تجویز کو نوٹ کرلیا۔
چنانچہ انہوں نے خوش و خرمشہزادے کے مجسمہ کو نیچے اتروا دیا۔ چونکہ وہ اب خوبصورت نہیں تھا اس لئے کارآمد نہیں تھا۔ پھر انہوں نے ایک بھٹی میں مورتی کو پگھلا دیا اور میئر نے کارپوریشن کی میٹنگ کی تاکہ یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ اس ستون پر کیا ہونا چاہئے۔
ہمارے پاس ایک اور مجسمہ ہونا چاہئے اور وہ مجسمہ میرا ہوگا۔‘‘ میئر نے کہا۔ ’’میرا مجسمہ ہونا چاہئے!‘‘ اور پھر سبھی ممبر ایک دوسرے سے لڑ پڑے۔
’’کیسی عجیب بات ہے!‘‘ بھٹی میں کام کرنے والوں نے کہا۔ ’’سیسے کا یہ ٹوٹا ہوا دل نہیں پگھل رہا ہے۔ ہمیں اسے پھینک دینا چاہئے۔‘‘ چنانچہ انہوں نے اسے مٹی کے ڈھیر پر پھینک دیا جہاں مردہ ابابیل بھی پڑا تھا۔
’’شہر کی دو سب سے قیمتی چیزیں میرے پاس لے آؤ۔‘‘ خدا نے اپنے فرشتوں میں سے ایک کو حکم دیا۔ اور فرشتہ خدا کے حضور ایک سیسہ پلایا ہوا دل اور مردہ پرندہ لے آیا۔’’تمہارا انتخاب بالکل درست ہے۔ جنت کے سب سے شاندار باغ میں یہ چھوٹا ابابیل ہمیشہ میری حمد و ثناء کرے گا اور میرے سونے کے شہر میں خوش و خرم شہزادہ میری عبادت کرے گا۔ ‘‘خدا نے کہا۔