اس وقت دوموسم پوری شدت سے ہماری زمین کو زدمیں لئے ہوئے ہیں۔ ایک گرمی اورایک بارش۔ پورا یورپ گرمی کی لپیٹ میں ہے جبکہ ایشیا کے کئی ممالک اورامریکہ میں طوفان اور سیلاب کے حالات ہیں لیکن یہ بھی ہےکہ گرمی ایک مستقل موسم بنتا جارہا ہے یعنی زمین کا در جہ حرارت بڑھتا ہی جارہا ہے۔
اس وقت دوموسم پوری شدت سے ہماری زمین کو زدمیں لئے ہوئے ہیں۔ ایک گرمی اورایک بارش۔ پورا یورپ گرمی کی لپیٹ میں ہے جبکہ ایشیا کے کئی ممالک اورامریکہ میں طوفان اور سیلاب کے حالات ہیں لیکن یہ بھی ہےکہ گرمی ایک مستقل موسم بنتا جارہا ہے یعنی زمین کا در جہ حرارت بڑھتا ہی جارہا ہے۔ حالانکہ اس و قت ہماری زمین اس وقت سورج سے اپنے سب سے زیادہ فاصلے پر گردش کر رہی ہے۔ ’ڈان ‘ اخبار میں شائع سی این این کی رپورٹ کے مطابق جمعرات کو دوپہر ۳؍ بجکر۵۵؍ منٹ (ایسٹرن ٹائم) زمین ایفیلیئن (Aphelion) پر پہنچ گئی تھی، یعنی اپنے مدار کا وہ مقام جہاں زمین سورج سے سب سے زیادہ دور ہوتی ہے جو کہ زمین کے قریب ترین مقام پیریلیئن (Perihelion) سے تقریباً ۳۰؍ لاکھ میل زیادہ ہے۔
یہ ہر سال جولائی کے آغاز میں ہوتا ہے۔ اگر ہم سورج سے سب سے دور ہیں تو پھر گرمی کیوں ہو رہی ہے؟زیادہ تر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ موسم زمین اور سورج کے درمیان فاصلے کی وجہ سے بدلتے ہیں، یعنی قریب ہوں گے تو گرمی، دور ہوں گے تو سردی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ زمین کا سورج سے فاصلہ موسموں پر بہت کم اثر ڈالتا ہے۔
اصل وجہ: زمین کا جھکاؤ
زمین اپنے محور پر تقریباً ۵ء۲۳؍درجے کے زاویے پر جھکی ہوئی ہے جس کی وجہ سے سال کے مختلف اوقات میں زمین کے مختلف حصے سورج کی روشنی زیادہ یا کم حاصل کرتے ہیں ۔ جولائی میں شمالی نصف کرہ سورج کی طرف جھکا ہوتا ہے جس کی وجہ سے دن لمبے ہوتے ہیں اور دھوپ زیادہ براہ راست پڑتی ہے۔ ناسا کی ایک وضاحتی تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ جون (گرمیوں ) میں زمین سورج کی طرف جھکی ہوتی ہے جبکہ دسمبر (سردیوں ) میں اس کے برعکس ہوتا ہے۔
مدار کی شکل اور فاصلہ
زمین کا مدار بالکل گول نہیں، بلکہ تھوڑا بیضوی ہے مگر یہ فرق معمولی ہوتا ہے، فی الوقت زمین سورج سے (جنوری کی ابتدا کے مقابلے میں ) تقریباً۳؍ کروڑ ۱۰؍ لاکھ میل دور ہےجبکہ جنوری کے آغاز میں زمین اپنے قریب ترین مقام پیریلیئن پر ہوتی ہے۔ زمین اور سورج کے درمیان اوسط فاصلہ ۹؍ کروڑ۳۰؍ لاکھ میل ہے، لہٰذا یہ فرق صرف۳ء۳؍ فیصد بنتا ہے۔
اگرچہ سورج سے تھوڑا دور ہونے سے زمین پر پہنچنے والی شمسی توانائی میں تقریباً۷؍فیصد کمی آتی ہے، مگر زمین کے جھکاؤ کا اثر اس سے کہیں زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ ناسا کے مطابق، سورج کی روشنی کا زاویہ بھی فرق ڈالتا ہے، زیادہ زاویے والی روشنی زیادہ طاقتور ہوتی ہے، جیسا کہ گرمیوں میں ہوتا ہے جب کہ کم زاویے والی روشنی سردیوں کی کمزور دھوپ جیسی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، ہیوسٹن، نیو اورلینز، اور فینکس جیسے شہروں میں جو تقریباً ۳۰؍ درجے شمالی عرض البلد پر واقع ہیں، موسم گرما میں شمسی توانائی کی مقدار سردیوں کی نسبت دو گنا سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اس سے بھی زیادہ فرق نیویارک، ڈینور، اور کولمبس جیسے شہروں میں محسوس ہوتا ہے۔ ان شہروں میں موسم سرما میں زمین کی سطح پر شمسی توانائی تقریباً۱۴۵؍ واٹس فی مربع میٹر ہوتی ہے، جب کہ گرمیوں میں یہ بڑھ کر۴۳۰؍واٹس تک پہنچ جاتی ہے۔
اگرچہ اس وقت زمین سورج سے (معمول سے)تھوڑی دور ہے اور شمسی توانائی تھوڑی کم ہے مگر موسم گرما ہمیں اس لیے گرم لگتا ہے کہ ہم سورج کی طرف جھکے ہوتے ہیں نہ کہ اس لیے کہ ہم سورج کے قریب ہوتے ہیں۔