• Tue, 18 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

غزہ: سلامتی کونسل کی امریکی استحکامی فوج کو منظوری، حماس نے اس کی مخالفت کی

Updated: November 18, 2025, 5:03 PM IST | New York

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل غزہ میں امریکی امن فوج کی تعیناتی کو منظوری دے دی، چین اور روس نے سامراجی خدشات کا اظہار کیا، جبکہ حماس نے اسے مسترد کر دیا، اس کے برخلاف فلسطینی اتھارٹی نے اس کا خیر مقدم کیا ، اور اس کے ساتھ مکمل تعاون کا وعدہ کیا ہے۔

United Nations Security Council. Photo: INN
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل۔ تصویر: آئی این این

سلامتی کونسل نے غزہ میں جنگ بندی کیلئے  امریکی  منصوبے کو منظور کر لیا ہے، جس میں ایک بین الاقوامی استحکامی فوج بھی شامل ہے۔۱۵؍ رکنی کونسل میں۱۳؍ اراکین نے اس کی تائید کی، جبکہ روس اور چین رائے شماری سے غیر حاضر رہے۔ اس قرارداد، جسے اب سلامتی کونسل کی قرارداد۲۸۰۳؍ کا نام دیا گیا ہے، میں کہا گیا ہے کہ ’’اگر فلسطینی اتھارٹی اصلاحات کرتی ہے اور غزہ کی تعمیر نو میں ترقی ہوتی ہے تو فلسطینی کے قابل اعتماد راستے کے لیے حالات سازگار ہو سکتے ہیں۔امریکی قرارداد ٹرمپ کے غزہ کے لیے۲۰؍ نکاتی منصوبے پر مبنی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ سلامتی فوج ایک نام نہاد ’’بورڈ آف پیس‘‘کو رپورٹ کرے گی جس کی صدارت ٹرمپ کریں گے۔حماس نے اس منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’یہ قرارداد غزہ پٹی پر ایک بین الاقوامی نگہبان یا سرپرستی کا نظام مسلط کرتی ہے۔‘‘اس گروپ نے ٹیلی گرام پر ایک طویل بیان میں کہا، ’’مزاحمت کو غیر مسلح کرنے سمیت غزہ پٹی کے اندر بین الاقوامی فوج کو کام اور کردار سونپنا، اس کی غیر جانبداری ختم کر دے گا اور اسے تنازع میں ایک فریق بنا دے گا جو اسرائیلی قبضے کے حق میں ہوگا۔بیان میں کہا گیا، ’’کوئی بھی بین الاقوامی فوج، اگر قائم کی جاتی ہے، تو صرف سرحدوں پر تعینات کیا جانا چاہیے تاکہ فوجیں الگ ہوں، جنگ بندی کی نگرانی ہو، اور وہ مکمل طور پر اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہو۔

یہ بھی پڑھئے: غزہ: تاریخی و ثقافتی ورثہ تباہی کا شکار، اسرائیل نے ۲۰؍ ہزارنوادرات چوری کرلئے

ٹرمپ نے اپنے ٹرتھ سوشل پلیٹ فارم پر ایک پوسٹ شیئر کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اس قرارداد کا خیر مقدم کیا ہےاوراراکین کا شکریہ ادا کیا۔روس کے اقوام متحدہ کے سفیر واسیلی نیبینزیا اس قرارداد پر خدشات کا اظہار کیا ہے اور امریکہ کی نیت پر سوال اٹھائے۔اور فلسطینی شراکت کو نظر انداز کرنے پر تشویشظاہر کی۔چین، جس نے امریکی قرارداد پر ووٹ سے گریز کیا، نے دستاویز میں تفصیلات کی کمی پر تشویش کا اظہار کیا ہے، بشمول فلسطینیوں کے کردار کے حوالے سے۔چین نے کہاکہ ’’غزہ فلسطینی عوام کا ہے، کسی اور کا نہیں۔‘‘
اس کے بر خلاف  وفا نیوز ایجنسی کے بیان میں، فلسطینی اتھارٹی نے کہا کہ امریکی منصوبہ غزہ پٹی میں ایک مستقل اور جامع جنگ بندی، بلا روک ٹوک انسانی امداد کی فراہمی اور فلسطینی عوام کے خودارادیت کے حق اور ان کی آزاد ریاست کے قیام کی توثیق کرتا ہے۔رام اللہ میں قائم فلسطینی اتھارٹی نے ٹرمپ انتظامیہ اور اقوام متحدہ کے ساتھ ’’مکمل تعاون‘‘ کا بھییقین دلایا تاکہ اس قرارداد کو نافذ کیا جا سکے۔‘‘ فلسطین نے قرارداد کے نفاذ کی حمایت کے لیے امریکہ، سلامتی کونسل کے اراکین، اور عرب و اسلامی ممالک سمیت تمام متعلقہ فریقین کے ساتھ تعاون کرنے کی اپنی تیاری کی تصدیق کی، اور غزہ، مقبوضہ ویسٹ بینک اور مقبوضہ مشرقی یروشلم میں فلسطینی عوام کے مصائب کو ختم کرنے کے لیے اسے فوری طور پر نافذ کرنے کی و کالت کی۔

یہ بھی پڑھئے: فلسطینی مزاحمتی گروپس کا امریکی قرارداد کے مسودے پر سخت ردِعمل

اسٹیفن ڈوجارک نے کہا کہ’’ اقوام متحدہ امریکی قرارداد کو نافذ کرنے میں اپنے کردار کے لیے پرعزم ہے، جس میں غزہ میںانسانی امداد میں اضافہ اور فریقین کو جنگ بندی کے اگلے مرحلے کی طرف لے جانے کی تمام کوششوں کی حمایت شامل ہے۔‘‘برطانیہ ، فرانس اور جنوبی کوریا نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دینے کی وجوہات بتانے کے ساتھ ہی انسانی امداد کی مکمل فراہمی پر بھی زور دیا۔ 
بعد ازاں فلسطینی گروپ الحق نے خبردار کیا ہے کہ پیر کو منظور ہونے والی سلامتی کونسل کی قرارداد فلسطینیوں کے خودارادیت کے حق کو مزید مجروح کرتی ہے۔الحق نے یہ بھی خبردار کیا کہ بورڈ آف پیس اور عارضی بین الاقوامی استحکامی فوج کا قیام بین الاقوامی قانون کے یکسر ترک اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے نظام کو مکمل طور پر مجروح کرنے کی نشاندہی کرتا ہے۔
واضح رہے کہ یہ امریکی مسودہ اسرائیل-حماس جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کا حصہ تھا جو صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے پیش کردہ۲۰؍ نکاتی منصوبے کی بنیاد پر۱۰؍ اکتوبر سے غزہ میں نافذ العمل ہے۔جنگ بندی کے معاہدے کے پہلے مرحلے میں فلسطینی قیدیوں کے بدلے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی شامل ہے۔ اس منصوبے میں غزہ کی تعمیر نو اور فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس کے بغیر ایک نئے حکمرانی کے میکانزم کے قیام کا بھی تصور پیش کیا گیا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK