Inquilab Logo Happiest Places to Work

ملکہ ترنم نور جہاں کے گیت آج بھی پوری دنیا میں گونج رہے ہیں

Updated: September 23, 2024, 10:59 AM IST | Mumbai

پیدائش کے وقت نور جہاں کی خالہ نےنومولود بچے کے رونے کی آواز سن کر کہا-اس بچے کے رونے میں موسیقی ہے۔ نور جہاں کے والدین تھیٹر میں کام کرتے تھے۔ گھر میں فلمی ماحول کی وجہ سے نور جہاں بچپن سے ہی موسیقی کی طرف مائل تھیں۔

Noor Jehan with a soulful voice. Photo: INN.
لاثانی آواز کی حامل نور جہاں۔ تصویر: آئی این این۔

فلمی دنیا میں ملکہ ترنم کے نام سے مشہور پلے بیک سنگر اللہ وسائی عرف نورجہاں نے اپنی آواز میں جو گانےگائے وہ آج بھی اپنا جادو جگائے ہوئے ہیں۔ نورجہاں کی پیدائش ۲۱؍ستمبر ۱۹۲۶ء کو پنجاب کے ایک چھوٹے سے قصبے قصور کے ایک متوسط گھرانے میں ہوئی۔ پیدائش کے وقت نور جہاں کی خالہ نےنومولود بچے کے رونے کی آواز سن کر کہا-اس بچے کے رونے میں موسیقی ہے۔ نور جہاں کے والدین تھیٹر میں کام کرتے تھے۔ گھر میں فلمی ماحول کی وجہ سے نور جہاں بچپن سے ہی موسیقی کی طرف مائل تھیں۔ نور جہاں نے فیصلہ کیا کہ وہ بطور پلے بیک سنگر اپنی شناخت بنائیں گی۔ ان کی والدہ نےنورجہاں کے ذہن میں موسیقی کی طرف بڑھتے ہوئے جھکاؤ کو پہچان لیا۔ اس راستے پر آگے بڑھنے کی ترغیب دی اور گھر پر موسیقی سیکھنے کا انتظام کیا۔ 
نورجہاں نےموسیقی کی ابتدائی تعلیم کجن بائی سےاور کلاسیکی موسیقی کی تعلیم استاد غلام محمد اور استاد بڑےغلام علی خان سےحاصل کی۔ ۱۹۳۰ءمیں نور جہاں کو انڈین پکچر کے بینر تلے بننے والی خاموش فلم ’ہند کے تارے‘ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ کچھ عرصے بعد ان کا خاندان پنجاب سے کلکتہ چلا گیا۔ اس عرصے کے دوران انہیں تقریباً۱۱؍خاموش فلموں میں اداکاری کرنے کا موقع ملا، ۱۹۳۱ءتک نور جہاں نےبطورچائلڈ آرٹسٹ اپنی پہچان بنا لی تھی۔ ۱۹۳۲ء میں ریلیز ہونے والی فلم ششی پنوں نورجہاں کے سینما کرئیرکی پہلی ٹاکی فلم تھی۔ اس عرصے میں نورجہاں نےکوہ نور یونائیٹڈ آرٹسٹ کے بینر تلے بننے والی کچھ فلموں میں کام کیا۔ کولکتہ میں ان کی ملاقات فلم پروڈیوسر پنچولی سے ہوئی۔ 
پنچولی نےنورجہاں کو فلم انڈسٹری کی ابھرتی ہوئی اسٹارکے طور پر دیکھا اور انہوں نے انہیں اپنی نئی فلم گل بکاولی کے لیے منتخب کیا۔ اس فلم کے لیے نورجہاں نے اپنا پہلا گانا ’شالاجوانیاں مانے اور پنجرے دے وچ‘ ریکارڈ کروایا۔ تقریباً۳؍سال کولکتہ میں رہنے کے بعد نور جہاں واپس لاہور چلی گئیں۔ وہاں ان کی ملاقات مشہورموسیقار جی اے چشتی سےہوئی۔ جو اسٹیج پروگراموں میں موسیقی دیا کرتےتھے۔ انہوں نے نورجہاں کو اسٹیج پر گانے کی پیشکش کی جس کے بدلے میں نورجہاں کو فی گانا ساڑھےسات آنہ دیا گیا۔ ان دنوں ساڑھے سات آنہ اچھی رقم سمجھی جاتی تھی۔ ۱۹۳۹ء میں پنچولی کی میوزیکل فلم گل بکاولی کی کامیابی کے بعد نور جہاں فلم انڈسٹری کی ایک مقبول شخصیت بن گئیں۔ اس کے بعد ۱۹۴۲ء میں پنچولی کی پروڈیوس کردہ فلم خاندان کی کامیابی کے بعد نور جہاں نے بطور اداکارہ فلم انڈسٹری میں اپنی جگہ بنائی۔ فلم خاندان میں نورجہاں پر فلمایا گیا گانا ’کون سی بدلی میں میرا چاند ہے آجا‘ ناظرین میں کافی مقبول ہوا۔ فلم خاندان کی کامیابی کے بعد نورجہاں نے فلم کے ہدایت کار شوکت حسین سے شادی کر لی۔ اس کے بعدوہ ممبئی آگئیں۔ اس دوران نور جہاں نے شوکت حسین کی ہدایت کاری میں بننے والی فلموں میں نوکر، جگنو(۱۹۴۳ء)میں کام کیا۔ نور جہاں نے اپنی آواز کےساتھ مسلسل تجربہ کیا۔ انہی خوبیوں کی وجہ سےانہیں ٹھمری گائیکی کی ملکہ کہا جانے لگا۔ ان کی آواز کے جادو نے شائقین کو متاثر کیا۔ اس طرح نورجہاں ممبئی فلم انڈسٹری میں ملکہ ترنم کہی جانے لگیں۔ نور جہاں نے ہندی فلموں کے علاوہ پنجابی، اردو اور سندھی فلموں میں بھی اپنی آواز سے سامعین کو مسحور کیا، اپنی دلکش آواز اور انداز سے سب کو مسحور کرنے والی نور جہاں ۲۳؍دسمبر ۲۰۰۰ءکو اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK