ہندوستانی موسیقی کی تاریخ میں بہت سی آوازیں آئیں، کچھ مٹ گئیں،کچھ وقت کے ساتھ مدھم ہو گئیں، مگر ایک آواز ایسی بھی تھی جو نہ بدل سکی، نہ چھپ سکی، اور نہ جھک سکی۔یہ آواز اوشا اتھپ کی تھی۔
اوشا اتھپ کا لباس اورگائیکی کافی مختلف ہیں۔ تصویر: آئی این این
ہندوستانی موسیقی کی تاریخ میں بہت سی آوازیں آئیں، کچھ مٹ گئیں،کچھ وقت کے ساتھ مدھم ہو گئیں، مگر ایک آواز ایسی بھی تھی جو نہ بدل سکی، نہ چھپ سکی، اور نہ جھک سکی۔یہ آواز اوشا اتھپ کی تھی۔ ایک ایسی گلوکارہ جنہوں نے اپنی آواز سے یہ ثابت کر دیا کہ موسیقی صرف سُروں کا کھیل نہیں، بلکہ روح کی زبان ہے۔
اوشا اتھپ۸؍نومبر۱۹۴۷ءکوممبئی میں ایک تمل برہمن خاندان میںپیدا ہوئیں۔ ان کے والد بمبئی پولیس کے چیف رہے۔ اوشا کا بچپن موسیقی سننے اور ریڈیو سیلون، مغربی کلاسیکل، ہندوستانی کلاسیکل اور فلمی گیتوں سے بےحد متاثر ہوا۔ اسکول میں گانے کے دوران ان کی بھاری آواز کو مناسب نہ سمجھا گیا اور انہیں میوزک کلاس سے نکال دیا گیا، لیکن انہوں نے ہار نہ مانی اور گھر میں گانے کی مشق جاری رکھی۔اوشا اتھپ نے۱۹۶۹ءمیں چنئی کے نائٹ کلب ’نائن جیم‘ سے پروفیشنل گائیکی کی ابتدا کی۔ ان کے اسٹائل، ساڑی، اور مضبوط شخصیت نےکلب کے مالک کو متاثر کیا۔ اس کے بعد انہوں نے کلکتہ کے ’ٹرنکاس‘، اور دہلی کے ’اوبرائے‘ میں بھی پرفارم کیا، جہاں دیو آنند کے فلمی کریو نے انہیں پہلےفلمی پلے بیک کا موقع دیا۔ اوشا نے۱۹۷۰ءکی ’بومبے ٹاکیز‘ میں انگریزی نغمہ گایا اور پھر ’ہرے راما ہرے کرشنا‘ میں شاندار پرفارمنس دی۔
اوشا اتھپ کا لباس بھی ان کی پہچان بن گیا۔ وہ مغربی جازگاتی ہیں،مگر ساڑی پہنتی ہیں۔ان کی یہ ضد کہ ’’میں اپنی شناخت کے ساتھ ہی گاؤں گی‘‘ دراصل ہندوستانی عورت کے وقار کی ترجمانی تھی۔اسٹیج پر ان کا وجود’ ساڑی، چوڑیاں، بڑی بِندی، اور مسکراہٹ‘ ایک مکمل ثقافتی بیانیہ بن گیا۔انھوں نے یہ سکھایا کہ موسیقی کا مغرب یا مشرق سے کوئی تعلق نہیں، دل سے ہے۔
اوشا اتھپ کی منفرد آواز انہیں ’دم مارو دم‘، ’محبو بہ محبو بہ‘ (شعلے)، ’رنبھا ہو‘، ’کوئی یہاں ناچے ناچے‘ (ڈسکو ڈانسر)، ’اے زندگی گلے لگا لے‘، ’آمی شوتی بولچی‘ (کہانی)، ’ڈارلنگ‘ (سات خون معاف)، ’رامبا میں سامبا‘ (شیرین فرہاد کی تو نکل پڑی) جیسے بےشمار سپر ہٹ گیت پیش کیے ہیں۔انہوں نے ۱۷؍ہندوستانی زبانوں میں ہزاروں گیت گائے، جن میں پوپ، جاز، کلاسیکل اور فلمی ٹریکس شامل ہیں۔انہوں نے آر ڈی برمن، بپی لہری، وشال بھردواج اور کئی دیگر نامور موسیقاروں کے ساتھ کام کیا۔اوشا اتھپ متعدد سنگنگ رئیلٹی شوز (انڈین آئیڈل، سوپر سنگر، اسٹار سنگر) میں جج رہی ہیں اور اپنے دلچسپ انداز اور بذلہ سنجی کی وجہ سے پسند کی جاتی ہیں۔گلوکاری کے علاوہ اوشا اتھپ نےامیتابھ بچن کی ’بومبے ٹو گوا‘ (۱۹۷۳ء)،ملیالم فلم ’پوتھن واوا‘(۲۰۰۶ء)،’بو باریکس فور ایور‘، ’ہٹرک‘، ’سات خون معاف‘ اور کئی فلموں میں بطور اداکارہ و گلوکارہ کام کیا۔اوشا اتھپ کی شادی جانی چاکو اتھپ سے ہوئی، جو کلکتہ میں ان کے ’ٹرنکاس‘ نائٹ کلب میںپرفارمنس کے دوران ملے۔ ان کے بچے اور بہن بھائی بھی موسیقی میں سرگرم ہیں۔اپنی نرالی آواز اور بے ساختہ اسلوب کے سبب اوشا کو کئی اعزازات ملے۔۲۰۱۱ءمیں حکومتِ ہند نے انھیں پدم شری کے خطاب سے نوازا۔اس کے علاوہ وہ کئی بین الاقوامی فیسٹیولز اور ریئلٹی شوز میں بطور جج یا مہمان شامل ہوئیں۔نوجوان گلوکاروں کے لیے تحریک کا ذریعہ بنیں۔ان کا فنی سفر آج بھی جاری ہے، اور وہ اس عمر میں بھی گاتی ہیں جیسے زندگی ابھی شروع ہوئی ہو۔