Inquilab Logo

’’یہاں لوگ مدد کرتے ہیں، کام بھی سکھاتےہیں لیکن آگے کا راستہ ہمیں خود بنانا ہوتا ہے‘‘

Updated: December 10, 2023, 12:15 PM IST | Abdul Karim Qasim Ali | Mumbai

ٹی وی شوز کے ہدایتکار اسماعیل عمرخان کا کہنا ہے کہ میں نے اپنے کریئر کا آغاز اداکاری سے کیا تھا لیکن قسمت نے ساتھ دیا تو ہدایت کاری میں نام کمایا اور کئی کامیاب شوز کئے۔

Ismail Umar Khan, the successful director of Bannu Mein Teri Dilhan. Photo: INN
’ بنوں میں تیری دلہن‘ کے کامیاب ہدایت کار اسماعیل عمر خان۔ تصویر : آئی این این

ٹی وی انڈسٹری کے معروف ہدایتکار اسماعیل عمر خان کا تعلق ممبئی ہی سے ہے۔ انہو ں نے کئی مشہور شوز کی ہدایتکاری کی ہے۔ وہ ۱۹۹۵ء سے اس شعبے میں مصروف ہیں۔ انہوں نے ۲۰۰۲ء میں نشر کئے جانے والے شو ’کبھی سوتن کبھی سہیلی ‘ سے آزادانہ طورپر ہدایتکاری شروع کی تھی اور پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ انہوں نے تنالی رامن، ایڈوینچرآف حاتم، رنگ جاؤں تیرے رنگ میں ، پیا رنگریز ، ست رنگی سسرال، بابا ایشور ڈھونڈو، سپنا بابل کا بدائی اور بنوں میں تیری دلہن جیسے کامیاب شوز کے ساتھ ہی دیگر ٹی وی ڈیلی سوپس کی بھی ہدایتکاری کی ہے۔ اسماعیل عمر خان کو لکھنے کا بھی شوق ہے اور ان کا ا پنا یوٹیوب چینل بھی ہے۔ انقلاب نے ان سے گفتگو کی جسے یہاں پیش کیا جارہا ہے:
اس انڈسٹری سے وابستگی کس طرح ممکن ہوئی؟
 ج:میں بچپن ہی سے فلموں کا شوقین رہا ہوں ۔ میں نے اپنے پسندیدہ اداکار امیتابھ بچن کی تقریباً سبھی فلمیں دیکھی ہیں ۔ اُس وقت صرف دوردرشن کے چینل ہوا کرتے تھے، اسلئے تفریح کیلئے فلموں کا ہی واحد سہارا تھا۔ والدہ کو جتیندر کی فلمیں پسند تھیں جوکہ مزاحیہ ہوا کرتی تھیں لیکن ہم ایکشن فلموں میں دلچسپی رکھتے تھے، اسلئے امیتابھ کی فلمیں دیکھا کرتے تھے۔ دوسری بات یہ کہ ہماری کھار اور سانتاکروز اسٹیشن پربُکس کی دکان تھی، اسلئے جب بھی میں دکان پر رہتا تو اُس وقت فلموں کی میگزین کا مطالعہ کیا کرتا تھا۔ اسٹارس کی کہانیاں پڑھ کر میرے اندر بھی اس شعبے سے وابستہ ہونے کا شوق پیدا ہوگیا۔بُک اسٹالس پر بھی کبھی کبھار اسٹارس آجایا کرتے تھے جس سے شوق میں مزید اضافہ ہوا۔ہمارے ایک چاچا تھیٹر میں پروجیکشن ڈپارٹمنٹ میں چیف آپریٹر ہوا کرتے تھے،اسلئے جب بھی ہماری تعطیل ہوتی ہم ان کے ہاں پہنچ جاتے اورفلمیں دیکھا کرتے تھے۔ اسی وقت ہم نے فیصلہ کرلیاتھا کہ مجھے بھی اداکار بننا ہے۔ میں نے ۱۹۹۱ء میں اداکاری کی ٹریننگ بھی لی تھی ۔ اس دوران شکتی مان کی شوٹنگ جاری تھی۔ اس شو میں ایک کردار نے شو کو الوداع کہہ دیا تھا۔اس کے فلمساز نے وہ رول مجھے دے دیا۔ میں اس شو کا اسسٹنٹ ڈائریکٹر بھی تھا۔ شوٹنگ کے پہلے دن مجھے پکنک جیسا معلوم ہوا اور میں اس شو سے وابستہ ہونےکے بعد ہدایتکاری کی طرف متوجہ ہوا۔ اس طرح میری انڈسٹری سے وابستگی ممکن ہوئی۔ 
آپ کیلئے کتنا مشکل تھا اس شعبے میں جگہ بنانا ؟
 ج:میں مالی طورپرٹھیک ٹھاک تھا۔ مطلب یہ کہ مجھے فاقہ کرنے کی نوبت نہیں آئی تھی۔ میں نے اس طرح کی جدوجہد نہیں کی تھی۔ مجھے صرف کام کیلئے مختلف پروڈکشن ہاؤس کے دروازوں پر جانا پڑتا تھا۔ میں ممبئی سے تھا، اسلئے مجھے اسٹیشن پر بھی سونے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ میں نے پہلے ایکٹنگ کیلئے کوشش کی تھی۔اس کیلئے میرے ایک فوٹوگرافر دوست تھے جنہوں نے میری تصاویر بنوائی تھی اوراسے مختلف پروڈکشن ہاؤس کے پاس دے رکھا تھا۔ میں اس وقت اتنا اچھا نظر نہیں آتا تھا کیونکہ دُبلا پتلا تھا۔ شکتی مان میں میرا کام دیکھنے کے بعد میرے کام کی تعریف ہوئی۔اس کے بعد مجھے ایک شو میں سیکنڈ یونٹ کی پیشکش کی گئی۔ اس وقت میں معاون کی حیثیت سے کام کرنے کی کوشش کررہا تھا لیکن خدا نے مجھے آلٹ بالا جی کا شو دِلوا دیا۔ میں نے ۲۰۰۱ء میں آزادانہ طورپرپہلے شو کی ہدایتکاری کی جس کا نام کبھی سوتن کبھی سہیلی تھا۔ اس کی کامیابی کے بعد مجھے شوز ملتے گئے۔ میں ایک بات یہاں ضرور کہنا چاہوں گاکہ یہاں آپ کو سبھی سپورٹ کریں گے، آپ کو کام بھی سکھائیں گے اور رہنمائی بھی کریں گے لیکن آگے کی منزل طے کرنے کیلئے آپ کو خود ہی راستہ بنانا ہوگا۔ بہرحال مجھےیکے بعد دیگرے شوز ملتے گئے اور میں مصروف ہوتا گیا۔
 کس شو کی وجہ سے آپ کو زیادہ شہرت ملی؟
 ج: میں اس معاملے میں بہت خوش قسمت رہا ہوں ۔ میں نے جتنے شوز کی بھی ہدایتکاری کی وہ سبھی کامیاب رہے ہیں جس کی وجہ سے میری شہرت میں اضافہ ہوا۔میرا ایک شو تھا ایڈوینچر آف حاتم۔ اس کی ہدایتکاری کا موقع مجھے ملا تھا لیکن اس کی وجہ سے اتنی شہرت نہیں ملی تھی کیونکہ اس شو کو میرے ساتھ ایک اور ہدایتکار ڈائریکٹ کررہے تھے۔ حاتم سے فارغ ہونے کے بعد مجھے پرتھوی راج چوہان ملا، اس میں بھی ہدایتکاری کے فرائض انجام دئیے، لیکن زیادہ فائدہ نہیں ہوا۔ اس دوران میں نے چند ڈیلی سوپس کا ڈائریکشن بھی کیا۔ انڈسٹری میں میرے ایک جاننے والے تھے،انہوں کہ بتایا کہ ایک پروڈکشن ہاؤس کا ڈائریکٹر اچانک نہیں آرہا ہے، اسلئے میں وہاں بات کروں ۔ وہاں کے فلمساز نے مجھ سے کہاکہ میں ۵؍ روز تک اس شو کی ہدایتکاری کروں ، اس کے بعد پرانا ڈائریکٹر آجائے گا۔ قسمت دیکھئے کہ میں صرف ۵؍ روز کیلئے گیا تھااور پورے ۴۰۰؍ایپی سوڈ کرنے کے بعد وہاں سے فارغ ہوا۔ اس شو کا نام ’دلہن بنوں میں تیری‘ تھا۔ جس وقت مجھے اس کی ذمہ داری دی گئی تھی اس وقت اس کی ریٹنگ اچھی نہیں تھی لیکن میری ہدایتکاری میں یہ شو ٹاپ شوز کی فہرست میں شامل ہوگیا۔ دلہن بنوں میں تیری کی وجہ سے کافی شہرت ملی۔اس کے بعد میرے انٹرویوز بھی شائع ہونے شروع ہوگئے۔ میرے کریئر کی اچھی بات یہ رہی کہ میں نے نوجوانوں کے ساتھ ہی تجربہ کاراداکاروں کے ساتھ بھی کام کیاہے۔ بہرحال اس شو کی وجہ سے میری شہرت میں کافی اضافہ ہوا۔
او ٹی ٹی کے آنے سے ہدایتکاروں کیلئے چیلنج کتنا بڑھ گیا ہے؟
 ج: ویب شوز کے آنے کے بعدیہ فکر ہورہی تھی کہ مجھے کوئی موقع دے گا یا نہیں ۔ پہلے نیٹ فلکس آیا، اس کے بعد امیزون کا داخلہ ہندوستانی مارکیٹ میں ہوا۔ ان کے بعد ویب شوز دکھانے والے اوٹی ٹی پلیٹ فارمس کا ایک سیلاب سا آگیا۔ میں آپ کو ایک چھوٹی سی مثال دیتاہوں کہ پہلے کپڑے اور جوتے ہی آن لائن فروخت ہوتے تھے، اب ہر چیز آن لائن دستیاب ہے۔ آف لائن کا بیشتر مارکیٹ اب آن لائن منتقل ہوگیاہے۔ میں بھی یہی سوچ رہا تھا کہ اگر ٹی وی شوز نہیں ہوں گے تو ہماراکیا ہوگا، کیونکہ اوٹی ٹی پلیٹ فارمس پر ہماری اتنی شہرت نہیں ہے، اسلئے میں نے آن لائن پر ریسرچ کرنی شروع کردی تھی۔ میں مسلسل ویڈیوز دیکھا کرتے تھا تو معلوم ہواکہ او ٹی ٹی پر گالی گلوچ اور فحاشی کو دکھایا جارہا ہے۔ میں نے سوچا کہ مجھے اس طرف نہیں جانا ہے اور اس طرح کے شوزکیلئے کام نہیں کرنا ہے۔ اس دوران میں نے اپنا ایک یوٹیوب چینل شروع کیا اور اس کیلئے ایک کامیڈی شوبنایا۔ میں نے اسے بڑے پیمانے پر بنایا تھا اور ایک صاحب کے مشورے پر زی ۵؍کودے دیا۔ میرا یہ شو’ زی ۵؍‘ پر ۲۰۲۰ء میں پیش کیا گیا تھا۔ چیلنج تو بہت ہیں اوران سے ہمیں ہی نمٹنا ہوتاہے کیونکہ میں نے پہلے ہی کہا ہے کہ کوئی بھی شخص آپ کی مدد نہیں کرے گا بلکہ آپ کو اپنا راستہ خود ہی تلاش کرنا ہوگا۔
ہدایتکار کیلئے سب سے چیلنج کیا ہوتاہے ؟
 ج: ایک ہدایتکار کو بہت سے چیلنجوں کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ پوری یونٹ کا خیال رکھتاہے اور اسے ہی پورے پروجیکٹ پر توجہ مرکوز کرنی ہوتی ہے۔ یہ تو یونٹ کےانتظام کی بات ہوئی، دوسری طرف ہدایتکار کو ایک کہانی کو بہتر انداز میں شائقین کے سامنے پیش کرنے کا سب سے بڑا چیلنج ہوتاہے۔ کبھی کبھار تجربہ کار ہدایتکار بھی اس میں دھوکہ کھاجاتاہے۔ ان کے سرپر ایک تلوار لٹکتی ہے۔ ایک غلطی ہوئی کہ سر پر وہ گر جاتی ہے۔ مثال کے طورپر رام گوپال ورما نے ’مافیا‘ کے موضوع پر بہت سی فلمیں بنائیں لیکن بعد میں انہوں نے کچھ تجربات کئے جس سے وہ ناکام ہوگئے۔ ڈیوڈ دھون کی شروعات کی فلمیں دیکھیں جن میں انہیں زیادہ کامیابی نہیں ملی لیکن انہوں نے کامیڈی فلمیں بنانی شروع کیں تو وہ کامیاب ہوگئے۔ انہیں ایک فارمولا مل گیا تھا۔ آج کے دور کی بات کریں تو روہت شیٹی کا نام قابل ذکر ہے، جنہوں نے کامیڈی کے ساتھ ساتھ ایکشن کو بھی شامل کیا اور ان کا یہ فارمولا ہٹ ہوگیا۔ میرے خیال میں ایک پروجیکٹ میں سب سے زیادہ پریشانی ہدایتکار کو ہی ہوتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK