غزہ کے طلبا بیرون ملک تعلیم کے لیے بمباری بھی عبور کرگئے، لیکن اب سرکاری رکاوٹیں راستہ روک رہی ہیں۔
EPAPER
Updated: July 24, 2025, 3:58 PM IST | Gaza
غزہ کے طلبا بیرون ملک تعلیم کے لیے بمباری بھی عبور کرگئے، لیکن اب سرکاری رکاوٹیں راستہ روک رہی ہیں۔
تقریباً۸۰؍ طلبا کو برطانیہ کی معروف یونیورسٹیوں میں داخلہ ملا جن میں سے بہت سے کو مکمل اسکالرشپ بھی ملی۔ لیکن وہ جنگ زدہ غزہ میں ’’پھنسے ہوئے‘‘ ہیں کیونکہ برطانوی حکومت کے ناقابلِ عبور قوانین کی وجہ سے وہ اپنی یونیورسٹی سیٹیں حاصل کرنےسے قاصر ہیں۔اس سال درجنوں فلسطینی طلبا کو برطانیہ کی اعلٰی یونیورسٹیوں میں داخلہ ملا — جن میں سے تقریباً۳۲؍ کو بڑی اسکالرشپ حاصل ہوئیں۔ انہوں نے اسرائیلی فوج کے حملوں کے دوران درخواستیں جمع کرائیں اور بہتوں نے وائی فائی کے لیے اپنی جان جوکھم میں ڈال کر انٹرویو دیے۔ لیکن اب جب وہ اپنی تعلیمی زندگی شروع کرنا چاہتے ہیں تو برطانیہ کا ہوم آفس (وزارت داخلہ) اور سرکاری پیچیدگیاں ایک ناقابلِ عبور رکاوٹ بنتی نظر آ رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: اگرغزہ کے بچے بھوکے مریں گے تو ہم بھی! عرب ممالک میں بھوک ہڑتال کا سلسلہ
دی ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق، مسلسل اسرائیلی بمباری کے دوران بہت سے امیدواروں نے جان جوکھم میں ڈال کر اسکریننگ کا عمل مکمل کیا۔ برطانوی یونیورسٹیوں میں داخلہ پانے والے غزہ کے بہت سے طلبا اب عارضی خیموں میں رہ رہے ہیں، اور اپنے امتحانی پرچے گدھا گاڑی پر رکھ کر ملبے سے گزر کر لے جاتے ہیں۔ کرم الراضی نے مانچسٹر یونیورسٹی کا انٹرویو اس وقت دیا جب ایک اسرائیلی حملے کا ایک ٹکڑا ان کی ٹانگ میں پھنسا ہوا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک اور امیدوار نے آن لائن امتحان دینے کے لیے ایک غیر محفوظ علاقے سے ہوتے ہوئے ایک عارضی وائی فائی ہب تک کا خطرناک سفر کیا — لیکن سگنل آدھے امتحان میں ہی غائب ہو گیا۔ کچھ دیگر طلبا نے گاڑی کی بیٹریوں یا سولر پیکس سے چلنے والے فون پر واٹس ایپ اور سگنل کے ذریعے رات گئے انٹرویو دیے۔ پورے علاقے میں وائی فائی اور انٹرنیٹ سگنل اب بھی کمزور ہے اور بہت سے ڈگری کے امیدوار کئی کئی دن تک اچھا سگنل پکڑنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔بالآخر تقریباً ۸۰؍ طلبا کو برطانیہ کی اعلٰی یونیورسٹیوں میں داخلہ ملا جن میں سے بہت سے کو مکمل اسکالرشپ بھی ملیں۔ لیکن وہ جنگ زدہ غزہ میں ’’پھنسے ہوئے‘‘ ہیں کیونکہ برطانوی حکومت کے ناقابلِ عبور قوانین کی وجہ سے وہ اپنی یونیورسٹی سیٹیں لینے سے قاصر ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل کا ’متنازع امدادی نظام‘ فلسطینیوں کو انسانی وقار سے محروم کررہا ہے: یوکے
برطانیہ کا ہوم آفس ویزا کے لیے لازمی بایومیٹرک ڈیٹا (بائیو میٹرک اعداد و شمار) کا اندراج کرانے پر اصرار کر رہا ہے — جو ایک ناممکن بات ہے کیونکہ غزہ کا متعلقہ دفتر اکتوبر۲۰۲۳ء سے بند پڑا ہے۔ اگرچہ نظریاتی طور پر یہ ممکن ہے کہ طلبا دستاویزات کے لیے اردن اور مصر جا سکیں، لیکن غزہ سے نکلنے کے لیے انہیں برطانوی حکومت کی مداخلت درکار ہے۔ اٹلی نے پہلے اس مسئلے کا عارضی حل یہ نکالا تھا کہ طلبا کے سرحد پار کرنے کے بعد ان کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا۔ اسی دوران پڑوسی ملک آئرلینڈ نے مئی میں یہ شرط مکمل طور پر ختم کرتے ہوئے۱۶؍ طلبا کو باہر نکالا تھا۔
دریں اثناء برطانیہ اور فرانس سمیت۲۵؍ ممالک نے پیر کو ایک مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے غزہ میں جنگ ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔اس مطابلے پر دستخط کرنے والوں میں تقریباً۲۰ یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ کے علاوہ کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ، اور یورپی یونین کے کمشنر شامل تھے۔ امریکہ اور جرمنی نے بیان پر دستخط نہیں کیے۔