• Wed, 16 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اوزون کی تہہ ؛ جانداروں کی صحت کیلئے اس کی صحت بھی اہم ہے

Updated: September 22, 2023, 2:32 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

گزشتہ ہفتے کے دوران اوزون کے تحفظ کا عالمی دن منایا گیا، متعدد انسانی سرگرمیاں فضا میں قائم اس تہہ کو زبردست نقصان پہنچا رہی ہیں، اب اس پر توجہ بہت ضروری ہے کیونکہ یہ شگاف بڑھتا جارہا ہے۔

Photo. INN
تصویر:آئی این این

برسوں سے جاری متعدد سائنسی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ گزشتہ ۲؍ عشروں میں انسانوں میں آنکھوں کے انفیکشن اور جلدی امراض میں اضافہ ہورہا ہے ۔ یہی نہیں نباتات بھی متاثر ہورہے ہیں اور انکی بعض اقسام معدوم ہوگئی ہیں ۔ زمین پر بسنے والے جاندار بھی انوکھی بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں اور ان کی نسلیں بھی ختم ہوتی جارہی ہیں ۔ایسا ان خطوں میں زیادہ ہورہا ہے جو انٹارکٹکا سے قریب ہیں ۔ اس خطے کو دائرہ قطب جنوبی بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں واقع اوزون کی تہہ میں جو سوراخ ۱۹۸۵ء میں دریافت کیا گیا تھا، وہ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ کچھ برس ایسے آتے ہیں جب رپورٹیں آتی ہیں کہ یہ سوراخ سکڑ رہا ہے لیکن اس کے اگلے سال یہ خبریں آنے لگتی ہیں کہ یہ وسیع ہوتا جارہا ہے۔ 
زمین کی فضا میں ۱۵؍ سے ۳۵؍ کلومیٹر دور گیس کی ایک تہہ ہے جسے اوزون یا ’’او تھری‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ زیادہ دبیز نہیں ہے۔ دنیا کے بعض حصوں میں یہ زمین سے قریب ہے جبکہ کہیں دور لیکن فاصلہ ۱۵؍ سے ۳۵؍ کلومیٹر کے درمیان ہی ہے۔ یہ قدرتی تہہ ہے جو سورج کی مضر شعاعوں یعنی بالائے بنفشی سے زمین اور اس پر بسنے والے جانداروں اور نباتات وغیرہ کی حفاظت کرتی ہے۔ اگر یہ تہہ نہ ہو تو کرۂ ارض کو مکمل طور پر ختم ہونے میں محض چند برس لگیں گے۔ یہ تہہ ہماری حفاظت کرتی ہے مگر اس میں سوراخ کرنے کا موجب بھی ہم ہی ہیں ۔متعدد انسانی سرگرمیاں اور آلودگی اوزون کی تہہ میں سوراخ کررہی ہیں ۔ اس سوراخ سے بالائے بنفشی زمین تک بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچ رہی ہے۔کلورو فلورو کاربن اور دیگر مضر گیسوں کے اخراج پر قابو پاکر اس سوراخ کو بند کیا جاسکتا ہے۔ اس ضمن میں عالمی سطح پر بھی کوششیں جاری ہیں لیکن اس کا خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہورہا ہے۔ اوزون کے متعلق آپ جانتے ہیں ۔ ان کالموں میں آپ کو اوزون کے بارے میں اہم معلومات دی جارہی ہیں ۔
اوزون کیا ہے؟
 اوزون ایک سالمہ ہے جو آکسیجن کے تین جوہروں (او تھری) سے بنا ہے۔ اسے آکسیجن کا ایک بہروپ بھی کہا جاسکتا ہے۔ زمین کی بالائی فضا میں اوزون ایک چھلنی کے طور پر کام کرتی ہے جو نقصاندہ بالائے بنفشی شعاعوں کو زمین کی سطح تک پہنچنے سے روکتی ہے۔
اوزون کی تہہ کیا ہے؟
 او تھری کی تہہ ہی کو اوزون کی تہ کہا جاتا ہے۔ بڑھتی آبادی اور ماحولیاتی آلودگی کے باعث اوزون کی تہہ متاثر ہورہی ہے۔ نیشنل جیوگرافک کی ایک رپورٹ کے مطابق کچھ ممالک جن میں انٹارکٹکا کے جنوبی اوزون خطے میں ارجنٹائنا، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ شامل ہیں ۔ ان تمام علاقوں میں موسم سرما میں اوزون کی تہہ میں سوراخ کا مسئلہ شدت اختیار کر جاتا ہے کیونکہ کم درجہ حرارت پر کلوروفلورو کاربن (کلورین فلورین اور کاربن پر مشتمل کمپاؤنڈر جو ریفریجریٹرز اور مختلف اشیاء کی پیکنگ میں استعمال ہوتے ہیں ) تیزی سے کلورین گیس میں تبدیل ہوتے ہیں ۔ الٹراوائلٹ شعاعوں اور کلورین کا تعامل، وسیع پیمانے پر اوزون کی تباہی کا باعث بنتا ہے۔
حیرت انگیز انکشاف
 اوزون کی تہہ بننے کا عمل کروڑوں سال سے جاری ہے مگر ہوا میں موجود نائٹروجن کے کچھ مرکبات اوزون کی مقدار ایک خاص حد سے زیادہ بڑھنے نہیں دیتے۔ ۱۹۸۰ء کی دہائی میں انکشاف ہوا کہ انسانوں کے بنائے ہوئے کچھ مرکبات اوزون کی تہہ کو تباہ کر رہے ہیں ۔ یہ کیمیائیات کلوروفلوروکاربن کہلاتے ہیں جو ریفریجریٹر اور ایروسول اسپرے میں استعمال ہوتے ہیں ۔ یہ فضا میں جا کر سورج کی بالائے بنفشی شعاعوں کی وجہ سے اپنے اجزاء میں تحلیل ہو کر کلورین بناتے ہیں جو اوزون کی تہہ کو تباہ کر دیتی ہے۔ اسی طرح بعض مصنوعی کھاد میں استعمال ہونے والے مرکبات مثلاً نائٹرس آکسائیڈ بھی اوزون کیلئے تباہ کن ہیں ۔
اوزون کے تحفظ کا عالمی دن
 اوزون کے تحفظ کا عالمی دن ہر سال۱۶؍ ستمبر کو منایا جاتا ہے جس کا مقصد عوام میں اوزون کی تہہ کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔انسانی سرگرمیوں سے اوزون کی تہہ کو ہونے والے نقصانات کے متعلق شعور پیدا کرنے کیلئے یہ دن منایا جاتا ہے۔ انسان کے غیر ذمہ دارانہ رویہ کی وجہ سے زمین کے قدرتی وسائل کم ہو رہے ہیں ۔ اوزون کی تہہ میں شگاف کے باعث بالائے بنفشی براہ راست کرہ ارض پر پہنچ رہی ہیں جن سے یہاں زندگی متاثرہو رہی ہے۔ درجہ حرارت میں اضافہ کی یہ ایک اہم وجہ ہے۔گزشتہ چند برسوں سے خوش آئند رپورٹیں آرہی ہیں اوزون کا سوراخ سکڑ رہا ہے۔
بحالی کے آثار
 اوزون کی تہہ کو نقصان کا تخمینہ لگانے کا کام ۲۰۱۸ء میں مکمل ہوا تھا جس میں معلوم ہوا کہ ۲۰۰۰ء کے بعد سے یہ پرت ۱ء۳؍ فیصد فی دہائی کے حساب سے اپنی اصلی حالت پر واپس آرہی ہے، یعنی ہم نے اسے مزید برباد ہونے سے روک لیا ہے۔ زیادہ بہترہو گا کہ ہم اس کامیابی پر خوش ہونے کے بجائے وہ طریقے اپنائیں جن کی بدولت ہم اوزون کی تہہ کو مزید خراب ہونے سے بچا سکیں ۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو غطریس کا کہنا ہے کہ ہمیں ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نبرد آزما ہوتے ہوئے اوزون کی تہہ کی تباہی کے حامل عوامل کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ اس ضمن میں ۱۹۸۷ء میں مونٹریال پروٹوکول ایک تنظیم بھی بنائی گئی تھی۔
مونٹریال پروٹوکول
 مونٹریال پروٹوکول میں ایسی گیسوں کے استعمال پر پابندی لگائی گئی ہے جو اس پرت کیلئے نقصان کا سبب بنتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مونٹریال پروٹوکول کو ایک بڑی کامیابی تصور کیا جاتا ہے۔ مونٹریال پروٹوکول، ویانا کنونشن کا بین الاقوامی پروٹوکول ہے جس کا پہلا مسودہ ۱۹۸۷ء میں ترتیب دیا گیا تھا۔ اوزون کی تہہ میں سوراخ کے انکشاف کے بعد دنیا کے اہم سائنسداں سرجوڑ کر بیٹھ گئے اور انہوں نے اوزن لیئر کی حفاظت کی تدابیر سوچیں ۔ ناسا کے اعداد وشمارکے مطابق اگر ہم نے اس کی بحالی کو جاری نہ رکھا تو اوزون کی تہہ ۲۰۷۵ء تک اپنے خاتمے کے قریب پہنچ جائیگی۔ مونٹریال پروٹوکول میں کچھ صنعتی مرکبات پر پابندی لگائی گئی۔کیونکہ اول الذکر کیمیکلز اتنی دیر تک فضا میں موجود رہتے ہیں کہ اوزون کی تہہ متاثر ہوتی ہے مگر مختصر عرصے کیلئے فضا میں رہنے والے کیمیکلز اورمرکبات پر پابندی نہیں لگائی گئی۔
قدرتی طور پر تیار ہونے والے کئی مادے جو سمندروں سے خارج ہوتے ہیں اور موسمیاتی تبدیلیاں سمندروں میں گرمی اور حرارت کا سبب بنتے ہیں ان کے اخراج میں اضافے کی صورت میں اوزون تہہ کی بحالی میں مزید تاخیر ہو گی۔واضح رہے کہ اوزون ماحول سے آلودگی ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کی کمی یا اس میں سوراخ ہونے کی بڑی وجہ کیمیکلز ہیں ۔ کاروں ، بجلی گھروں ، صنعتی بوائیلرز، ریفائینریز اور کیمیکل پلانٹس سے بھی گیسیں خارج ہوتی ہیں ۔ اوزون تہہ الٹرا وائلٹ لائٹ کو زمین کے ماحول سے گزرنے سے روکتی ہے۔
اوزون کی تہہ میں سوراخ انٹارکٹکا میں کیوں دیکھا گیا؟
 اوزون میں ۷۰؍ فیصد تک کمی انٹارکٹکا کے جنوب میں دیکھی گئی جس کی پہلی مرتبہ رپورٹنگ ۱۹۸۵ء میں کی گئی جبکہ ۲۰۱۶ء میں اطلاع ملی کہ یہ سوراخ بھررہا ہے۔ قطبی طوفان اور بادلوں پر ہونے والے اثرات اوزون کی کمی کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ یہ انٹارکٹکا کی شدید سرد سطح میں آسانی سے تشکیل پاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انٹارکٹکا میں اوزون کی تہہ میں سوراخ سب سے پہلے بنے اور واضح ہوئے۔ اوزون کی تہہ میں سوراخ ایک پیچیدہ موضوع ہے یہی وجہ ہے کہ اس کے حوالے سے عوام الناس میں کافی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں ۔ عوام کی سائنس کے حوالے سے محدود معلومات اس موضوع کی سمجھ بوجھ میں الجھنیں اور عدم دلچسپی بھی عالمی درجہ حرارت میں زیادتی کی وجہ بنی کیونکہ عام لوگ اس کو نہ سمجھ پانے کی وجہ سے اس کی طرف توجہ ہی نہیں دے پائے۔ اہم سوال یہ ہے کہ اوزون کی تہہ اپنی اصل حالت میں کب تک آئے گی؟ سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ موجودہ حالات سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وسط صدی کے آس پاس ایسا ممکن ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK