Inquilab Logo

بلو سی رانی کا گیت ’ہمیں تو لوٹ لیا مل کے حسن والوں نے‘ آج بھی مقبول ہے

Updated: May 05, 2024, 10:44 AM IST | Agency | Mumbai

ہندی فلموں میں ۱۹۶۰ء کی دہائی تک کام کرنے والے اکثر فنکاروں کو تو ہم جانتے ہیں لیکن کچھ ایسے فنکار بھی ہیں جو اس سے بھی قبل فلموں کیلئےکام کیا کرتے تھے اور ان میں سے اکثر کو آج کے دور کےبہت سے لوگ جانتے بھی نہیں ہونگے۔

Relatively unknown musician Bulo C Rani. Photo: INN
نسبتاً غیرمعروف موسیقار بلو سی رانی۔ تصویر : آئی این این

ہندی فلموں میں ۱۹۶۰ء کی دہائی تک کام کرنے والے اکثر فنکاروں کو تو ہم جانتے ہیں لیکن کچھ ایسے فنکار بھی ہیں جو اس سے بھی قبل فلموں کیلئےکام کیا کرتے تھے اور ان میں سے اکثر کو آج کے دور کےبہت سے لوگ جانتے بھی نہیں ہونگے۔ ایسے ہی فنکاروں میں ایک میوزک ڈائریکٹر تھے بُلو سی رانی۔ وہ ۱۹۴۰ء کی دہائی سے ۱۹۶۰ء کی دہائی تک بطور موسیقار فعال رہے۔ انہوں نے ۱۹۴۳ء تا ۷۲ء تقریباً ۷۱؍فلموں کیلئے موسیقی ترتیب دی، جن میں چند ایسے بھی گیت شامل ہیں جنہیں آج تک فراموش نہیں کیا جاسکا، مثال کے طور پر ’ہمیں تو لوٹ لیا مل کے حسن والوں نے‘ اور ایسے ہی دیگر چند گیت ان ہی کی موسیقی میں ترتیب پائےتھے۔ 
 بلو سی رانی انگریزوں کے دورحکومت میں بامبے پروونس کے علاقے حیدرآباد میں ۶؍مئی۱۹۲۰ءکو پیدا ہوئے تھے واضح رہے کہ یہ علاقہ اب پاکستان میں سندھ کا حصہ بن چکا ہے۔ ان کے والدین نے ان کا نام بلو چاندی رام رام چندانی رکھا تھا۔ ان کے والد بھی ایک میوزک ڈائریکٹر تھے۔ بی اے کی ڈگری مکمل کرنے کے بعد وہ ۱۹۳۹ء میں رنجیت مووی ٹون میں شامل ہوگئے تھے۔ یہیں ان کے کریئر کا آغاز ہوا۔ بالی ووڈ میں ان کے ابتدائی دن بہت ہی مشقت بھرے تھےکیوں کہ جب انہوں نے کام شروع کیا تو ان کی ملاقات چند بہت ہی بڑی ہستیوں سے ہوئی جو فلمی موسیقی میں بہت اہمیت رکھتے تھے جیسے کہ غلام حیدر، ڈی این مدھوک وغیرہ وغیرہ۔ ۱۹۴۰ء کے ابتداء میں انہوں نے کھیم چند پرکاش کے اسسٹنٹ کے طور پر کام کیاجس میں تان سین، چاندنی، سکھ دکھ(۱۹۴۲ء) اور شہنشاہ بابر (۱۹۴۴ء) جیسی فلمیں شامل ہیں۔ انہوں نے کھیم چند پرکاش کے زیر نگرانی ہی اپنا پہلا گیت’روٹھ نہ پیار میں ‘فلم مہمان(۱۹۴۲ء) کیلئے گایا۔ کھیم چند پرکاش کے تحت ہی ان کے ذریعہ کمپوز کیا گیا پہلا گانا’دکھیا جیارا‘ فلم تان سین کیلئے تھا جسے خورشید نے گایا تھا۔ 
 خود اپنے نام سے انہوں نے جس فلم کیلئے موسیقی ترتیب دی وہ کارواں (۱۹۴۴ء) تھی۔ اسی سال انہوں نے فلم پگلی دنیا کے لئے گیت گایا۔ اس فلم کیلئے انہوں نے اپنا نام’بھولا‘ رکھ لیا تھا۔ اس کے بعد کئی سال تک وہ اسی نام سے گاتے رہے لیکن میوزک ڈائریکٹر کیلئے انہوں نے اپنا نام بولو سی رانی ہی استعمال کیا۔ 
 ۱۹۴۵ء میں انہوں نےمورتی اور پہلی نظر جیسی فلموں کیلئے موسیقی ترتیب دی۔ مورتی ایک موسیقی ریز فلم تھی اور یہی وہ فلم تھی جس کیلئے مکیش نے پہلی مرتبہ ایک گیت’بدریا برس گئی اس پار‘ گایا تھا۔ ۱۹۴۰ء کی دہائی میں ان کی دیگر چند مشہور فلموں میں راجپوتانی (۱۹۴۶ء) اور انجمن(۱۹۴۸ء) تھیں۔ ان کی موسیقی سے سجی بہترین فلموں میں جوگن(۱۹۵۰ء)، وفا (۱۹۵۱ء) اوربلوا منگل (۱۹۵۴ء) ہیں۔ نئی نسل کے موسیقار جیسے کہ شنکر جے کشن، سلیل چودھری، او پی نیئر آنا شروع ہوگئے تو۱۹۵۰ء کی دہائی میں بلوسی رانی زیادہ فعال نہیں رہے، لیکن ۱۹۶۰ء کی دہائی کے وسط تک موسیقی ترتیب دیتے رہے۔ اس دور کے ان کے چند گیت بہت ہی زیادہ مشہور رہے جیسے کہ ’ہمیں تو لوٹ لیامل کے حسن والوں نے ‘(الہلال، ۱۹۵۸ء)، مانگنے سے جو موت مل جاتی(سنہرے قدم، ۱۹۶۶ء) آج بھی مشہور ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK