ٹی وی، فلم اوراو ٹی ٹی اداکارہ کرتیکا کامرا کا کہنا ہے کہ میں بھگوان کا شکر اداکرتی ہوں کہ میں نے کبھی ساس بہو کی کہانی والے شوز میں کام نہیں کیا، آج میں جہاں ہوں، مطمئن ہوں۔
EPAPER
Updated: September 22, 2024, 12:43 PM IST | Abdul Karim Qasim Ali | Mumbai
ٹی وی، فلم اوراو ٹی ٹی اداکارہ کرتیکا کامرا کا کہنا ہے کہ میں بھگوان کا شکر اداکرتی ہوں کہ میں نے کبھی ساس بہو کی کہانی والے شوز میں کام نہیں کیا، آج میں جہاں ہوں، مطمئن ہوں۔
ٹی وی انڈسٹری سے بڑے پردے پر اپنی اداکاری کا جلوہ بکھیرنے والے بہت سے اداکار ہیں۔ انہی میں سے ایک اترپردیش کےبریلی شہر سے تعلق رکھنے والی کرتیکا کامرا بھی ہیں۔ انہوں نے اپنے کریئر کی شروعات ٹی وی شو ’یہاں کے ہم سکندر ‘ سے کی تھی۔ یہ شو ۲۰۰۷ء میں آیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے مختلف شوز میں کردار ادا کئے۔ ۲۰۱۵ء میں انہوں نے فلموں کا رخ کیا اور شارٹ فلموں سے شروعات کی۔ اس کے ساتھ ہی وہ ویب شوز میں بھی نظرآتی رہیں۔ حال ہی میں ان کی ویب سیریز ’گیارہ گیا رہ‘ ریلیز ہوئی ہے۔ کرتیکا نے اپنی اداکاری سے شائقین کے دلوں میں جگہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ ان کے شوز، ویب شوز اور فلموں میں مصروفیت کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتاہے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہیں۔ نمائندہ انقلاب نے ان سے گفتگو کی جسے یہاں پیش کیا جارہا ہے:
مستقبل میں رہتے ہوئے ماضی کے بارے میں کیا سوچتی ہیں ؟
ج:جب ہم مستقبل میں ہوتے ہیں تو ہمیں ماضی کی وہ یادیں یاد آتی ہیں جس میں ہم نے غلطیاں کی ہیں اورانہیں مستقبل میں سدھارا ہے۔ دیکھا جائے تو ہمارا مستقبل ماضی ہی کا عکس ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ پوچھتے ہیں کہ اگر آپ ماضی میں جائیں تو زندگی کا کون سا حصہ بدلنا چاہیں گی تو میں انہیں کہتی ہوں کہ میں کچھ بھی نہیں بدلنا چاہو ں گی۔ میں نے ماضی میں جو سیکھا یا تجربہ حاصل کیا ہے اس کا استعمال میں میں مستقبل میں کررہی ہوں۔ میرے خیال میں ہمیں اپنا ماضی نہیں بھولنا چاہئےکیونکہ ماضی ہی مستقبل کی بنیاد ہوتی ہے۔ اس کی وجہ ہی سے ہم اپنا مستقبل بہتر بناتے ہیں اورترقی کی منزلیں طے کرتے ہیں۔
آپ کے اداکارہ بننے پر سب سے زیادہ خوشی کسے ہوئی ؟
ج:میرے اداکارہ بننے پر سب سے زیادہ خوشی میری نانی کو ہوتی، اگر وہ حیات ہوتیں۔ وہ مجھے پرفارمنگ آرٹ میں کام کرتے ہوئے دیکھ کر بہت مسرور ہوتی تھیں اور میری بہت پزیرائی کرتی تھیں۔ جب میں اسکول میں کوئی پرفارمنس یا اسٹیج شو کرتی تو وہ ہمیشہ موجود رہتی تھیں۔ ہمارے خاندان میں کسی نے بھی شو بز انڈسٹری میں کام نہیں کیا ہے کیونکہ ہماری فیملی تھوڑی پرانے خیالات کی ہے، اسلئے میری والدہ کو شوق ہوتے ہوئے بھی انہیں موقع نہیں ملا لیکن میرے والدین آزاد خیال تھے، اسلئے انہوں نے مجھے اس کی اجازت دی۔ آج جب میں اداکارہ بن گئی ہوں تو میری نانی دنیا میں نہیں ہیں لیکن وہ جہاں بھی ہیں میرے کام سے خوش ہوتی ہوں گی۔ وہ میرے بچپن ہی میں اس دنیا کو الوداع کہہ گئیں۔
آپ اپنے رول کی تیاری کس طرح کرتی ہیں ؟
ج:اس کیلئے بہت سے ذرائع ہوتے ہیں۔ عام خاتون کا رول نبھانے میں زیادہ تگ ودو نہیں کرنی پڑتی لیکن اگر کوئی خاص کردار نبھانا ہے جیسے پولیس افسر کا تو اس کیلئے بہت زیادہ توجہ دینی ہوتی ہے۔ میں نے حال ہی میں ایک پولیس افسر کا رول نبھایا تھا جس کیلئے میں نے ۲؍طرح سے تیاری کی تھی۔ پولیس افسر کے رول کیلئے تو جسمانی طورپر خود کو مضبوط کرنا ہوتا ہے اور دوسرا ان کا انداز بہت ہی سخت ہوتا ہے۔ ان چیزوں پر میں نے پوری توجہ دی۔ میں نے ذاتی طورپر کئی مرد افسران سے ملاقات کی تھی اور ان کے انداز اور رویے کے بارے میں معلومات حاصل کی۔ اس کے بعد میں نے خواتین افسران سے رابطہ قائم کیا۔ اس کیلئے میں پنجاب اور ہریانہ بھی گئی۔ اس دوران ان کی ٹریننگ اور دیگر باتوں کا پتہ کیا۔ مجھے بھی احساس ہوا کہ کس طرح وہ اس مقام تک پہنچتی ہیں۔ اس کے بعد یوٹیوب چینل پر بہت سے پولیس افسران کے انٹرویو دیکھے اور ان کی باڈی لینگویج سیکھنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد جب آپ وروی پہنتے ہیں تو اس سے بھی خودبخود ایک رعب آپ کے اندر آجاتا ہے۔ بہرحال اس طرح کے رول کرنے کیلئے کافی محنت کرنی پڑتی ہے۔
بحیثیت اداکارہ آپ خواتین کے تعلق سے کیا سوچتی ہیں ؟
ج:میں یہی کہنا چاہوں گی کہ ہر خاتون کو مالی طورپر مضبوط ہونا چاہئے کیونکہ اگر آپ کسی پر منحصر رہتے ہیں تو آپ کے استحصال کا اندیشہ بڑھ جاتاہے۔ میرے والد نے مجھے نوجوانی کے دنوں ہی میں یہ بات یہ سکھا دی تھی کہ میں مالی طورپر مضبوط اور آزاد رہوں۔ میں کسی بھی مرحلے پر اپنے باپ، بھائی یا شوہر پر روپے پیسے کیلئے انحصار نہ کروں۔ اسی کے ساتھ انہوں نے مجھے یہ بھی بتایا تھا کہ میں سماج میں اپنی ایک الگ شناخت قائم کروں۔ میں نے اپنے والد کی ان نصیحتوں کو اپنے گرہ میں باندھ لیا ہے۔ ان کی ساری باتیں مجھے آج بھییاد ہیں، اسلئے میں نے اپنے طورپر ہی بہت ساری چیزیں حاصل کرلی ہیں۔ اگر میں کسی سے رشتہ جوڑتی ہوں تو اس میں برابری دیکھتی ہوں۔ میں یہ نہیں دیکھوں گی کہ وہ کتنا امیر ہے یا غریب۔ اکثر لڑکیوں کو بچپن ہی سے سکھایا جاتا ہے کہ و ہ دوسروں کی خوشی میں خوش رہیں، اپنے بارے میں سوچنے سے پہلے اپنے قریبی اورعزیز کے بارے میں سوچیں۔ اس سوچ کی وجہ سے مسئلہ پیشہ ورانہ زندگی میں آتاہے۔ جب آپ کسی ٹیم کی لیڈر بن جاتی ہیں تو آپ آزادانہ طور پر فیصلے نہیں کرپاتی ہیں۔ آپ کو بارہا سوچنا پڑتاہے کہ میں نے کسی مرد رکن کے سامنے کچھ زیادہ تو نہیں کہہ دیا۔ میرے خیال میں ایک لڑکی کو بچپن ہی سے مالی طورپر آزاد رہنے کی تربیت دی جانی چاہئے۔
سننے میں آیا تھا کہ کرن جوہر اور ایکتا کپور آپ کے ساتھ فلم بنانے والے تھے، تو اس فلم کے نہ بننے کی وجہ کیا تھی؟
ج:کرن جوہر اور ایکتاکپور کے ساتھ اس فلم کے بارے میں ساری باتیں طے ہوچکی تھیں، یہاں تک کہ کاسٹیوم وغیرہ کو بھی حتمی شکل دے دی گئی تھی لیکن کچھ مالی مسائل کی وجہ سے وہ فلم نہیں بن سکی۔ مجھے اس بات کا افسوس نہیں ہے کیونکہ وہ فلم کبھی بنی نہیں ، اگر بنتی اور اس میں مجھے کاسٹ نہیں کیا جاتا تب اس کا افسوس ضرور ہوتا۔ بہرحال اس کے بعد حالات میرے لئے تھوڑے ٹھیک نہیں تھے۔ جب اُس فلم کی پیشکش مجھے ہوئی تھی تب میں ٹیلی ویژن پر اچھا کام کررہی تھی، لیکن میں نے ٹی وی سے وقفہ لے لیا تھاکیونکہ مجھے فلم میں کام کرنا تھا۔ فلم نہ بننے کے صدمے سے مجھے باہر آنے میں تھوڑا وقت لگا اور میں نے دوبارہ آڈیشن دینے شروع کردیئے۔ اس بار میں نے فلموں کیلئے آڈیشن دینا شروع کیا تھاکیونکہ میں نئے پلیٹ فارم پر کام کرنے والی تھی، اس لئے مجھے کام کیلئے پروڈکشن ہاؤس جانا پڑتا تھاکیونکہ میرے پاس کوئی رول لے کر نہیں آتا تھا۔ بہرحال اسی دوران اوٹی ٹی آگیا اور میں ایک بار پھر اپنی پیش ورانہ زندگی میں مصروف ہوگئی۔
ٹی وی اور او ٹی ٹی کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گی؟
ج:او ٹی ٹی جب ہندوستان میں داخل ہوا تھاتو اس وقت اس پربغیر سینسر کے بہت ساری چیزیں دکھائی جارہی تھیں لیکن بعد میں اس پر بھی قدغن لگا۔ اس معاملے میں میں فلموں کو بہتر سمجھتی ہوں جہاں بڑے اسکرین پر کہانی کو بہتر انداز میں پیش کیا جاتاہے۔ لیکن آج کے دورمیں بھی ہندوستان میں ٹیلی ویژن دیکھنےوالوں کی تعداد زیادہ ہے۔ آج بھی بہت سے لوگ نیٹ فلکس اور امیزون کا سبسکرپشن نہیں لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ فلموں کا ٹکٹ بھی نہیں خرید پاتے ہیں، اسلئے ان کے پاس تفریح کا واحد ذریعہ ٹی وی رہ جاتاہے۔ دوسری طرف ٹی وی پر جس طرح کے شوز دکھائے جاتے ہیں وہ اب بھی پرانے لگتے ہیں۔ وہی ساس بہو کی کہانی پیش کی جاتی ہے، میں بھگوان کا شکر اداکرتی ہوں کہ میں نے کسی ساس بہو کے شو میں کام نہیں کیا تھا۔ دراصل ٹی وی پر بھی ان ہی کہانیوں کو پیش کیا جاتاہے جو سماج میں نظرآتی ہے۔ ٹی وی پر بہتر شوز کیلئے ہمیں سماج اور فن دونوں کو تبدیل کرنا ہوگا۔