Inquilab Logo

ساحر لدھیانوی فلموں کے پہلے نغمہ نگار تھےجنہوں نے نغمہ نگاروں کیلئے رائلٹی کے مطالبے کو منوایا تھا

Updated: March 10, 2024, 10:20 AM IST | Inquilab Desk | Mumbai

ساحر لدھیانوی ہندوستانی فلموں کے ایسے پہلے نغمہ نگار تھے جن کا نام ریڈیو سے نشر ہونے والے فرمائشی نغمے میں دیا گیا تھا۔ ان سے پہلے کسی نغمہ نگار کو ریڈیو سے نشر ہونے والے فرمائشی نغمے میں ایسی اہمیت نہیں دی گئی تھی۔

There were many occasions when Sahir strongly advocated for fellow songwriters. Photo: INN
ایسے کئی مواقع آئے جب ساحر نے ساتھی نغمہ نگاروں کی بھرپور وکالت کی۔ تصویر : آئی این این

ساحر لدھیانوی ہندوستانی فلموں کے ایسے پہلے نغمہ نگار تھے جن کا نام ریڈیو سے نشر ہونے والے فرمائشی نغمے میں دیا گیا تھا۔ ان سے پہلے کسی نغمہ نگار کو ریڈیو سے نشر ہونے والے فرمائشی نغمے میں ایسی اہمیت نہیں دی گئی تھی۔ لیکن یہ مقام انہیں یوں ہی نہیں ملا تھا۔ اس کیلئے انہوں نےکافی جدو جہد اور محنت کی تھی۔ اس کے بعد ریڈیو پر نشر ہونے والے نغموں میں گلوکار اور موسیقار کے ساتھ ہی نغمہ نگار کا نام بھی دیاجانے لگا۔ یہ ایک بڑا کارنامہ تھا۔ اس کے علاوہ وہ پہلے نغمہ نگار تھے جنہوں نے نغمہ نگاروں کیلئے رائلٹی کے مطالبے کو منوایا تھا۔ 
 ۸؍ مارچ۱۹۲۱ء کو پنجاب کے لدھیانہ شہر میں ایک زمیندار خاندان میں پیدا ہونے والے ساحر کی زندگی کافی جد وجہد میں گزری۔ انہوں نے اپنی میٹرک تک کی تعلیم لدھیانہ کے خالصہ اسکول سے مکمل کی۔ اس کے بعد وہ لاہور چلے گئےجہاں انہوں نے اپنی مزید تعلیم گورنمنٹ کالج سے مکمل کی۔ کالج کے دنوں ہی میں کالج میں منعقد ہونے والے پروگراموں میں وہ اپنی غزلیں اور نظمیں پڑھ کر سنایاکرتے تھے جس سے انہیں کافی شہرت حاصل ہوئی۔ مشہور پنجابی مصنفہ امریتا پریتم کالج میں ساحر کے ساتھ ہی پڑھتی تھیں۔ وہ ان کی غزلوں اور نظموں سے کافی متاثر ہوئیں اور پھر ان سے محبت کرنے لگیں۔ اس کے نتیجے میں کچھ عرصے کے بعد ہی ساحر کالج سے نکال دئیے گئے۔ کہا یہی جاتا ہے کہ امریتا پریتم کے والد کو اپنی بیٹی کے ساتھ ساحر کی دوستی پر اعتراض تھاکیونکہ دونوں مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے تھےاور ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان دنوں ساحر کی مالی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ 
 ساحر۱۹۴۳ء میں کالج سے نکال دئیے جانے کے بعد لاہور چلے گئے، جہاں انہوں نے اپنا پہلا شعری مجموعہ تلخیاں مرتب کیا۔ تقریباً ۲؍ برسوں کی انتھک کوششوں کے بعد آخر کار ان کی محنت رنگ لائی اور تلخیاں کی اشاعت ہوئی۔ اس درمیان ساحر ترقی پسند تحریک سے منسلک ہوگئے اور انہوں نے ادب لطیف، شاہکار اور سویرا جیسے کئی مقبول اردو رسائل نکالے لیکن سویرا میں انقلابی خیالات کو دیکھتے ہوئے حکومت پاکستان نے ان کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری کردیا۔ اس کے بعد وہ ۱۹۵۰ء میں وہ ممبئی آگئے اور بالی ووڈ سے وابستہ ہوگئے۔ 
  ساحر نےاُسی سال ریلیز ہونے والی فلم ’آزادی کی راہ پر‘ میں اپنا پہلا نغمہ’’ بدل رہی ہے زندگی‘‘ لکھا لیکن فلم کامیاب نہیں ہوسکی۔ ۱۹۵۱ءمیں ایس ڈی برمن کی دھن پر فلم ’نوجوان‘ میں لکھے اپنے نغمے ’’ٹھنڈی ہوائیں لہرا کے آئیں ‘‘ کے بعد وہ نغمہ نگار کی حیثیت سے اپنی کچھ حد اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ ساحر نے خیام کی موسیقی میں بھی کئی سپرہٹ نغمے لکھے۔ ۱۹۵۸ءمیں آئی فلم ’پھر صبح ہوگی‘ کیلئے راج کپور یہ چاہتے تھے کہ ان کے پسندیدہ موسیقار شنکر جے کشن اس کی موسیقی دیں جبکہ ساحر اس بات سے خوش نہیں تھے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فلم میں موسیقی خیام کی ہی ہواور پھر’’وہ صبح کبھی تو آئے گی‘‘ جیسے نغمے کی لازوال کامیابی سے ساحر لدھیانوی کا فیصلہ درست ثابت ہوا۔ یہ گانا آج بھی کلاسیکی نغمے کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ 
  یہ وہ دور تھا جب ساحر اپنی شرطوں پر گیت لکھا کرتے تھے۔ ایک بار ایک فلم ساز نے نوشاد کی موسیقی میں انہیں نغمات لکھنے کی پیش کش کی لیکن ساحر کو جب اس بات کا علم ہوا کہ نوشاد کو ان سے زیادہ معاوضہ دیاجارہا ہے تو انہوں نے پروڈیوسر سے معاہدہ ختم کرنے کیلئے کہہ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ نوشاد عظیم موسیقار ہیں لیکن دھنوں کو لفظ ہی وزنی بناتے ہیں لہٰذا ایک روپیہ ہی صحیح نغمہ نگار کو موسیقار سے زیادہ معاوضہ ملناچاہئے۔ 
 گرودت کی فلم ’پیاسا‘ ساحر کے فلمی کریئرکی ایک اہم فلم ثابت ہوئی۔ فلم کی ریلیز کے دوران عجیب و غریب نظارہ دکھائی دیا۔ ممبئی کے منروا ٹاکیز میں جب یہ فلم دکھائی جارہی تھی تب جیسے ہی ’’جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں ‘‘ بجا تمام ناظرین اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑے ہوگئے اور گانے کے اختتام تک تالی بجاتے رہے۔ بعد میں ناظرین کے مطالبے پر اسے تین مرتبہ دکھایا گیا۔ فلم انڈسٹری کی تاریخ میں شاید پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ ساحر اپنے فلمی کریئر میں دوبار بہترین نغمہ نگار کی حیثیت سے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازے گئے۔ تقریبا تین دہائی تک ہندی سنیما کو اپنی زبردست نغموں سے ناظرین کو مسحور کرنے والے ساحر لدھیانوی۵۹؍سال کی عمر میں ۲۵؍ اکتوبر۱۹۸۰ءکو اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK