• Wed, 19 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ہارورڈ یونیورسٹی میں اسرائیل کا ’’خفیہ آرکائیو‘‘: رپورٹ

Updated: November 18, 2025, 2:58 PM IST | Washington

اسرائیلی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ہارورڈ یونیورسٹی میں ایک خفیہ آرکائیو موجود ہے جو اسرائیل کی پوری ثقافتی، سماجی اور سائنسی میراث کو محفوظ کرنے کیلئے قائم کیا گیا ہے۔ یہ اس مفروضے کے تحت ہے کہ اگر کبھی اسرائیل کا وجود ختم ہو جائے تو اس کی تہذیب و ثقافت محفوظ رہے۔

Picture: INN
تصویر:آئی این این

اسرائیلی اخبار ہاریٹز کی رپورٹ کے مطابق ہارورڈ یونیورسٹی میں ایک خفیہ زیرِ زمین آرکائیو قائم ہے جس کا مقصد اسرائیل کی تمام ثقافتی، ادبی، مذہبی اور سائنسی پیداوار کو محفوظ رکھنا ہے تاکہ اگر کبھی ریاست اپنے وجود سے محروم ہو جائے تو اس کا تاریخی ورثہ بچا رہے۔ رپورٹ کا عنوان تھا ’’ایک خفیہ ہارورڈ سائٹ: اگر اسرائیل ختم ہو جائے تو اس کی وسیع یادداشت محفوظ۔‘‘ اس آرکائیو میں دسیوں ہزار جلدیں، سماجی و ثقافتی دستاویزات، سیناگوگ کے پمفلٹس، کبٹز نیوز لیٹرز، فوجی یادگاری کتابچے، سیاسی مہمات کا مواد، آڈیو وڈیو ریکارڈنگز اور لاکھوں تصاویر محفوظ ہیں۔ تمام مواد منظم طریقے سے کیٹلاگ کر کے بڑے زیرِ زمین ہالز میں رکھا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھئے:کیا الیکشن کمیشن نے بہار ایس آئی آر سے سبق سیکھا ہے؟

اسرائیلی شاعر ہیم بیئر جو ۱۹۹۰ء کی دہائی کے آخر میں اس سائٹ کا دورہ کر چکے ہیں، نے اسے ’’اسرائیلی ثقافت کا مکمل بیک اپ‘‘ قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ عمارت باہر سے یونانی مندر جیسی نظر آتی ہے جبکہ اندر ایک بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے جہاں عملہ مسلسل دستاویزات کو ڈیجیٹلائز کررہا ہے اور ترتیب دے رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس منصوبے کی قیادت ۱۹۶۰ء کی دہائی میں یہودی اسکالر چارلس برلن نے کی، جن کے قائم کردہ ڈویژن کے پاس اب اندازاً ۱۰؍ لاکھ آرکائیول آئٹمز موجود ہیں۔ چونکہ یہ ذخیرہ اسرائیلی حکومتی اداروں سے مکمل طور پر آزاد ہے، اس لئے اسے قومی بحرانوں کے دوران زیادہ محفوظ سمجھا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: امریکہ: کالجوں میں بین الاقوامی طلبہ کے نئے اندراجات میں ۱۷؍ فیصد کمی

سابق اسرائیلی اسٹیٹ آرکائیوسٹ موشے موسک نے اعتراف کیا کہ انہوں نے اس منصوبے پر تحفظات کے باعث اپنے حساس ذخیرے ہارورڈ کے ساتھ شیئر کرنے سے انکار کر دیا جبکہ کچھ ناقدین نے برلن پر اسرائیل کے مستقبل کے بارے میں ’’غیر ضروری بدگمانی‘‘ کا الزام بھی لگایا۔ تاہم حامیوں کے مطابق اس منصوبے کیلئے کسی تباہی کے ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اسرائیل میں محفوظ شدہ دستاویزات خود بھی آگ، سیلاب اور ناقص ذخیرہ اندوزی سے خطرات کا شکار ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی نے اب تک اس رپورٹ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK