ہندوستانی سینما میں کچھ چہرے ایسے ہوتے ہیں جو محض اسکرین پر نہیں چلتے، بلکہ اپنے ساتھ ایک مخصوص مزاج، ایک الگ قسم کی خاموش طاقت اور ایک ضدی وقار لے کر آتے ہیں۔
جان ابراہم نے ایکشن ہی نہیں سنجیدہ کردار بھی ادا کئے۔ تصویر: آئی این این
ہندوستانی سینما میں کچھ چہرے ایسے ہوتے ہیں جو محض اسکرین پر نہیں چلتے، بلکہ اپنے ساتھ ایک مخصوص مزاج، ایک الگ قسم کی خاموش طاقت اور ایک ضدی وقار لے کر آتے ہیں۔ جان ابراہم انہی میں سے ایک ہیں۔ وہ اداکار جنہوں نے اپنے قد، جسامت اور وجاہت سے کہیں آگے بڑھ کر خود کو ایک سنجیدہ، خطرہ مول لینے والے اور سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے والے فنکار کے طور پر منوایا ہے۔ جان ابراہم کی زندگی اور فلمی سفر دراصل ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو ہجوم کا حصہ بننے کے بجائے اپنا راستہ خود بناتا ہے۔
جان ابراہم ۱۷؍ دسمبر۱۹۷۲ءکوممبئی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کیرالہ کے شامی عیسائی خاندان سے تعلق رکھتے تھے، جبکہ والدہ ایرانی نژاد تھیں۔یہی وجہ ہے کہ جان کی شخصیت میں ایک طرف جنوبی ہندوستان کی سنجیدگی ہے تو دوسری طرف ایرانی تہذیب کی نفاست۔انہوں نے بامبے اسکاٹش اسکول سے تعلیم حاصل کی اور بعد ازاں جئے ہند کالج سے اکنامکس میں گریجویشن کیا۔ تعلیم کے بعد جان نےایم بی اے بھی کیا اور کچھ عرصہ میڈیا پلاننگ اور ایڈورٹائزنگ کے شعبے میں کام کیا۔ یہ وہ مرحلہ تھا جہاں انہوں نے مارکیٹ، عوامی نفسیات اور پیشکش کی اہمیت کو قریب سے سمجھاایک ایسی سمجھ بوجھ جو بعد میں بطور فلم پروڈیوسر ان کے کام آئی۔
جان ابراہم کا فلمی دنیا میں داخلہ روایتی نہیں تھا۔ انہوں نے پہلے ماڈلنگ کے میدان میں نام بنایا اور ۱۹۹۹ءمیں گلیڈر مسٹر انڈیا کا خطاب جیتا۔ ان کا قد، جسمانی ساخت اور پُراعتماد انداز فوراً ہی فیشن انڈسٹری کی توجہ کا مرکز بن گیا۔مگر جان نے خود کو محض ایک خوبصورت چہرے تک محدود رکھنے کے بجائے اداکاری کی باریکیوں پر کام کیا۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی فلمی انٹری بھی ایک سنجیدہ موضوع کے ساتھ ہوئی۔
۲۰۰۳ءمیں ریلیز ہونے والی فلم ’جسم‘جان ابراہم کےکریئر کا پہلا بڑا موڑ ثابت ہوئی۔ یہ فلم محض اپنی جرات مندانہ کہانی کے لیے نہیں، بلکہ جان کی پُر اسرار اور خاموش اداکاری کے لیے بھی یاد رکھی جاتی ہے۔انہوں نے ثابت کیا کہ وہ صرف جسمانی موجودگی نہیں رکھتے بلکہ اسکرین پر کشش پیدا کرنا بھی جانتے ہیں۔
۲۰۰۴ءمیں ’دھوم‘نے انہیں عوامی سطح پر ایک نیا مقام دیا۔ ایک منفی کردار کو اسٹائل، وقار اور یادگار انداز میں پیش کرنا آسان نہیں ہوتا، مگر جان نے کبیر کا کردار ادا کر کے ثابت کیا کہ ویلن بھی فلم کا ہیرو بن سکتاہے۔ یہی کردار آج بھی ان کے کریئر کی پہچان میں شمار ہوتا ہے۔جان ابراہم نے کبھی محفوظ راستے کا انتخاب نہیں کیا۔ ’واٹر‘جیسی فلم میں انہوں نے سماجی جبر اور مذہبی منافقت پر مبنی کہانی کا حصہ بن کر بین الاقوامی سطح پر داد حاصل کی۔اسی طرح ’نو اسموکنگ‘،’مدراس کیفے‘ اور’رومیو اکبر والٹر‘ جیسی فلموں میں انہوں نے ایسے کردار ادا کیے جو عام بالی ووڈ ہیرو کی تعریف میں نہیں آتے۔ یہ فلمیں باکس آفس پر ہمیشہ کامیاب نہ ہوئیں، مگر جان کی اداکاری اور انتخاب کی جرات نے انہیں ایک سنجیدہ اداکار کی صف میں لا کھڑا کیا۔
جان ابراہم کا جسمانی ڈھانچہ انہیں قدرتی طور پر ایکشن ہیرو بناتاہے، مگر ان کی خاص بات یہ ہے کہ وہ ایکشن کو محض مار دھاڑ نہیں بناتے۔’فورس‘،’شوٹ آؤٹ ایٹ وڈالا‘اوربعدمیں’پٹھان‘جیسی فلموں میں ان کا ایکشن ایک خاموش غصے اور کنٹرول شدہ شدت کا حامل نظر آتا ہے۔پٹھان میں ان کا منفی کردار ایک بار پھر اس بات کا ثبوت تھا کہ جان ابراہم کو اسکرین پر یادگار بنانے کے لیے مرکزی ہیرو ہونا ضروری نہیں۔