ہندی فلموں کی تاریخ میں چند ایسے نام ہیں جو اداکاری کے فن کو نئی جہت دیتے ہیں، جنہوں نےاپنے وجود سے نہ صرف پردۂ سیمیں کو روشن کیا بلکہ ناظرین کے دلوں میں بھی ایک دائمی جگہ بنائی۔
قہقہوں کے شہنشاہ جانی واکر۔ تصویر: آئی این این
ہندی فلموں کی تاریخ میں چند ایسے نام ہیں جو اداکاری کے فن کو نئی جہت دیتے ہیں، جنہوں نے اپنے وجود سے نہ صرف پردۂ سیمیں کو روشن کیا بلکہ ناظرین کے دلوں میں بھی ایک دائمی جگہ بنائی۔ انہی میں ایک نام ہے جانی واکر،ایک ایسافنکار جس نے ہنسی کو ایک فن میں بدلا،جس نے اپنے مکالموں، چال ڈھال اور معصوم شرارت سے لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر دی، اور جس کی آواز آج بھی گونجتی ہے،’’سردار، میں جانی واکر ہوں!‘‘
جانی واکر کا اصل نام بدرالدین قاضی تھا۔ وہ ۱۱؍ نومبر ۱۹۲۶ء کو ممبئی کے علاقے اندھیری کےقریب پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا تعلق ایک متوسط مسلم خاندان سےتھا، جو ابتدائی دنوں میں مالی پریشانیوں سے دوچار رہے۔بدرالدین جوانی کے عالم میں بامبے ٹرانسپورٹ سروس میں بطور بس کنڈکٹر ملازم تھے۔ وہ مسافروں کو ٹکٹ دیتے ہوئے مزاحیہ انداز میں بات کیا کرتے، مختلف لب و لہجے اختیار کرتے، اور لوگوں کو ہنسا دیتے تھے۔ ان کےفطری حسِ مزاح اوربولنے کے مخصوص انداز نے ہی بعد میں ان کے فنکارانہ کریئر کی بنیاد رکھی۔ایک دن قسمت نے ان کے دروازے پر دستک دی۔ مشہور فلم ساز و ہدایت کار گرو دت نے انہیں بس میں مزاحیہ انداز میں بات کرتے دیکھا اور ان کی شخصیت سے بے حد متاثر ہوئے۔ گرو دت نے انہیں اپنی فلم ’بازی‘(۱۹۵۱ء)میں ایک چھوٹے سے کردار کے لیے منتخب کیا۔یہی ان کی زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ گرو دت نے ان کا فلمی نام رکھا’جانی واکر‘جو اس زمانے کے مشہور اسکاچ وہسکی برانڈ سے متاثر تھا، کیونکہ ان کا کردار ایک ہنستے بولتے شرابی کا تھا۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ حقیقی زندگی میں جانی واکر شراب کو ہاتھ تک نہیں لگاتے تھے، ان کا نشہ صرف فن تھا۔
۱۹۵۰ء اور۶۰ءکی دہائیاں جانی واکر کے فن کا سنہری دور ثابت ہوئیں۔ ان کی سب سے بڑی پہچان ان کا منفرد مکالمہ، مخصوص آواز اور ہلکی پھلکی اداکاری تھی۔انہوں نے گرو دت کی کئی فلموں میں یادگار کردار ادا کیے، جن میں’پیار کی پیاس‘(۱۹۵۲ء)’آر پار‘ (۱۹۵۴ء)، ’سی آئی ڈی‘(۱۹۵۶ء)، ’کاغذکے پھول‘(۱۹۵۹ء)،’صاحب، بیوی اور غلام‘ (۱۹۶۲ء) جیسی شاندار اور کامیاب فلمیں شامل ہیں۔ان فلموں میں جانی واکر کے کردار اکثر طنز و مزاح کے ذریعے زندگی کے سنجیدہ پہلوؤں کو اجاگر کرتے تھے۔ان کا گیت ’سر جو تیرا چکرائے، یا دل ڈوبا جائے‘آج بھی ہندی فلموں کے مزاحیہ نغمات میں کلاسک حیثیت رکھتا ہے۔
جانی واکر کے فن کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ ان کی اداکاری میںکبھی بھداپن نہیں ہوتا تھا۔ وہ ہنسی پیدا کرتے تھے، مگر کسی کی تضحیک نہیں کرتے تھے۔ ان کے کردار معصوم، شرارتی اور دل کو چھو لینے والے ہوتے۔ان کی آنکھوں کی چمک، ان کی آواز کی لچک، اور ان کی حرکات میں ایک قدرتی روانی تھی جو ان کے معاصر مزاحیہ اداکاروں سے انہیں ممتاز بناتی تھی۔۱۹۷۰ءکی دہائی کے بعد فلمی صنعت میںمزاح کی نوعیت بدل گئی۔نئے طرز کے مزاح میں ذو معنی جملے، طنزیہ فقرے اور بے جا حرکات شامل ہو گئیں، جو جانی واکر کے معیار سے بہت نیچے تھیں۔انہوں نے ایسے کرداروں کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس لیے وہ آہستہ آہستہ فلمی دنیا سے دور ہو گئے، مگر ان کی عزت اور وقار ہمیشہ برقرار رہا۔۲۹؍ جولائی ۲۰۰۳ء کو جانی واکر اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کی عمر۷۷؍ سال تھی۔ ان کے جانے کے ساتھ ہی ایک ایسا باب بند ہو گیا جو ہنسی کے ساتھ وقار، مزاح کے ساتھ اخلاق اور فن کے ساتھ شائستگی کا علمبردار تھا۔