Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’اپنا حق لینا اگر جرم ہے تو یہ جرم ہزار بارکریں گے ‘‘

Updated: July 07, 2025, 3:13 PM IST | Sharjeel Qureshi | Jalgaon

جلگائوں میں منعقدہ وقف ترمیمی قانون مخالف جلسے میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا ء بورڈ کے جنرل سیکریٹری مولانا عمرین محفوظ رحمانی کا اظہار خیال۔

Maulana Omareen speaking. Photo: INN
مولانا عمرین خطاب کرتے ہوئے۔ تصویر: آئی این این

 ’’ہم اپنا حق کسی بھی صورت میں لے کر رہیں گے اوروقت کے طوفان ہمارے حوصلوں سے ٹکر ا کر واپس جائیں گے۔ اگر اپنا حق لینا جرم ہے تو یہ جرم ہم ایک بار نہیں ہزار بار کریں  گے۔ تختہ دار پربھی ہم حق کو حق اور باطل کو با طل کو ہی کہیں  گے۔ ہم وہ نہیں ہے جو جیل جانے کے ڈر سے انگریزوں کو معافی نامہ لکھ کر دے دیں۔ بلکہ ہم تو وہ ہیں جو صدر ی اور شیروانی کی بجائے کفن پہنا پسند کرتے ہیں۔ ‘‘ ان بے باک خیالات کا اظہار آل انڈیا مسلم پر سنل لاء بورڈ کے جنرل سیکریٹری مولانا عمرین محفوظ رحمانی نے وقف قانون کے خلاف عیدگاہ میدان میں منعقدہ احتجاجی جلسہ میں اپنے خطبہ صدارت میں کیا۔ 
 خیال رہے کہ اس جلسے کی تیاریاں کئی روز سے جاری تھیں۔ عبدالکریم سالار اور مفتی محمد ہارون ندوی کی قیادت میں جلگائوں وقف کو آرڈینیشن کمیٹی کے ذمہ داروں نے ضلع کے کئی درجن قصبوں اور شہروں کا دورہ کرکے نہ صرف اس نئے قانون کے منفی پہلوئوں سے مسلمانوں کو روشناس کرایا۔ بلکہ انہیں اس جلسے میں شرکت پر آمادہ بھی کیا۔ کمیٹی کے ان دوروں کا زبردست اثر دیکھنے کو ملا۔ مسلسل رم جھم بارش کے باوجود عیدگاہ میدان پر تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ 
 مقررین میں سب سے پہلے اہلسنت و الجماعت جلگائوں کے ذمہ دار سید ایاز علی نے اظہار خیال کیا، انہوں نے کہاکہ ’’یہ ہمارے خواجہ کا ہندوستان ہے۔ ہم مسلمانوں نے تقسیم کے وقت پاکستان کو نہیں ، بلکہ بھارت کو چُنا۔ وقف قانون کو اُمید سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ جبکہ اس میں نا اُمیدی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ‘‘ این سی پی( شرد پوار ) کے شہر ی صدر اعجاز ملک نے کہاکہ’’ حکومت اس کالے قانون کے ذریعے ہماری کروڑوں کی املاک پر قبضہ کرنی چاہتی ہے۔ یہ قانون کئی معاملات میں ہمارے دستور سے ٹکراتا ہے۔ اس لئے اس قانون کو واپس لینا جانا چاہئے۔ ‘‘  جماعت اسلامی ہند کے ضلعی امیرشیخ سہیل امیرنے کہا کہ ’’ہمارے مظاہرے اور احتجاج رنگ لا رہے ہیں ، حکومت نے تین ترمیمات واپس لی ہیں۔ یہ اس کا ثبوت ہے۔ ‘‘مفتی محمد ہارون ندوی نے کہا کہ ’’ پارلیمنٹ میں ۲۳۲؍ اراکین نے اس قانون کی مخالفت کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہندو بھائی بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ اسکے علاوہ مسلمانوں کے تمام مسالک کے افراد جو اتحاد کا مظاہر ہ کررہے ہیں۔ ‘‘ کانگریس کے لیڈر وجئے مہاجن نے اپنی دھواں دھار تقریر میں کہا کہ’’ یہ حکومت ہندوؤں اور مسلمانوں کو لڑانا چاہتی ہے۔ مگر گھبرانے کی ضرورت نہیں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ‘‘ تقاریر کے دوران نعرہ تکبیر اللہ اکبر کی فلاک شگاف صدائیں مسلسل بلند ہو رہی تھیں۔ 
 عبدالکریم سالارنے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’’ ہمارے اتحاد اور احتجاج کے سبب سرکار ہل گئی ہے اور سوچنے پر مجبور ہوئی ہے لیکن ہم اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔ اگر اسی طرح سے ماضی میں ہم نے اتحاد و احتجاج کا مظاہرہ کیا ہوتا تو شاید عدالت کا فیصلہ کچھ اور ہوتا۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہا ’’ہم جیل جانے کو بھی تیار ہیں اور سینے پر گولی کھانے کو بھی۔ ‘‘
 آخر میں آل انڈیا مسلم پر سنل لاء بورڈ کے جنرل سیکریٹری مولانا عمرین محفوظ رحمانی نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ فکر انگیز باتیں کہیں۔ انہوں نے کہا کہ’’ حکومت کی نیت صاف نہیں ہے۔ ایک طرف تو وہ یہ قانون بنا رہی ہے کہ کوئی ہندو اپنی جائیداد وقف نہیں کر سکتا اور دوسری طرف ہندوؤں کو وقف بورڈ میں لینے کی بات کررہی ہے۔ یہی اس کے دوغلے پن کا ثبوت ہے۔ ہمارے ہندو بھائیوں کو بہکایا جارہا ہے کہ مسلمان جس چیز پر ہاتھ رکھ دیں ، وقف کی ہوجاتی ہے۔ جبکہ ایسا بلکہ نہیں ہے۔ ہماری لڑائی نہ ہندو کے خلاف نہ عیسائیوں کے، نہ سکھوں کے خلاف نہ دلتوں کے، بلکہ یہ لڑائی تو ناانصافی کے خلاف جو ہم آخری دم تک لڑتے رہے گے۔ ‘‘ 
 قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس احتجاجی جلسے میں پالدھی، ایرنڈول، نصیر آباد، بھساول، ساودا، فیض پور، راویر، بیاول، چناول، بیلس واڑی ایسے کئی علاقوں سے بارش کی پروا ہ کئے بغیر مسلمانوں نے بڑی تعداد میں  شرکت کی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK