Inquilab Logo

وحیدہ رحمان نے فلم انڈسٹری میں اول دن سے اپنی شرطوں پر کام کیا، کبھی حالات سے سمجھوتہ نہیں کیا

Updated: October 22, 2023, 11:57 AM IST | Nadir | Mumbai

فلم’ سولہواں سال‘ میں ایک منظر تھا جس میں بارش میں بھیگنے کے بعد دیوآنند اور وحیدہ رحمان دونوں کو اپنے کپڑے تبدیل کرنےتھے، ہدایت کارراج کھوسلہ نے وحیدہ رحمان کو جو لباس بدلنے کیلئے دیا، وہ انہیں منظور نہیں تھا، اسلئے صاف انکار کردیا۔

President of the Republic Draupadi Murmu awarded Waheeda Rahman with the highest honor of Indian film in recent days. Photo: INN
صدرجمہوریہ دروپدی مرمو نے گزشتہ دنوں وحیدہ رحمان کو ہندوستانی فلم کے سب سے بڑے اعزاز سے نوازا۔ تصویر:آئی این این

سیدھا سادہ گھریلو نام ’وحیدہ’ عام سی لڑکیوں جیسا چہرہ اور روایتی’ رکھ رکھائو‘ایک کامیاب ہیروئن بننے کی راہ میں یہ چیزیں رکاوٹ بنتی ہیں ، لیکن جب آپ ’سی آئی ڈی ‘ سے لے کر’ دہلی ۶؍ تک‘ وحیدہ رحمان کے فلمی سفر پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ باتیں محض مفروضہ ثابت ہوتی ہیں ۔ وحیدہ رحمان کی فلموں کی فہرست اس بات پر مہر لگاتی ہیں کہ کامیابی کیلئے اپنے فن سے محبت اور اپنے کام کی لگن ہی اول و آخر شرط ہے۔ دیگر چیزیں ضمنی ہیں۔
  غالباً وحیدہ رحمان ہی وہ اداکارہ ہیں جن کے حصے میں یا تو کامیاب فلمیں آئیں یا پھرکلاسک۔ پیاسا، ۲۰؍ سال بعد ، چودھویں کا چاند، پتھر کے صنم ، رام اور شیام، تیسری قسم، گائیڈ، کالا بازار.... ایک طویل فہرست ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وحیدہ رحمان نے کبھی کسی معمولی فلم میں کام ہی نہیں  کیا۔ ان کی ہر ایک فلم یادگار ہے۔
  تمل ناڈو میں ایک اعلیٰ سرکاری افسر کے گھر میں پیدا ہونے والی وحیدہ رحمان کو محض ۱۳؍ سال کی عمر میں فلموں کی پیش کش ہونے لگی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ انہوں نے بھرت ناٹیم سیکھا تھا اور اسٹیج شو کیا کرتی تھیں ۔ شروع میں تو گھر والوں کے منع کرنے پر انہوں نے فلمیں ٹھکرا دیں لیکن والد کے انتقال کے بعد مالی مشکلات سے نکلنے کیلئے انہوں نے کچھ تیلگو فلموں میں کام کیا جن میں سے ایک فلم مقبول اداکار این ٹی راما رائو کے ساتھ تھی۔اس کے بعد وحیدہ کی شہرت ممبئی ( اس وقت بمبئی) تک پہنچ گئی اورمنفرد موضوعات پر فلم بنانے والے ہدایت کار گرودت نے انہیں ممبئی آنے کی دعوت دی۔
  وحیدہ رحمان اپنی صلاحیتوں کے علاوہ کچھ اصول بھی اپنے ساتھ لائی تھیں جن سے انہوں نے عمر بھر سمجھوتہ نہیں کیا۔ سب سے پہلی آزمائش ان کی یہی تھی کہ گرودت سمیت کئی لوگوں کا خیال تھا کہ وحیدہ رحمان کانام عامیانہ لگتا ہے ۔ انہیں مینا کماری اور مدھو بالا کی طرح کوئی فلمی نام رکھنا چاہئے لیکن وحیدہ رحمان نے صاف طور پر منع کر دیا اور اس بات پر زور دیا کہ وہ اپنے ماں باپ کے دیئے ہوئے نام ہی کے بل بوتے پر آگے بڑھیں گی۔ دوسرا معاملہ آیا لباس کاجو ہر اداکارہ کے ساتھ پیش آتا ہے اور عام طور پر اداکارائوں کو اس معاملے میں سمجھوتہ کرنا ہی پڑتا ہے( یہ ایک عام خیال ہے) لیکن وحیدہ رحمان کو جیسے معلوم تھا کہ اسٹار بننے کیلئے کون سے جوہر ضروری ہیں۔
 اپنےکریئر کے ابتدائی مرحلے ہی میں وحیدہ رحمان نے ایک حد فاصل کھینچ دیا۔ انہوں نے گرودت جیسے پروڈیوسر کے سامنے یہ شرط رکھ دی کہ وہ کوئی لباس اسی وقت زیب تن کریں گی جب وہ انہیں مناسب معلوم ہو۔ ممبئی میں انہیں ۲؍ اہم فلمیں ملیں ایک’ سی آئی ڈی‘ اور دوسری’ سولہواں سال‘۔ اتفاق کی بات ہے کہ دونوں فلموں کے ہیرو دیو آنند تھے اور دونوں فلموں کے ہدایت کار راج کھوسلہ۔ سی آئی ڈی میں ان کا کردار ایک ویمپ (جرائم کی دنیا سے وابستہ خاتون) کا تھا جبکہ سولہواں سال میں وہ ہیروئن تھیں ۔ ویمپ کے کردار میں عام طور پر اداکارہ کو بے باک دکھایا جاتا ہے اس کیلئے جدید طرز کے لباس پہنائے جاتے ہیں ۔ یہ چلن آج تک جاری ہے۔ وحیدہ رحمان نے سی آئی ڈی میں قدرے مختلف لباس ضرور زیب تن کیا ہے لیکن شال یا دوپٹہ کے ذریعے بلا وجہ کی ’بےباکی‘ کو ڈھانکنے کی بھی کوشش کی۔’ سی آئی ڈی‘ میں تو راج کھوسلہ نے مفاہمت کر لی لیکن فلم’ سولہواں سال‘ میں ایک منظر تھا جس میں بارش میں بھیگنے کے بعد دیوآنند اور وحیدہ رحمان دونوں کو اپنے کپڑے تبدیل کرنےتھے۔ راج کھوسلہ نے وحیدہ رحمان کو جو لباس بدلنے کیلئے دیا وہ انہیں منظور نہیں تھا۔ انہوں نے اسے پہننے سے انکار کر دیا۔ اور اس تعلق سے کچھ جواز بھی پیش کئے۔ اس پر راج کھوسلہ برہم ہو گئے اور یہاں تک کہہ دیا کہ یہ وحیدہ رحمان کی آخری فلم ہوگی۔ اتنی کڑی شرائط کے ساتھ وہ فلم انڈسٹری میں چل نہیں سکیں گی۔ دنیا آج جانتی ہے کہ راج کھوسلہ کی یہ بات غلط ثابت ہوئی، اور فلم انڈسٹری اس بات کی گواہ ہے کہ وحیدہ رحمان نے اپنی شرطوں کے ساتھ اس بات کو غلط ثابت کیا۔وہ فلم انڈسٹری میں قائم رہیں۔
وہ اپنے کام میں ماہر تھیں ، محنت کرنے کیلئے تیار تھیں اور ہر چیز سیکھنے کا جذبہ رکھتی تھیں ۔اس لئے انہیں غیر ضروری سمجھوتوں کی ضرورت پیش نہیں آئی۔راج کھوسلہ کی پیش گوئی کے برعکس جیسے جیسے وقت گزرتا گیا سنجیدہ اور معنی خیز فلمیں بنانے والے ہدایتکاروں کی نظر میں وحیدہ رحمان کی اہمیت بڑھتی چلی گئی۔ گرودت کی’ پیاسا‘ تو ہے ہی، ان کی ایک اور فلم’ صاحب بی بی اور غلام ‘باسو چٹرجی کی فلم’ تیسری قسم‘ اور وجے آنند کی’ گائیڈ‘اس کی عمدہ مثال ہے بلکہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وحیدہ رحمان کے سبب راج کھوسلہ کو فلم سے نکال دیا گیا۔ فلم ’گائیڈ‘ میں دیوآنند چاہتے تھے کہ راج کھوسلہ ہدایت کاری کریں لیکن وحیدہ رحمان نے ان کا نام سنتے ہی فلم سائن کرنے سے انکار کر دیا۔ یہاں بھی بات انا کی نہیں اصولوں کی تھی کیونکہ انہوں نے اپنی ماں کے سامنے اس بات کی قسم کھائی تھی کہ وہ راج کھوسلہ کے ساتھ اب کبھی کام نہیں کریں گی۔ اور ان کی والدہ اب اس دنیا میں نہیں تھیں کہ وہ ان سے راج کھوسلہ کے ساتھ کام کرنے کی اجازت طلب کرتیں۔ بالآخر دیوآنند نے راج کھوسلہ کی جگہ وجے آنند کو ہدایتکاری کی ذمہ داری سونپی تب جا کر وحیدہ رحمان نے ہامی بھری۔
  کلاسک فلموں کے علاوہ وحیدہ رحمان کے کریئر میں باکس آفس پر ریکارڈ بنانے والی فلموں کی بھی قطار ہے۔ ’۲۰؍ سال بعد‘ ۱۹۶۲ء میں سب سے زیادہ پیسہ کمانے والی فلم تھی۔ دلیپ کمار کی رام اور شیام نے بھی کامیابی کے کئی ریکارڈ بنائے تھے۔ منوج کمار کی’ نیل کمل ا‘ور’ پتھر کے صنم‘ آج بھی یاد کی جاتی ہیں ۔ عام طور پر عمر کی ڈھلان پر ہیروئنوں کو کام ملنا بند ہو جاتا ہے لیکن وحیدہ رحمان کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔ جب کبھی مضبوط کردار کیلئے کسی اداکارہ کی تلاش ہوئی تو ہدایتکاروں نے وحیدہ رحمان ہی کو یاد کیا۔ یش چوپڑہ کی ’ترشول‘ بظاہر امیتابھ بچن اور سنجیو کمار ( باپ بیٹے) کی کہانی ہے لیکن اس فلم کی شروعات ہی وحیدہ رحمان سے ہوتی ہے۔ ایک گیت اور ۲؍ سین والا یہ کردار فلم کی کہانی میں آخر تک موجود نظر آتا ہے۔ کبھی کبھی میں امیتابھ بچن کی بیوی اور نیتوسنگھ کی ماں کے کردار میں وہ الگ چھاپ چھوڑتی ہیں۔ ۷۰ء کی دہائی میں انہیں معاون مگر اہم کردار ملے اتفاق سے ان میں بھی زیادہ تر سپر ہٹ فلمیں ہی ہیں۔ حتیٰ کہ۸۰ء کی دہائی میں جب انہوں نے زیادہ تر ہیرو یا ہیروئن کی ماں کے کردارکرنے شروع کئے تب بھی انہیں ایسے ہی رول دیئے گئے جو کہانی میں اہمیت رکھتے تھے جیسے نمکین، نمک حرام، ہمت والا ، قلی،مشعل اور چاندنی وغیرہ، یہ سبھی فلمیں سپر ہٹ رہی ہیں۔۹۰ء کی دہائی میں انہوں نے فلموں میں کام کرنا بند کر دیا تھا لیکن ۲۰۰۰ء میں اپنے شوہر کی موت کے بعد انہوں نے دوبارہ اداکاری شروع کی۔ اتفاق سے اس کے بعد بھی انہیں کئی ہٹ فلمیں ملیں۔ ان میں رنگ دے بسنتی، دہلی ۶؍اور وشوا روپم اہم ہیں۔
 تقریباً ۷۰؍ سال کے طویل فلمی سفر میں وحیدہ رحمان کی اہمیت کبھی بھی کم ہوتی ہوئی نظر نہیں آئی۔ وہ اپنے مداحوں کے علاوہ ساتھ کام کرنے والے سینئر اور جونیئر ہر طرح کے فنکاروں میں مقبول رہیں۔ حال ہی میں جب انہیں فلمی دنیا کا( حکومت ہند کی جانب سے) سب سے اہم ’ دادا صاحب پھالکے ایوارڈ‘ملا تو جہاں ان کے مداحوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، وہیں بعض کو اس پر حیرانی بھی ہوئی کیونکہ زندگی میں کبھی اپنے اصولوں سے سمجھوتہ نہ کرنے والی اداکارہ کو ہر اصول کو بالائے طاق رکھنے کیلئے مشہور حکومت کی جانب سے ایوارڈ اپنے آپ میں حیران کن ہے... لیکن ہے بہر حال یہ خوشی کی بات۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK