Inquilab Logo

ہندوستانی سماج پر فلموں کے ا ثرات اور فلم انڈسٹری کی ذمہ داریاں

Updated: September 27, 2020, 4:12 AM IST | Anees Amrohi

نئے عہد کے اس بڑے اور طاقتور میڈیا میں نِت نئے تجربات کرکے ہمارے فلمسازوں نے اِس فن کو آج اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ سنیما ہمارے سماج کا آئینہ اور لازمی حصہ بن گیا ہے، آج ہمارے یہاں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی عکاسی ہماری فلموں میں ہو رہی ہے، یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ مغرب کی نقل میں جو کچھ ہماری فلموں میں دکھایا جا رہا ہے، وہی سب کچھ ہمارے سماج میں بھی اپنی جڑیں گہری کرتا چلا جا رہا ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ ہمارے فلمساز اس طاقتور میڈیم کا استعمال مثبت پیغام رسانی کیلئے کریں تاکہ سماج کی تعمیر میں ان کا کردار بھی نمایاں ہو

Salman Khan and Madhuri Dixit
سلمان خان اور مادھوری دکشت

اُنیسویں صدی کی آخری دہائی میں فوٹوگرافی کی تکنیک میں نِت نئے تجربے ہو رہے تھے اور تصویر کو متحرک بنانے کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔ کئی ممالک میں پردے پر چلتی پھرتی تصویروں کو اُبھارنے کی کوشش ۱۸۹۳ء میں ہی کامیابی کی طرف گامزن ہو چکی تھی۔ اس زمانے میں ہندوستان میں بھی اس طرح کی کئی کتابیں شائع ہوئیں جن میں تمام صفحات پر ایک ہی جیسی تصویریں چھاپی گئیں مگر ہر تصویر پہلی تصویر سے تھوڑی سی مختلف ہوتی تھی۔ جب اس کتاب کے صفحات کو تیزی سے اُلٹا جاتا تو ایسا لگتا جیسے کتاب میں چھپی تصور متحرک ہو اُٹھی ہے۔
 ہندوستان کے شہر بمبئی میں سب سے پہلے ۱۸۹۶ء میں بیرونی ممالک سے چھوٹی چھوٹی متحرک خاموش فلموں کی آمد شروع ہوئی۔ ۷؍ جولائی ۱۸۹۶ء کو لِمونیئر برادرس نے بمبئی کے واٹسن ہوٹل میں میجک لائٹس کے نام سے ایک چھوٹی سی خاموش فلم کی نمائش کی۔ بعد میں اس طرح کی کئی فلموں کو عوام نے اور تھیٹر کے مالکوں نے بہت پسند کیا۔
 طویل فیچر فلموں کے سلسلے کو ہندوستان میں شروع کرنے کا سہرا دادا صاحب پھالکے کو جاتا ہے۔ انہوں نے لائف آف کرائسٹ نام کی ایک غیر ملکی فلم سے متاثر ہوکر بڑی جدوجہد سے فلم’ راجہ ہریش چند‘ کو مکمل طور سے ہندوستان میں تیار کیا اور۱۹۱۳ء میں اس خاموش فلم کی نمائش ہوئی۔ اس فلم میں ’راجہ ہریش چند‘ کی بیوی کا کردار ہوٹل میں کام کرنے والے ایک بیرے نے ادا کیا تھا۔ اس طرح ہندوستان میں خاموش فلموں کا سفر شروع ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی آواز کو فلم کے ساتھ قید کرنے کی کوششیں بھی جاری تھیں۔ حالانکہ۱۹۰۰ء میں پہلی بار  رابندر ناتھ ٹیگور نے گراموفون پر خود اپنی ہی آواز میں ’’بندے ماترم‘‘ گانا ریکارڈ کرایا تھا مگر کئی برس بعد ۱۹۳۱ء میں ہندوستانی فلموں کو بھی بولنا آگیا اور فلمسازاردڈیشر ایرانی نے ہندوستان کی پہلی متکلم فلم’ عالم آرا‘ کی نمائش کی۔ اس طرح ہندوستان میں متکلم سنیما کا جو سفر ۱۹۳۱ء میں شروع ہوا تھا، اس نے آج ہمہ جہت ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے ایک بہت بڑی انڈسٹری کی شکل اختیار کر لی ہے۔ آج ہندوستان فلمی صنعت میں ہالی ووڈ کے بعد دنیا کا سب سے بڑا مرکز ہے اور ایک اندازے کے مطابق یہاں ایک برس میں تقریباً ایک ہزار سے بھی زائد فلمیں بنتی ہیں، جن میں بڑی تعداد ہندی یا ہندوستانی زبان کی فلموں کی ہوتی ہے۔
 ایک زمانہ تھا جب فلموں میں کام کرنا یا فلموں سے وابستگی رکھنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا تھا جو کسی بھی طور سے فلموں سے تعلق رکھتے ہوں۔  بیسویں صدی کی اس عظیم ایجاد سے اس قدر نفرت یا بے تعلقی کی  وجہ ہماری اخلاقی قدریں تھیںکیونکہ ہمارے سماج کا ایک بڑا طبقہ سنیما کو معیوب سمجھتا تھا لیکن ۱۹۳۱ء سے باقاعدہ مکالماتی سنیما کا آغاز ہو جانے کے بعد رفتہ رفتہ اس طرف لوگوں کی توجہ بڑھنے لگی اور پھر جب رنگین فلموں کا دور شروع ہوا تو لوگوں میں اس فنِ سنیما گری کی طرف رجحان زیادہ ہی بڑھ گیا۔ آج یہ عالم ہے کہ فلمیں ہماری زندگی کا ایک ضروری حصہ بن گئی ہیں۔
 آج سنیما انسانی جذبات اور اس کی سوچ کو ظاہر کرنے کا ایک زبردست ذریعہ بن چکا ہے۔ اپنے ابتدائی دور ہی سے سنیما کے مختلف شعبوں میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں رہی جو یا تو باکمال  تھے یا گہری سوچ رکھتے تھے۔ ایسے لوگوں نے نہ صرف یہ کہ اچھی فلمیں بنائیں بلکہ نئے عہد کے اس سب سے بڑے اور طاقتور میڈیا میں نِت نئے تجربات کرکے اِس فن کو آج اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ سنیما ہمارے معاشرے کا آئینہ اور لازمی حصہ بن گیا ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی بہترین عکاسی ہماری فلموں میں ہو رہی ہے، یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ مغربی طرزِ معاشرت کی نقل میں جو کچھ ہماری فلموں میں دکھایا جا رہا ہے، وہی سب کچھ ہمارے معاشرے میں بھی اپنی جڑیں گہری کرتا چلا جا رہا ہے۔ عریانی، تشدد، جنسی بے راہ روی، رشتوں کی توڑ پھوڑ، کرپشن، سیاست کے نام پر غنڈہ گردی، بے ایمانیاں اور نِت نئے گھوٹالے وغیرہ سب ہماری فلموں سے ہی ہمارے سماج میں آئے ہیں۔ حالانکہ کچھ فلمسازوں اور ہدایت کاروں کا کہنا ہے کہ وہ اپنی فلموں میں وہی کچھ دکھاتے ہیں، جو سماج میں ہو رہا ہوتا ہے، اور جو عوام ہماری فلموں میں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ میری سمجھ میں آج تک یہ بات نہیں آئی کہ کب کس نے جاکر کسی فلمساز یا ہدایت کار سے یہ کہا کہ ’’تم اپنی فلم میں جنسی بے راہ روی یا تشدد دکھائو، تبھی ہم سنیما ہال میں جاکر تمہاری فلم دیکھیں گے۔‘‘ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہمارے فلمساز اور ہدایت کار بامقصد اور صاف ستھرے موضوعات پر فلمیں بناکر عوام کے سامنے پیش کریں تو عوام اُن کی فلموں کو ہی پسند کریں گے۔ میری اس بات کی تصدیق کیلئے چند فلموں کی مثال پیش کی جا سکتی ہے۔ کمال امروہوی کی فلم ’پاکیزہ‘ یا مظفر علی کی فلم’امراؤ جان‘ جن دنوں بن رہی تھیں تو کسی نے ان سے جاکر یہ نہیں کہا تھا کہ آپ اپنی فلموں میں تشدد یا جنسیات دکھائیں گے، تبھی ہم آپ کی فلم دیکھنے جائیں گے۔دنیا نے دیکھا کہ اِن دونوں ہی فلموں نے ایسے دور میں بے پناہ کامیابی حاصل کی تھی جب ہندوستان میں تشدد، جرائم اور جنسی بے راہ روی سے بھری فلموں کی بھرمار تھی۔ اسی طرح کسی فلم بین نے سلیم جاوید سے بھی فرمائش نہیں کی تھی کہ آپ تشدد سے بھرپور فلم شعلے کی کہانی لکھئے۔ ہاں! اتنا ضرور ہے کہ ہماری فلموں کے منفی اثرات ہمارے معاشرے پر جس تیزی سے اور جتنے بڑے پیمانے پر مرتسَم ہوئے ہیں، اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس طرح کی بہت سی فلمیں تجارتی نقطۂ نظر سے کافی کامیاب بھی رہی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ انسان اپنی فطرت میں برائی کی طرف زیادہ جلدی راغب ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سنیما کے منفی پہلوئوں کو ہمارے معاشرے میں زیادہ کامیابی ملتی ہے۔
 جن دنوں ہندوستان میں سنیما بتدریج ترقی کی طرف گامزن تھا، اس وقت ہمارے ملک کا ماحول مختلف تھا۔ برٹش حکومت کا شکنجہ پوری طرح ہمارے معاشرے کو جکڑے ہوئے تھا اور آزادی کے متوالے اپنی تمام تر قوت کے ساتھ آزادی کی تحریک کو آگے بڑھا رہے تھے۔ اس زمانے میں ہمارا سب سے بڑا قومی مسئلہ تھا ملک کی آزادی اور اس سے جڑی ہوئی تھی ہماری قومی ایکتا لہٰذا انگریزی حکومت کی مختلف قسم کی پابندیوں اور ظلم و ستم کے باوجود کئی لوگوں نے ہمت کرکے تحریک آزادی کے موضوع پر فلمیں بنائیں۔ اُن پر پابندی بھی لگی۔ کچھ لوگوں نے سیدھے طور پر تحریک آزادی کو موضوع نہ بناکر قومی اتحاد، ہندو مسلم بھائی چارہ، اونچ نیچ، سماجی بھید بھائو اور کچھ تاریخی موضوعات کو اس طرح پیش کیا جس سے عوام میں اتحاد قائم ہو اور تحریکِ آزادی کا پیغام بھی لوگوں تک پہنچ جائے لہٰذا ۱۹۲۲ء میں برٹش حکومت نے پریس سنسرشپ قائم کیا اور فلموں کو بھی اس قانون کے تحت پابند کر دیا۔
 فیچر فلم ایک ایسا میڈیم ہے جو دیکھنے والے کے مزاج، طبع اور اس کی نفسیات پر براہ راست اثر ڈالتا ہے۔ اس کے اثرات کی گہرائی اور گیرائی کہاں تک ہے؟ اس کا دار و مدار ہر انسان کی اپنی ذہنی اور دماغی کیفیت پر ہے، لیکن اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ جس ملک اور جس خطے میں فلموں میںجیسے رجحانات کی عکاسی کی جائے گی، وہاں کے کلچر اور تہذیبی اقدار پر بھی ویسے ہی اثرات مرتب ہوں گے۔ فلم جیسے ذرائع ابلاغ کا رول اس لحاظ سے دوسرے میڈیا سے زیادہ موثر اور ہمہ گیر ہے کہ یہ ڈھائی تین گھنٹے تک تماشائی کو مصروف رکھتا ہے اور ہمہ تن گوش اور ہمہ تن چشم ہوکر اپنے بنائے ہوئے جال میں الجھائے رکھتا ہے۔
 اِس صورت حال کا انتہائی خطرناک پہلو یہ ہے کہ آج کل فلموں میں تشدد، مار  دھاڑ، قتل و غارت گری اور عریانیت کو نہ صرف کہانی کا موضوع بنایا جا رہا ہے بلکہ اسی قسم کے جرائم کی وارداتوں کو فلم میں لمحہ بہ لمحہ اس انداز سے دکھایا جا رہا ہے کہ کوئی بھی انسان اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ  بڑے بڑے صنعتی لحاظ سے ترقی یافتہ ملکوں میں تشدد، جرائم اور عریانیت کے رجحانات افسوسناک حد تک تیز رفتاری سے بڑھ رہے ہیں اور اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ ان رجحانات سے نوجوان طبقہ بلکہ کم عمر طبقہ اس سے زیادہ سے زیادہ اثر لے رہا ہے اور اس طرح ان ممالک کی ثقافت اور تہذیب میں تشدد، جرائم اور عریانی کا رجحان رچ بس رہا ہے۔ ہمارے یہاں بھی آزادی سے قبل بہت کم فلمساز تھے مگر ان میں معاشرے کے تئیں ایک ذمہ داری تھی، ایک جذبہ تھا کہ ہم ایسی فلمیں بنائیں جن میں اصلاح معاشرہ کیلئے کوئی پیغام ہونا چاہئے، چاہے ہماری فلم پر لگائی رقم ہی کیوں نہ ڈوب جائے۔ اب یہ کمٹ منٹ بدل گیا ہے۔ آج کا فلمساز صرف اپنا منافع دیکھتا ہے۔ چاہے اس کے بدلے میں معاشرے میں غلاظت کے ڈھیر ہی کیوں نہ لگ جائیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK