Inquilab Logo Happiest Places to Work

اُما دیوی نے ٹن ٹن کے نام سے ناظرین کو خوب ہنسایا

Updated: July 11, 2025, 11:10 AM IST | Inquilab News Network | Mumbai

جب ہم ہندوستانی فلموں کی تاریخ کاجائزہ لیتےہیں تو ہمیں کئی ایسی دلکش اور انوکھی آوازیں سنائی دیتی ہیں جو نہ صرف ہمارے دلوں کوبہلانے والی تھیں بلکہ زندگی کے کٹھن راستوں میں مسکراہٹیں بکھیرنے والی بھی تھیں۔

Tun Tun, or Ama Devi, had a unique style. Photo: INN
ٹن ٹن یعنی اما دیوی کا انداز ہی نرالا تھا۔ تصویر: آئی این این

جب ہم ہندوستانی فلموں کی تاریخ کاجائزہ لیتےہیں تو ہمیں کئی ایسی دلکش اور انوکھی آوازیں سنائی دیتی ہیں جو نہ صرف ہمارے دلوں کوبہلانے والی تھیں بلکہ زندگی کے کٹھن راستوں میں مسکراہٹیں بکھیرنے والی بھی تھیں۔ ان ہی چہروں میں ایک چہرہ ایسا بھی تھا جو جہاں نظر آیا، وہاں ہنسی کا طوفان برپا ہوگیا۔ جی ہاں، ہم بات کر رہے ہیں ٹن ٹن کی، جن کا اصلی نام اُما دیویتھا۔ وہ نہ صرف ایک کامیڈین تھیں بلکہ اپنے وقت کی ایک باکمال گلوکارہ بھی تھیں۔ 
 اُما دیوی کاجنم۱۱؍جولائی ۱۹۲۳ءمیں یوپی کے امروہا ضلع میں ہوا۔ غربت نے انہیں بچپن ہی میں یتیم اور بے سہارا کر دیا تھا۔ کوئی سہارا نہ تھا، نہ سیکھنے کا موقع، لیکن قدرت نے اُنہیں ایک ایسا تحفہ دیا تھا جو لاکھوں میں کسی ایک کو ملتا ہے یعنی ایک سریلی آواز۔ جب سب راستے بند ہوتے نظر آئے تو اُنہوں نے بمبئی کا رُخ کیا، وہ بھی بغیر کسی جان پہچان یا سفارش کے۔ 
 یہاں آکراُما دیوی نے آل انڈیا ریڈیو کے لیے کچھ پروگرام کیے اور وہاں سےہی ان کی آواز مشہور ہونےلگی۔ مشہور موسیقار نوشاد نےان کی آواز سنی تو انہیں فلم میں گانے کا موقع دے دیا۔ ان کا پہلا مشہورگیت فلم’دل لگی‘ (۱۹۴۹ء)میں آیاتھا۔ ان کی مدھر آواز میں وہ سادگی تھی جو سیدھی دل میں اترتی تھی۔ ان کے مقبول گانوں میں ’افسانہ لکھ رہی ہوں دلِ بے قرار کا‘ (درد)، ’آ جا میری برباد محبت کے سہارے‘ (بیداری)، ’کاہے کوبیاہی بدیس‘ (باپ بیٹی)، ’دل کے افسانے نگاہوں کی زبان تک پہنچے‘ (ملاپ)شامل ہیں۔ مگر جلد ہی فلمی دنیا میں گلوکارائوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا، اور اُما دیوی جیسی روایتی آواز کے لیے جگہ کم ہونے لگی۔ لیکن قدرت نے ان کے لیے ایک نیا دروازہ کھول دیا۔ 
 جب گلوکاری کی دنیا میں جگہ تنگ ہونے لگی، تو نوشاد صاحب نےمشورہ دیا کہ وہ فلموں میں کامیڈی کی طرف قدم بڑھائیں۔ اور اس طرح ان کے فلمی سفر کا دوسرا اور شایدزیادہ کامیاب باب شروع ہوا۔ فلم’بابل‘(۱۹۵۰ء)میں انہوں نے پہلی بار مزاحیہ رول کیا۔ اُن کی گول مٹول جسمانی ساخت، معصوم چہرہ اور برجستہ جملے فلم بینوں کو بےاختیار ہنسا دیتے تھے۔ ان کا مزاح کبھی فحش یا سستا نہ ہوتا بلکہ خالص، معصوم اور دل کو لگنے والا ہوتا تھا۔ دلیپ کمار نے ان کے موٹاپے کو مذاق کا ہتھیار بناتے ہوئے انہیں نیا نام’ ٹن ٹن‘ دیا اور یہی نام ہمیشہ کے لیے فلمی تاریخ میں سنہری حرفوں میں لکھا گیا۔ 
 ٹن ٹن ہندوستان کی پہلی مزاحیہ اداکارہ مانی جاتی ہیں جنہوں نےخواتین کو بھی فلموں میں مزاح کاکردار ادا کرنے کی راہ دکھائی۔ اس سےپہلے مرد اداکار ہی یہ کردار نبھایا کرتے تھے۔ اُن کی مقبولیت نےہندی سنیما میں خواتین کامیڈینز کے لیے راہ ہموار کی۔ وہ نہ صرف ہنستی تھیں بلکہ خواتین کو ہنسانے کا حق بھی دلاتی تھیں۔ اُن کا ہر جملہ ناظرین کے چہرے پر مسکراہٹ لاتا اور دل کو خوشی سے بھر دیتا۔ 
 فلمی دنیا میں چمک دمک کے پیچھے کئی بار خاموشی اور تنہائی چھپی ہوتی ہے۔ ٹن ٹن کا آخری وقت بھی تنہائی، بیماری اور خاموشی میں گزرا۔ ۱۹۹۰ءکی دہائی میں انہوں نے فلموں سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی۔ ۲۴؍نومبر۲۰۰۳ءکو ممبئی میں اُن کا انتقال ہوگیا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK