• Sun, 23 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

عرفان خان اداکاری نہیں کرتے تھےبلکہ وہ کرداروں کو زندہ کردیتے تھے

Updated: November 23, 2025, 4:39 PM IST | Anees Amrohvi | Mumbai

ان کی اداکاری کا خاص انداز تھا جس کی وجہ سےان کی الگ شناخت بن گئی تھی،بالی ووڈ کے ساتھ ہی انہوں نے ہالی ووڈکی فلموں میں بھی کام کیا اورشہرت حاصل کی۔

Irrfan Khan. Picture: INN
عرفان خان۔ تصویر:آئی این این
بالی ووڈاداکار عرفان خان کا پورا نام عرفان علی خان تھا۔ ۷؍جنوری ۱۹۶۷ء کو صوبہ راجستھان میں ضلع ٹونک کے ایک گائوں کھجوریہ میں انہوں نے آنکھیں کھولی تھیں۔ اُن کے والد کا نام یاسین علی خان تھا اور اُن کا تعلق زمیندار خاندان سے تھا اور اُن کی والدہ کا تعلق ایک راج گھرانے سے تھا۔ اسکول کے زمانے ہی سے عرفان خان بہت شرمیلے مزاج کے تھے۔ اس کی وجہ سے کلاس میں اکثر اُنہیں ٹیچر سے ڈانٹ بھی سننے کو ملتی تھی، کیونکہ کلاس میں اُن سے کچھ بھی پوچھنے پر وہ اپنے شرمیلے مزاج کی وجہ سے کوئی جواب نہیں دے پاتے تھے۔ نوجوانی کے دِنوں میں اُن کی زِندگی کافی جدوجہد والی رہی۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ وہ ایئر کنڈیشن کی مرمت کا کام بھی سیکھا کرتے تھے اور چھوٹے بچوں کو ٹیوشن بھی دیا کرتے تھے۔ بچپن میں کرکٹ سے اُن کو بہت محبت تھی، جس کی وجہ سے وہ اطراف میں ہونے والے کرکٹ مقابلوں میں حصہ لیا کرتے تھے۔ کرکٹ کا ایک بہترین کھلاڑی ہونے کی وجہ سے اُن کا انتخاب سی کے نائیڈو ٹورنامنٹ میں بھی ہوا تھا مگر نامعلوم وجوہات کی بنا پر وہ اُس ٹورنامنٹ میں کھیل نہیں پائے تھے۔
ابھی وہ کالج میں زیر تعلیم ہی تھے کہ اُن کا رجحان اداکاری کی طرف ہو گیا اور اُنہوں نے اپنی اس صلاحیت کو پہچان کر اُس میں مزید نکھار پیدا کرنے کیلئے دہلی کے نیشنل اسکول آف ڈراما میں ۱۹۸۴ء میں داخلہ لے لیا۔این ایس ڈی میں پڑھائی کے دَوران اُن کی دوستی اپنی ہی کلاس میں ساتھ پڑھنے والی ایک لڑکی سُتاپا سکدر سے ہو گئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ دوستی محبت میں تبدیل ہو گی تھی اور بعد میں دونوں نے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا لیکن اِس شادی کیلئے اِن دونوں کے درمیان کچھ مشکلات سامنے آئیں کیونکہ ستاپا ایک براہمن خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ لیکن عرفان نے سارے رسم و رواج کو بالائے طاق رکھ کر فروری ۱۹۹۵ء میں مکالمہ نویس سُتاپا سکدر سے شادی کر لی۔ اُن کے دو بیٹے، ایان خان اور بابیل خان  ہیں۔
ممبئی میں قیام کے دَوران اُنہوں نے بطور اداکار بالی ووڈ میں کام تلاش کیا اور بہت سے فلمساز اور ہدایتکاروں کے چکر لگائے۔ اُن کے کریئر کے ابتدائی دِن بہت مشقت بھرے ثابت ہوئے کیونکہ اداکاری کیلئے سیدھے فلموں میں داخل ہونا اِتنا آسان نہیں تھا۔۱۹۸۸ء میں سب سے پہلے اُنہوں نے ہدایت کار میرا نائر کی فلم ’سلام بامبے‘ کے ذریعہ بالی ووڈ میں اپنے فلمی سفر کی شروعات کی تھی۔ اِس فلم میں انہوں نے خط لکھنے والے لڑکے کا ایک چھوٹا سا کردار ادا کیا تھا۔ فلموں میں کام کی تلاش کرنے کے دَوران اُنہوں نے دُوردرشن کے کئی سیریلوں میں اداکاری کی تھی۔ شیام بینیگل کی ہدایت میں بننے والے سیریل ’بھارت ایک کھوج‘ کے علاوہ عرفان نے ’بنے گی اپنی بات، انوگونج، سارا جہاں ہمارا، چندرکانتا اوراسٹار بیسٹ سیلرز‘ جیسے سیریلوںمیں کام کرکے خوب شہرت حاصل کی تھی۔
’سلام بامبے‘ کے بعد انہوں نے بہت سی فلموں میں چھوٹے چھوٹے کردار ادا کیے، جیسے ’کملا کی موت (۱۹۸۹ء)، مجھ سے دوستی کروگے (۱۹۹۲ء)، ایک ڈاکٹر کی موت (۱۹۹۰ء)، وعدے ارادے (۱۹۹۴ء)،بڑا دن (۱۹۹۸ء)، دی گول (۱۹۹۹ء)، قصور (۲۰۰۱ء) اورکالی شلوار (۲۰۰۲ء)۔‘ مگر ابھی بھی انہیں وہ شناخت حاصل نہیں ہو سکی تھی، جووہ چاہتے تھے۔
اس کے بعد۲۰۰۳ء میں فلمساز تگمانشو دھولیہ کی فلم ’حاصل‘ میں ایک منفی کردارمیں عرفان خان کو بہت کامیابی ملی تھی۔ اِس فلم میں ان کے علاوہ جمی شیرگل، ہریشیتا بھٹ، راجپال یادو، آشوتوش رانا اور سدھیر پانڈے نے بھی اداکاری کی تھی۔ اس کیلئے عرفان خان کو ۲۰۰۳ء کا منفی کردار میں بیسٹ ایکٹر کا فلم فیئر ایوارڈ بھی پیش کیا گیا۔  ۲۰۰۵ء میں ریلیز ہوئی فلم ’روگ‘ میں اُنہیں ایک پولیس آفیسر کا بڑا کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔ حالانکہ یہ فلم مالی لحاظ سے باکس آفس پر زیادہ کامیاب ثابت نہیں ہوئی مگر اِس فلم کے بعد عرفان  نے اپنی اداکاری سے ایک الگ شناخت قائم  کرلی۔بالی ووڈ کے ساتھ ہی ہالی ووڈ میں بھی اُنہوں نے کئی فلموں میں کام کرتے ہوئے شہرت حاصل کی۔ ۲۰۰۷ء میں ہالی ووڈ کی فلم ’اے مائٹی ہارٹ‘ میں انہوں سب سے پہلے کام کیا تھا۔ ۲۰۰۱ء میں برٹش کی ایک فلم ’دی واریئر‘ میں بھی اداکاری کی تھی۔ وہ دراصل اداکاری نہیں کرتے تھے بلکہ کردار کو زندہ کردیتے تھے۔
۲۰۱۳ء میں ریلیز ہوئی فلم ’پان سنگھ تومر‘ میں ماہی گل، وپن شرما اور نواز الدین صدیقی کے ساتھ عرفان خان نے ٹائٹل کردار ادا کیا تھا۔ تگمانشوو دھولیہ کی ہدایت میں بننے والی اِس فلم کی شوٹنگ دھولپور میں چنبل کی گھاٹیوں کے بیچ کی گئی تھی۔ فلم ’پان سنگھ تومر‘ میں اپنے کردار کو بہترین طریقے سے ادا کرنے کیلئے عرفان  نے ’اسٹیپل چیز کوچ‘ کے ذریعہ بہت محنت کے ساتھ تجربہ حاصل کیا تھا۔ یہاں تک کہ فلم بندی کے دَوران ایک موقع پر اُن کا ٹخنا بھی ٹوٹ گیا تھا۔ خود عرفان  کے مطابق جسمانی اور ذہنی طور پر یہ فلم اُن کے کریئر کی سب سے زیادہ مشکل فلم رہی۔ اس فلم میں عرفان کی بہترین اداکاری کو فلم شائقین نے بہت پسند کیا اور اُنہیں کئی انعامات سے بھی نوازا گیا۔ فلم ’پان سنگھ تومر‘ کیلئے  انہیں بہترین اداکار کا قومی ایوارڈ بھی پیش کیا گیا تھا۔ اُسی سال عرفان کی منفرد اداکاری میں ایک اور فلم ’دی لنچ باکس‘ نمائش کیلئے پیش کی گئی تھی، جس کے ہدایت کار اور کہانی کار رتیش بترا تھے۔ اس فلم کی کہانی دو ایسے لوگوں کی ہے جو ایک دُوسرے سے کبھی نہیں ملتے لیکن پھر بھی ایک دوسرے کو پسند کرنے لگتے ہیں۔ ممبئی کی شہ رگ کہے جانے والے ڈبہ والے کی ایک غلطی سے عرفان اور اُن کی ہیرئون نِمرت کور ایک دوسرے کے قریب آجاتے ہیں۔  اس فلم میں دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ کردار عرفان کے علاوہ کوئی اور کر ہی نہیں سکتا تھا۔ اس فلم کے بعد انہوں نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا تھا کہبہترین اداکاری سے کوئی بھی فلم مکمل کی جاسکتی ہے۔ عرفان  کے علاوہ نمرت کور، نوازالدین صدیقی، نکل وید اور بھارتی اچریکر کی اداکاری سے سجی اِس فلم کو قومی انعامات کے علاوہ کئی بین الاقوامی انعامات سے بھی نوازا گیا تھا۔اپنے ۳۰؍سالہ فلمی کریئر میں عرفان کو کئی قومی اور بین الاقوامی انعامات ملے۔  فلم ’حاصل‘اور ’پان سنگھ تومر‘ کے علاوہ ۲۰۰۸ء کی فلم ’میٹرو‘ کیلئے  انہیں فلم فیئر کا بیسٹ سپورٹنگ ایکٹر کا ایوارڈ پیش کیا گیا۔  ۲۰۱۱ء میںانہیں پدم شری کے اعزاز سے بھی نوازا جا چکا ہے۔
عرفان خان کو جانوروں سے بہت محبت تھی۔ وہ اکثر اپنے پالتو کتے کے ساتھ وقت گزارا کرتے تھے۔ ایک انٹرویو کے دَوران عرفان خان نے جانوروں کیلئے اپنی محبت کو اِن الفاظ میں ظاہر کیا تھا.... ’’جب بھی والد صاحب شکار پر جاتے تھے تو ہمیشہ ہمیں ساتھ لے جایا کرتے تھے۔ ہمارے لئے یہ ایک بہادری کا کام تھا لیکن جب کبھی میں اپنی بہن یا چھوٹے بھائی کے ساتھ شکار پر جایا کرتا تھا تب وہ بہت دردناک ہوا کرتا تھا کیونکہ ہم نے جنگل کے مخصوص ماحول کا مزہ لیا اور ایک الگ ہی ماحول میں وقت گزاری کی لیکن آخرکار جب ایک جنگلی جانور میرے ہاتھوں مارا جاتا تھا تو ہم تصور کیا کرتے تھے کہ اب اس جانور کی موت کے بعد اُس کے خاندان کا کیا ہوگا؟ اس کی ماں پر کیا گزرے گی؟ ہم جانوروں کے ساتھ ایک جذباتی رشتہ پیدا کرتے تھے۔‘‘
عرفان خان ہندوستانی فلمی دنیا کے پہلے ایسے اداکار تھے جنہیں  ڈرامائی فلم ’سلم ڈاگ ملینئر‘ (۲۰۰۸ء) اور ’لائف آف پائی‘ (۲۰۱۲ء) کیلئے اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ حالانکہ ’سلم ڈاگ ملینئر‘ میں عرفان خان کے کردار کیلئے پہلے گلشن گرووَر کا انتخاب کیا گیا تھا۔بالی ووڈ میں اُن کی آخری فلم ’انگریزی میڈیم‘ پردے پر ۲۰۲۰ء میں نمائش کیلئے پیش کی گئی تھی جس میں انہوں نے اپنی بہترین اور منفرد اداکاری کرکے فلم شائقین سے خوب شہرت حاصل کی تھی۔ اس فلم کیلئے بھی انہوں نے فلم فیئر کا بیسٹ ایکٹر کا ایوارڈ حاصل کیا۔
۱۶؍مارچ ۲۰۱۸ء کو عرفان خان نے اپنے ٹویٹر اکائونٹ کے ذریعہ اس بات کا خلاصہ کیا تھا کہ وہ ٹیومر کی ایک لاعلاج بیماری میں مبتلا ہیں۔ اُن کی بیماری کی خبر سن کر بالی ووڈ میں اُن کے چاہنے والوں کو جیسے صدمہ ہو گیا ہو۔ اپنی بیماری کے علاج کے سلسلے میں عرفان کو بیرون ممالک بھی کئی جگہ جانا پڑتا تھا۔ اسی بیماری کے تحت ۲۰؍اپریل ۲۰۲۰ء کو ممبئی کے کوکلابین اسپتال میں داخل وہ اپنے شائقین اور اس فانی دُنیا کو الوداع کہہ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ عرفان خان آج بھلے ہی ہمارے درمیان نہ ہوں، مگر وہ اپنی بے مثال اور اعلیٰ اداکاری کی وجہ سے ہمیشہ عوام کے ذہنوں اور دلوں میں روشن رہیں گے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK