Inquilab Logo Happiest Places to Work

کیفی اعظمی کے گیت آج بھی عوام کے دل میں بستے ہیں

Updated: May 10, 2025, 11:49 AM IST | Agency | Mumbai

اردو کے مشہور شاعر اور فلمی دنیا کے معروف نغمہ نگار کیفی اعظمی کی شعرو شاعری کی صلاحیت بچپن کے دنوں سے ہی نظر آنے لگی تھی۔

Famous poet and lyricist Kaifi Azmi. Photo: INN
مشہور شاعر اور نغمہ نگار کیفی اعظمی۔ تصویر: آئی این این

اردو کے مشہور شاعر اور فلمی دنیا کے معروف نغمہ نگار کیفی اعظمی کی شعرو شاعری کی صلاحیت بچپن کے دنوں سے ہی نظر آنے لگی تھی۔ ۱۴؍ جنوری ۱۹۱۹ء کو اتر پردیش میں اعظم گڑھ ضلع کے مجواں گاؤں میں پیدا ہوئے سید اطہر حسین رضوی عرف کیفی اعظمی کے والد زمیندار تھے۔ والد حسین انہیں اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دینا چاہتے تھےاوراسی مقصدسے انہوں نے ان کا داخلہ لکھنؤ کے ’سلطان المدارس‘ میں کرایا تھا۔ کیفی اعظمی کے اندر کا شاعر بچپن سے زندہ تھا۔ محض ۱۱؍ سال کی عمر سے کیفی اعظمی نے مشاعروں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا جہاں انہیں بہت داد بھی ملا کرتی تھی لیکن بہت سے لوگ جن میں ان کے والد بھی شامل تھے ایسا سوچتےتھے کہ کیفی اعظمی مشاعروں میں خود کی نہیں بلکہ اپنے بڑے بھائی کی غزلیں سناتے ہیں۔ ایک بار بیٹے کا امتحان لینے کیلئے والد نے انہیں گانے کی ایک لائن دی اور اس پر انہیں غزل لکھنےکو کہا۔ کیفی اعظمی نے اسے ایک چیلنج کے طور پر قبول کیا اور اس لائن پر ایک غزل کی تخلیق کی۔ ان کی یہ غزل ان دنوں کافی مقبول ہوئی اور بعد میں معروف گلوکارہ بیگم اختر نے اسےاپنی آواز دی۔ غزل کے بول کچھ یوں تھے ’’اتنا تو زندگی میں کسی کی خلل پڑے، ہنسنے سے ہو سکون نہ رونے سے کل پڑے۔ ‘‘
 کیفی اعظمی محفلوں میں شرکت کرتے وقت نظموں کو بڑے پیار سےسنایا کرتے تھے۔ اس کیلئے انہیں کئی بار ڈانٹ بھی سننی پڑتی تھی جس کےبعد وہ روتے ہوئے اپنی والدہ کے پاس جاتے اور کہتے ’’اماں دیکھنا ایک دن میں بہت بڑا شاعر بن کر دکھاؤں گا۔ ‘‘
 ۱۹۴۷ء میں ایک مشاعرے میں شرکت کیلئے وہ حیدرآباد پہنچے جہاں ان کی ملاقات شوکت اعظمی سے ہوئی اور ان کی یہ ملاقات جلد ہی شادی میں تبدیل ہو گئی۔ آزادی کے بعد ان کے والد اور بھائی پاکستان چلےگئے لیکن کیفی اعظمی نے ہندوستان ہی میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ شادی کے بعد بڑھتے اخراجات کو دیکھ کر کیفی اعظمی نے ایک اردواخبار کیلئے لکھنا شروع کر دیا جہاں سے انہیں ۱۵۰؍ روپے ماہانہ تنخواہ ملا کرتی تھی۔ ان کی پہلی نظم ’سرفراز‘ لکھنؤ میں شائع ہوئی تھی۔ شادی کے بعد ان کے گھر کا خرچ بہت مشکل سے چل پاتا تھا۔ انہوں نےایک دوسرے روزنامہ اخبار میں طنزو مزاح کا کالم بھی لکھنا شروع کیا۔ اس کے بعد اپنے گھر کے بڑھتے اخراجات کو دیکھ کیفی اعظمی نے فلمی نغمے لکھنے کا فیصلہ کیا۔ 
  کیفی اعظمی نے سب سے پہلے ہدایتکار شاہد لطیف کی فلم ’بزدل‘ کیلئے ۲؍ نغمے لکھے جس کے بدلے میں انہیں ایک ہزار روپے ملے۔ اس کے بعد ۱۹۵۹ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’کاغذ کے پھول‘کیلئے کیفی اعظمی نے ’وقت نے کیا کیا حسیں ستم، تم رہے نہ تم ہم رہے نہ ہم‘ جیسا سدا بہار گیت لکھا۔ ۱۹۶۵ء کی فلم ’حقیقت‘ میں ’کر چلےہم فدا جان و تن ساتھیو، اب تمہارے حوالے وطن ساتھیو‘ کی کامیابی کے بعد کیفی اعظمی کامیابی کی چوٹی پر جا پہنچے۔ کثیر الجہت صلاحیت کے مالک کیفی اعظمی نے فلم ’گرم ہوا‘ کی کہانی، مکالمے اور اسکرین پلے بھی لکھے جن کیلئے انہیں فلم فیئر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ فلم ’ہیر رانجھا‘ کے منظوم مکالمے کیفی اعظمی ہی نے لکھے تھے جبکہ شیام بینیگل کی فلم ’منتھن‘ کی اسکرپٹ بھی انہی نے لکھی تھی۔ تقریباً ۷۵؍ سال کی عمر کے بعد کیفی اعظمی نے اپنے گاؤں مجوا ں ہی میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ اپنے مشہور گیتوں سے سامعین کو محظوظ کرنے والے عظیم شاعر اور نغمہ نگار کیفی اعظمی ۱۰؍ مئی ۲۰۰۲ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK