ہندوستانی سینما میں بہت سی اداکارائیں آئیں، چھا گئیں اور پھر وقت کے دھندلکوں میں گم ہوتی چلی گئیں۔ مگر کچھ نام ایسے ہیں جو وقت کے باوجود اپنی چمک نہیں کھوتے۔
رقص کی ملکہ ہیلن۔ تصویر:آئی این این
ہندوستانی سینما میں بہت سی اداکارائیں آئیں، چھا گئیں اور پھر وقت کے دھندلکوں میں گم ہوتی چلی گئیں۔ مگر کچھ نام ایسے ہیں جو وقت کے باوجود اپنی چمک نہیں کھوتے۔ ہیلن جیرارڈ رچرڈسن خان اُن ہی چند ناموں میں سے ایک ہیں جنہیں ہم عام طور پر ہیلن کے طور پر جانتے ہیں۔ ان کی زندگی محض ایک آرٹسٹ کی کامیابیوں کی کہانی نہیں بلکہ جدوجہد، ہجرت، محرومی، حوصلے اور دوبارہ جنم لینے کی داستان ہے۔
ہیلن کی پیدائش ۲۱؍ نومبر ۱۹۳۸ء کو برما (میانمار) میں ہوئی۔والدبرطانوی تھے اور ماں برما کی خاندانی نسل سے تعلق رکھتی تھیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے ہنگامے شروع ہوئے تو حالات نے اس معصوم بچی کی زندگی کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ جاپانی فوج کے حملوں کے بعدہزاروں خاندانوں کی طرح ہیلن کا خاندان بھی سب کچھ چھوڑ کر پیدل ہی ہندوستان کی جانب نکل پڑا۔یہ سفر آسان نہیں تھا،بھوک، بیماری، تھکن اور راستے کی موتیں… ان سب نے کئی بچوں کو یتیم اور عورتوں کو بیوہ کیا۔ ہیلن ہندوستان پہنچی تو ایک شکستہ خاندان کی بیٹی تھی، مگر مستقبل نے اس شکستہ لڑکی کو بلندی کی منزلوں کیلئے چن رکھا تھا۔
ہیلن نے بمشکل۱۳؍،۱۴؍برس کی عمر میں فلمی دنیا میں قدم رکھا۔ ۱۹۵۱ء کی فلم ’ہم دونوں‘ اور ’آوارہ‘کے گیتوں میں انہوں نے پس منظر رقاصہ کے طور پر کام کیا۔لیکن اصل شناخت انہیں ۱۹۵۸ء کی فلم ’ہاوڑہ برج‘ کےگیت’میرا نام چن چن چو‘ سے ملی۔یہ وہ لمحہ تھا جب ہندوستانی فلمی دنیا کو اندازہ ہوا کہ ایک نیا طوفان آنے والا ہے،رقص کا طوفان۔آج بالی ووڈمیںجو’آئٹم سانگ‘ کا تصور ہے، اس کی بنیاد کسی نے ڈالی؟اگر یہ سوال کیا جائے تو اس کا یقینی جواب ’ہیلن‘ ہوگا۔ان کے رقص میںمغربی نرمی،ہندوستانی لچک،عربی انگڑائیاں اور ایک الگ، جادوئی بے تابی سب کچھ شامل تھا۔
۱۹۶۰ء اور ۷۰ء کی دہائی میں کوئی بڑی فلم ہو اور اس میں ہیلن کا رقص نہ ہویہ ممکن نہیں تھا۔ان کے گیت ’پیا تو اب تو آجا‘ (کارواں، ۱۹۷۱ء)،اوحسینہ زلفوں والی(تیسری منزل،۱۹۶۶ء)،آج جانے کی ضد نہ کرو (ٹی وی پرفارمنس)،محبوبہ محبوبہ(شعلے،۱۹۷۵ء)،یہ سب اُن کی مقبولیت کے پہاڑ ہیں۔ہیلن صرف رقص نہیں کرتیں،کہانی سناتی تھیں،آنکھوں، ہاتھوں اور قدموں سے۔
اگرچہ ہیلن کو بنیادی طور پر آئیٹم سانگ کے لیے جانا جاتا ہے، مگر انہوں نے کئی یادگار کردار بھی ادا کیے جیسے ۱۹۶۵ء کی فلم ’گمنام‘میں پراسرار گورنس۱۹۷۹ء میںفلم’لہو کے دو رنگ‘میں جذباتی اور مضبوط رول، ۱۹۷۸ء میں فلم ڈان میںایک چھوٹا ساکردار اور ۱۹۹۹ء کی فلم’ہم دل دے چکے صنم‘ میں ہیرو سلمان خان کی ماں کا جذباتی رول یادگار ہیں۔ان کی آنکھوں میں ایک عجیب طاقت تھی، جو درد بھی دکھا دیتی تھی اور مسکراہٹ میں چھپے راز بھی۔
ہیلن کو۱۹۷۹ءمیںفلم لہو کے دو رنگ کے لیے فلم فیئر بہترین معاون اداکارہ ایوارڈ ملا، جبکہ۲۰۰۹ءمیں انہیں پدم شری جیسا اعزاز عطا کیا گیا۔ انہیں تاحیات فلم فیئر لائف ٹائم اچیومنٹ اور کئی سنگیت نگری کے انعامات سے بھی نوازا گیا۔