Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’چھوٹی چھوٹی باتیں بھی دلیپ صاحب کے مشاہدے سے بچتی نہیں تھیں‘‘

Updated: July 07, 2025, 2:07 PM IST | Javed Siddiqui | Mumbai

معروف اسکرپٹ رائٹر اور ادیب جاوید صدیقی کو دلیپ صاحب کے قریب رہنے کا موقع ملا، شہنشاہ جذبات پر اُن کے خاکے کا ایک اقتباس۔

Dilip Kumar. Photo: INN
دلیپ کمار۔ تصویر: آئی این این

اکثر ایسا ہوتا تھا کہ ہم لوگ سائرہ بی کے سیریل کا کوئی ایپی سوڈ لے کر بیٹھتے تو کا م کم ہوتا، باتیں زیادہ ہوتی تھیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ وہ باتیں کرتے تھے اور میں اس طرح سنا کرتا تھا جیسے بچے پریوں کی کہانیاں سنتے ہیں، ڈرلگتا تھا کہ اگر ایک لفظ بھی چھوٹ گیا تو بڑا نقصان ہوجائے گا۔ دلیپ صاحب کا حافظہ تو اچھا تھا ہی، ایک اور خوبی یہ بھی تھی کہ الفاظ سے تصویر بنا دیا کرتے تھے۔ جب وہ کوئی قصہ سناتے تو میرے ذہن میں منظر زندہ ہوجاتے۔ ان کا مشاہدہ غضب کا تھا۔ چھوٹی چھوٹی باتیں بھی ان کے مشاہدے سے بچتی نہیں تھیں ۔ انہوں نے زندگی کو جتنے قریب سے دیکھا تھا، اتنے ہی غور سے ان لوگوں کو بھی دیکھا تھا جو ان کی زندگی میں آئے۔ پشاور کے قصے، بمبئی کی کہانیاں، مدراس کی باتیں اور پرانے لوگوں کی یادیں ، دیویکارانی سے جدّن بائی تک اور ایس ایس واسن سے کے آصف تک … سب کو اس طرح یاد کرتے جیسے کل ہی کی بات ہو۔ کے آصف، راج کپور اور وجاہت مرزا ان کے عزیز دوست تھے۔ جب ان لوگوں کا ذکر کرتے تو کبھی کبھی آواز میں ہلکی سی لرزش آجاتی اور بولتے بولتے چپ ہو جاتے جیسے ذہن میں کوئی لمحہ Freeze ہو گیا ہو۔ وجاہت مرزا کی لکھنویت، حاضر جوابی اور عاشق مزاجی کے واقعات ایسے مزے لے لے کر سناتے کہ میں ہنستے ہنستے دُہرا ہوجاتا مگر وہ خود کتنا مزہ لے رہے ہیں اس کا اندازہ آنکھوں کی چمک اور ہلکی سی مسکراہٹ سے ہوتا تھا۔ وہ زور سے قہقہہ لگا کر کبھی نہیں ہنستے تھے۔ ایک دن میں نے کہا:
 ’’یوسف بھائی ! آپ کی پوری زندگی ایک تاریخ ہے۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اس تاریخ کو محفوظ کیاجانا چاہئے؟‘‘
  فرمایا: ’’ ہاں … کیا تو جانا چاہئے مگر لکھنا اور وہ بھی اپنے بارے میں لکھنا میرے بس کا کام نہیں ہے۔ ‘‘
  ’’ آپ کو لکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ ‘‘ میں نے کہا، ’’ اس خدمت کیلئے میں جو ہوں۔ آپ جس طرح بولتے ہیں ، اسی طرح بولتے جایئے، میں ریکارڈ کرلوں گا اور بعد میں لکھ کر آپ کو دے دوں گا۔ آپ Correction کر دیں گے اورآپ کی بایو گرافی تیار ہوجائے گی۔ ‘‘ 
  کچھ سوچا پھر کہنے لگے: ’’بھائی خیال تو بہت مناسب ہے مگر آپ کو زحمت بہت زیاد ہ ہوگی۔ ‘‘
 ’’ زحمت نہیں ہوگی یوسف بھائی ! میرے لئے اس سے بڑی راحت اورکیا ہوگی کہ آپ کے کام آسکوں۔ ‘‘
  کچھ دیر بے چینی سے پہلو بدلتے رہے پھر بولے:’’ٹھیک ہے پرسوں سے بسم اللہ کریں گے۔ ‘‘ 

بسم اللہ ہوئی اور یوسف بھائی کسی سعادت مند طالب علم کی طرح اپنے ماضی کی کتاب کے ورق پلٹنے لگے۔ پشاور کی کہر میں ڈوبی ہوئی خوبصورت صبحیں، جب وہ اپنے دادا کے ساتھ گھوڑے پر سوار ہوکر باغوں میں گھومنے کیلئے جاتے تھے۔ ماں اور دادی کی محبتیں ، کھیل کود، شرارتیں، چوٹیں اور میوؤں سے بھری ہوئی جیبیں ، مکتب اور ملاّ، فکروں اور پریشانیوں سے آزاد دن اور خوابوں سے سجی راتیں ، زندگی کا ایک ایسا دور تھا جس میں رنگ ہی رنگ اور خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔ وہ بولتے رہتے اور میں ریکارڈ کرتا رہتا۔ ان کے چہرے کے اُتارچڑھاؤ، ٹھہراتھمالہجہ، دل میں اتر جانے والی آواز، کبھی کبھی تو مجھے ایسا لگتا جیسے کوئی مقدس کتاب ہے جو مجھ پر نازل ہورہی ہے اور میں ادب سے آنکھیں بند کرلیتا۔ تین چار دن تک یوسف خاں کے دلیپ کمار بننے کی داستان ٹھیک چلتی رہی۔ کس طرح وہ بمبئی آئے، کیسے دیویکارانی سے ملاقات ہوئی، کس طرح وہ اپنے صوم وصلوٰۃ کے پابند والد سے ایکٹنگ کرنے کی بات چھپاتے رہے اورکس طرح راج کپور کے دادا نے بھانڈا پھوڑا، وغیرہ وغیرہ۔ مگر ایک دن جب میں نے ریکارڈ آن کیا تو وہ موضوع سے ہٹ کر کچھ اور ہی باتیں کرنے لگے۔ مدراس کی فلموں کے قصے، مولانا آزاد سے ملاقات کی کہانی، سنجے دت کو جھوٹے مقدمے میں پھنسائے جانے پر افسوس، میں دیر تک انتظار کرتا رہا کہ شاید اصل موضوع پر آجائیں یعنی اپنی سوانح لکھوانے لگیں مگر وہ تو کسی اور ہی موڈ میں تھے۔ تنگ آکر میں نے کہا : ’’یوسف بھائی ! یہ باتیں تو ہم بعد میں بھی کرسکتے ہیں۔ آپ اپنی کہانی کا سلسلہ مت توڑیے۔ یہ بتایئے آگے کیا ہوا؟‘‘ وہ کچھ دیر خاموشی سے میری آنکھوں میں دیکھتے رہے پھر سرہلاکر بولے ’’ آگے نہیں بتاسکتا بھائی !‘‘ میں حیران ہوگیا’’کیوں نہیں بتا سکتے ؟‘‘ میں نے پوچھا۔  ایک شرمیلی سی مسکراہٹ ان کے ہونٹوں پر آگئی۔ ’’جانے دیجئے۔ ‘‘ انہوں نے کہا اور ایک مصرع پڑھا:’’اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں ‘‘،ان کی بایوگرافی لکھنے کا میرا خوب ادھورا ہی رہ گیا۔ مگر میں اب بھی ان پرانےٹیپس کو دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں ، پتا نہیں وہ کون لوگ تھے جن کے چہرے نقابوں کے پیچھے ہی رہ گئے، جن کے نام چھپانے کے لئے انہوں نے اپنی زندگی کی کتاب ادھوری ہی چھوڑدی۔ 
 کچھ لوگوں میں یہ قدرت ہوتی ہے کہ وہ معمولی باتوں کو بھی غیر معمولی بنادیتے ہیں۔ دلیپ صاحب اس فن کو بہت اچھی طرح جانتے تھے۔ میں نے کئی بار دیکھا کہ وہ جس سے بھی ملتے اور بات کرتے اسے احساس دلادیتے تھے کہ وہ ان کیلئے ایک اہم ہستی ہے اور ان کی یہ ادا دکھاوا یا اداکاری نہیں ہوتی تھی بلکہ وہ خاکساری اور Humility تھی جو ان کے کردار کا ایک حصہ تھی۔ 
 یہاں ایک واقعے کا ذکر کرنا چاہتا ہوں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے تعلقات کے پاس داری کس طرح کرتے تھے۔ باندرہ میں ایک بہت بڑے ریستوراں کا افتتاح دلیپ صاحب کے ہاتھ سے ہونا تھا۔ ریستوراں کے مالک کا حلقہ بہت وسیع تھا اس لئے ریستوراں میں قدم رکھنے کی گنجائش بھی نہ تھی۔ لوگ سچ مچ ایک دوسرے کے پیروں کو کچلے ڈال رہے تھے۔ میں اس انبوہ سے پریشان کچن کے دروازے کی چوکھٹ سے چپکا کھڑا تھا اور دھکوں سے اپنے جوس کے گلاس کو بچا رہا تھا جو دوبار چھلک کر میرے سفید کپڑوں پر نشان ڈال چکا تھا، اچانک ہجوم میں ہلچل مچ گئی، بہت سے لوگ ایک ساتھ دروازے کی طرف لپکے۔ میں سمجھ گیا کہ دلیپ صاحب اندر آرہے ہیں۔ تھوڑی دیر میں وہ مسکراتے، لوگوں کے سلام کا جواب دیتے ہوئے آتے دکھائی دیئے۔ وہ میرے پاس سے گزرے اور ہوٹل کے مالک کے ساتھ اس طرف کو بڑھ گئے جہاں ایک چھوٹا سا ڈائس بنایا گیا تھا۔ 
  اچانک وہ رُکے ، پلٹے اور تیزی سے میرے پاس آکر بولے: ’’بھائی ! میں ابھی آتا ہوں !‘‘ اور میرے منہ کھولنے سے پہلے آگے بڑھ گئے۔ وہ تمام لوگ جو میرے آس پاس تھے بلکہ وہ بھی جو دلیپ صاحب کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے ، حیران ہوکر مجھے دیکھ رہے تھے کہ یہ کون ہوسکتا ہے جس کے لئے اپنے وقت کا سب سے بڑا اسٹار پلٹ کر آتا ہے؟ اور مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں گیس کے غبارے کی طرح ہوا میں بلند ہوگیا ہوں۔ مجھے وہ تمام لوگ جو وہاں کھڑے ہیں، بہت چھوٹے چھوٹے نظر آرہے ہیں ایک عجیب سرور تھا جو رگوں میں اتر گیا تھا۔ اپنی وقعت کا، اپنی عزت کا اور ان کی محبت کا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK