Inquilab Logo

’مدر اِنڈیا‘ میں ’برجو‘ کے کردار کیلئے سنیل دت کے نام کااعلان ہوا تو یونٹ کے تمام لوگ چونک پڑے تھے

Updated: January 21, 2024, 2:05 PM IST | Anees Amrohvi | Mumbai

فلم ریلیز ہوئی تو لوگوں نے دیکھا کہ سنیل دت نے اپنی آواز اور اداکاری سے ’برجو‘ کے سخت ترین اینگری مین کے کردار میں جان ڈال دی تھی اور فلم کے ہدایت کار محبوب خان کے فیصلے کو درست ٹھہرایا تھا، بعد میں یہی فلم سنیل دت اور نرگس کے درمیان قربت و محبت کا سبب بھی بتائی گئی۔

The masterpiece of its time, which still holds the status of a classic, was released on 25 October 1957 and became a huge success. About 4 months later, Sunil Dutt and Nargis got married on March 11, 1958. Photo: INN
اپنے زمانے کی شاہکار فلم جو آج بھی کلاسک کا درجہ رکھتی ہے، ۲۵؍ اکتوبر ۱۹۵۷ء کو ریلیز ہوئی تھی اور زبردست کامیاب ہوئی تھی۔ اس کے تقریباً ۴؍ ماہ بعد ۱۱؍ مارچ ۱۹۵۸ء کو سنیل دت اور نرگس نے شادی کرلی تھی۔ تصویر : آئی این این

وقت انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دے، کسی کو کچھ معلوم نہیں رہتا۔ وقت جب مہربان ہوتا ہے تو وہ آدمی کو زمین سے اٹھاکر آسمان پر بٹھا دیتا ہے اور دنیا کی ہر دولت، عزت، شہرت اور چاہت اس کے قدموں میں بچھا دیتا ہے اور وقت جب خراب ہوتا ہے تو اس سے دنیا کی ہر خوشی چھین لیتا ہے۔ وقت کا یہ پہیہ آگے پیچھے گھومتا رہتا ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ کسی کا وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا۔ وقت اور حالات کے جو لوگ زیادہ شکار ہوئے، ان میں ایک اہم نام سنیل دت کابھی ہے۔ 
 ملک کی آزادی اپنے دامن میں اس وسیع و عریض ملک کی تقسیم بھی لے کر آئی۔ اس کی وجہ سے ۱۸؍ برس کے ایک نوجوان بلراج دت کو پنجاب کے اپنے گائوں خرد (ضلع جہلم) سے بے دخل ہوکر ہندوستان (پہلے پنجاب اور اب ہریانہ ) کے جمنانگر کے گائوں منڈولی میں آنا پڑا۔ بلراج دت ۶؍جون ۱۹۲۹ء کو پنجاب کے ضلع جہلم (اب پاکستان میں ) کے ایک چھوٹے سے گائوں خرد کے ایک زمیندار خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کا نام دیوان رگھوناتھ دت تھا اور وہ آرمی میں ملازم تھے۔ بلراج بچپن ہی سے بہت شرارتی تھے اور ’چھوٹے دیوان‘ کہلاتے تھے۔ اُن دنوں ایک ملازم کے ساتھ گھوڑے پر بیٹھ کر اسکول جایا کرتے تھے۔ اپنی ماں شریمتی کلونت دیوی کو وہ پیار سے ونتو کہتے تھے۔ بچپن میں بلراج کو غصہ بہت آتا تھا۔ ایک بار وہ اپنی ماں پر اتنا غصہ ہوئے کہ گھر کا دروازہ بند کرکے باہر سے تالا لگاکر چلے گئے۔ گائوں والے اُنہیں پورے گائوں میں ڈھونڈتے پھرے اور آخرمیں وہ اپنے ہی مکان کی چھت پر ایک چارپائی پر سوتے ہوئےملے۔ 
  ابھی وہ ۶؍برس کے ہی تھے کہ ان کے سر سے ان کے باپ کا سایہ اٹھ گیا۔ ملک کی تقسیم کے نتیجے میں اُس خاندان کا سب کچھ ختم ہو گیا اور یہ سب مہاجر بن کر ہندوستان آ گئے جہاں اِن کو حکومت کی طرف سے کچھ زمین دی گئی۔ چھوٹے بھائی سوم دت، ماں اور ایک چھوٹی بہن رانی کی ذمہ داری اب پوری طرح بلراج دت کے کاندھوں پر تھی لہٰذا وہ ماں سے یہ وعدہ کرکے کہ وہ بی اے تک کی تعلیم ضرور حاصل کریں گے، روزگار کی تلاش میں بمبئی چلے آئے اور ریگل سنیما کے پیچھے ایک نائی کی دُکان میں رات کو سونے کا انتظام کر لیا۔ یہاں پر نائی مفت میں ان کا شیو بھی کرتا تھا اور کبھی کبھی بال بھی کاٹ دیا کرتا تھا۔ 
 بمبئی آکر بلراج دت نے بڑی جدوجہد کی اور کسی طرح ’بیسٹ‘ کے ایک ورک شاپ میں ریکارڈسٹ کی ملازمت سو روپے ماہانہ پر حاصل کر لی۔ بمبئی میں ایک رفیوجی کالج قائم کیا گیا تھا۔ اس میں مارننگ کلاسیز ہوا کرتی تھیں۔ بلراج دت صبح ساڑھے ۷؍ بجے کالج جاتے اور پھر دوپہر کو ڈھائی بجے سے رات ساڑھے گیارہ بجے تک قلابہ کے ڈپو میں بمبئی کی بسوں کا حساب کتاب لکھتے تھے۔ کچھ دنوں بعد بلراج دت نے ریڈیو سیلون کے ایک پروگرام ’لپٹن کے مہمان‘ کیلئے فلمی اداکاروں اور فلمسازوں اور ہدایتکاروں سے انٹرویو کرنے شروع کر دیئے۔ اس پروگرام کیلئے اُنہیں بہت معمولی سی تنخواہ ملتی تھی، جس میں وہ بڑی تنگدستی کے ساتھ گزارہ کرتے تھے۔ دن بھر کام کے سلسلے میں ایک اسٹوڈیو سے دوسرے اسٹوڈیو کے چکر لگاتے اور رات کو کافی دیر تک اپنی پڑھائی بھی کرتے تھے۔ ماں سے کیا ہوا بی اے کرنے کا وعدہ انہیں ہمیشہ یاد رہا۔ ریڈیو سیلون میں ملازمت ملنے پر بلراج نے کُرلا میں ایک چھوٹے سے روم میں ۳۰؍روپے ماہوار پر شیئر کر لیا۔ اُس وقت ان کے پاس پہننے کیلئےصرف دو جوڑی کپڑے تھے۔ اُن دنوں انہیں ہمیشہ سفید شرٹ اور سفید پائجامہ میں دیکھا جا سکتا تھا۔ روزانہ رات میں ایک جوڑی کپڑے دھو کر وہ سوکھنے کیلئے چھوڑ دیتے تھے اور دوسری جوڑی پہن کر اسٹوڈیوز کی طرف نکل پڑتے تھے۔ 
 ایک بار وہ سفید کپڑے پہن کر ایک اسٹوڈیو سے دوسرے اسٹوڈیو کیلئے جارہے تھے تو راستے میں چند شریر لڑکیوں نے اُنہیں گھیر لیا، جو ہولی کھیل رہی تھیں اور پانی اور رنگ سے آنے جانے والوں کے کپڑے بھگو رہی تھیں۔ بلراج دت یہ دیکھ کر گھبرا گئے۔ اُنہوں نے ان لڑکیوں سے منت سماجت کی کہ اُس کے کپڑوں پر کوئی رنگ نہ ڈالے، کیونکہ اس کے پاس بدلنے کیلئے کوئی دوسرا جوڑا نہیں ہے مگر لڑکیوں نے اُس کی ایک نہ سنی اور ان کے کپڑوں کو پوری طرح سے رنگ دیا۔ بعد میں یہ باتیں خود بلراج دت نے بتائیں جب وہ سنیل دت سے معروف ہوچکے تھے۔ 
 جن دنوں وہ ریڈیو سیلون میں تھے، انہیں کافی مقبولیت ملی تھی۔ اُس وقت بلراج دت کے پیش کئے گئے پروگرام بہت مقبول ہوئے۔ انہی دنوں اداکارہ نرگس کا انٹرویو کرنے کا خیال انہیں آیا۔ مشہور و معروف مغنیہ جدّن بائی کی بیٹی نرگس اس وقت ایک مصروف اور مقبول اداکارہ تھیں، لہٰذا بلراج دت بار بار نرگس سے انٹرویو کا وقت لیتے رہے اور ہر بار نرگس وقت پر غائب رہتیں۔ تنگ آکر بلراج دت نے نرگس سے انٹرویو کرنے کا ارادہ ترک کر دیا مگر دل کے کسی کونے میں نرگس سے انٹرویو کرنے کی ان کی یہ خواہش جڑ پکڑ چکی تھی لہٰذا ایک بار اور کوشش کی اور اس آٹھویں کوشش میں انٹرویو کیلئے انہیں وقت مل گیا۔ نرگس نے کمرے میں آتے ہی بڑے تیز لہجے میں کہا ’’دیکھئے، میرے پاس وقت بالکل نہیں ہے۔ ۱۰؍ منٹ سے زیادہ میں آپ کو وقت نہیں دے سکتی۔ آپ کو جو پوچھنا ہے فٹافٹ پوچھئے، مجھے اسٹوڈیو جانا ہے۔ ‘‘
 نرگس کی بات چیت کا یہ انداز دیکھ کر بلراج دت ہکا بکا رہ گئے تھے۔ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ اس مغرور عورت سے بات کہاں سے شروع کی جائے، تبھی ان کے کانوں میں وہی تیز طرّار آواز دوبارہ گونجی.... ’’اے مسٹر، آپ کس سوچ میں ہیں ؟ مجھے لگتا ہے کہ آپ کو کچھ پوچھنا ہی نہیں ہے۔ او کے.... میں چلتی ہوں۔ ‘‘ مگر بلراج دت نے انہیں روک ہی لیا اور پھر۱۰؍ منٹ کے بجائے یہ انٹرویو ۱۵؍ منٹ تک چلا۔ یہ تھی بلراج دت عرف سنیل دت کی نرگس سے پہلی ملاقات۔ پھر وقت نے ذرا سی کروٹ بدلی اور بلراج دت کو فلموں میں کام کرنے کی پیش کش ملی۔ یہ شاید ان کی آواز ہی کا کرشمہ تھا جو اُن کو فلموں کی طرف لا رہا تھا۔ 
 دلیپ کمار اور نلنی جیونت کی فلم ’شکست‘ کی شوٹنگ کسی اسٹوڈیو میں تھی۔ اس فلم کے ہدایتکار رمیش سہگل تھے۔ بلراج دت، دلیپ کمار کا انٹرویو کرنے کیلئے سیٹ پر ہی پہنچ گئے۔ انٹرویو کے بعد دلیپ کمار نے بلراج دت سے کہا کہ تمہاری آواز اور شخصیت بہت اچھی ہے، تم خود کیوں ایکٹر نہیں بن جاتے؟ رمیش سہگل نے دلیپ کمار کی پینٹ شرٹ پہنواکر بلراج کا اسکرین ٹسٹ لیا اور تین سو روپے کا پہلا سائننگ امائونٹ دے کر اپنی اگلی فلم کے لئے سائن کر لیا۔ اس وقت بلراج دت بی اے کے تیسرے سال میں تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں ماں سے کیا ہوا وعدہ پہلے پورا کروں گا، اس کے بعد آپ کی فلم میں کام کروں گا۔ رمیش سہگل مان گئے اور اس طرح انہوں نے تقریباً ایک سال انتظار کیا اور پھر۱۹۵۴ء میں فلم ’ریلوے پلیٹ فارم‘ سے بلراج دت نے سنیل دت کے نام سے فلموں میں اداکاری کی شروعات کی۔ یہ فلم ایک سال میں بن کر ۱۹۵۵ء میں ریلیز ہوئی مگر اس فلم کو زیادہ کامیابی نہیں مل سکی۔ سنیل دت پھر بھی مایوس نہ ہوئے۔ اُسی سال ان کو تین فلمیں اور ملیں جن میں سے ایک بی آر چوپڑہ کی ’ایک ہی راستہ‘ تھی۔ بی آر چوپڑہ اس وقت تک ایک کامیاب فلمساز و ہدایتکار کے طور پر اپنے آپ کو قائم کر چکے تھے اور ان کی فلم میں کام کرنا سنیل دت کیلئے بہت بڑی بات تھی۔ اس فلم کو کامیابی بھی ملی۔ فلم ’ایک ہی راستہ‘ کے بعد سنیل دت بی آر چوپڑہ کے مستقل اداکار بن گئے۔ اس کے بعد انہوں نے چوپڑہ کی ’گمراہ، سادھنا، وقت اورہمراز‘ جیسی کامیاب فلموں میں کام کرکے اپنی اداکارانہ صلاحیتوں کو منوایا۔ 
 مشہور فلمساز ہدایتکار محبوب خان نےاپنی کامیاب فلم ’عورت‘ کو دوبارہ ’مدر انڈیا‘ کے نام سے بنانے کا اعلان کیا اور ’برجو‘ کے کردار کیلئے سنیل دت کا نام لیا تو ان کی یونٹ کے سبھی لوگ چونک پڑے تھے۔ اس کے باوجود محبوب صاحب اپنے فیصلے پر اٹل رہے اور بعد میں لوگوں نے دیکھا کہ سنیل دت نے اپنی آواز اور اداکاری سے برجو کے سخت ترین اینگری مین کے کردار میں جان ڈال دی تھی۔

 فلم ’مدرانڈیا‘ سے سنیل دت کی زندگی کا ایک اہم واقعہ بھی جڑا ہوا ہے جس نے سنیل دت کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ اسی فلم میں اُس وقت کی مقبول اداکارہ نرگس کلیدی رول ادا کر رہی تھیں اور سنیل دت نے ان کے چھوٹے بیٹے کا رول ادا کیا تھا۔ فلم کے ایک منظر میں گائوں کا سرمایہ دار کنہیالال، سنیل دت کی کٹی ہوئی فصل میں آگ لگوا دیتا ہے اور سنیل دت بھی اسی فصل میں چھپا بیٹھا ہے۔ نرگس کو معلوم ہے کہ اس کا بیٹا بھی آگ کے انہی شعلوں میں موجود ہے لہٰذا وہ بیقرار ہوکر ’برجو برجو‘ کہتی ہوئی اپنے بیٹے کو تلاش کرتی آگ اور دھوئیں میں بھاگتی دوڑتی پھر رہی ہے۔ 
 شوٹنگ کے دوران نرگس کو برجو تو نہیں ملتا مگر وہ خود چاروں طرف لگی آگ میں گھِر جاتی ہے۔ تب سنیل دت کو معلوم ہوتا ہے کہ نرگس آگ اور دھوئیں میں گھِر گئی ہیں، وہ اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے اس آگ میں کود جاتا ہے اور نرگس کو بچا لاتا ہے۔ اس واقعہ سے نرگس اتنی زیادہ متاثر ہوئیں کہ انہوں نے لوگوں کی مخالفت کو نظرانداز کرتے ہوئے، خود سے عمر میں کافی چھوٹے سنیل دت سے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ سنیل دت نے تذبذب کے ساتھ نرگس کے سامنے شادی کی تجویز رکھی اور آخرکار ۱۱؍ مارچ ۱۹۵۸ء کو دونوں نے شادی کرلی۔ نرگس کے بڑے بھائی اختر حسین اس شادی کے خلاف تھے مگر چھوٹے بھائی انور حسین کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ شادی کے روز نرگس اپنے گھر سے یہ کہہ کر نکلیں کہ وہ اپنی کسی سہیلی سے ملنے جا رہی ہیں۔ ہندو مسلم شادیاں اس وقت اور بھی زیادہ مشکل تھیں، خواہ وہ فلم اسٹار ہی کیوں نہ ہو۔ سنیل دت سے ملنے کا وقت شام ۷؍ بجے کا تھا۔ لنکنگ روڈ پر آریہ سماج کے قریب سنیل دت کھڑے نرگس کا انتظار کر رہے تھے۔ ۷؍بجے، ۸؍ بجے، ۹؍بجے.... حتیٰ کہ رات کے۱۰؍ بجے تک نرگس کا کہیں پتہ نہیں تھا۔ وہاں سے ہٹ کر سنیل دت فون تک کرنے نہیں جا سکتے تھے، کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ وہاں سے ہٹیں اور نرگس آئیں اور سنیل کو خاص مقام پر نہ پاکر لوٹ جائیں۔ وہ اسی ادھیڑبن میں رہے کہ کہیں نرگس نے اپنا ارادہ تو نہیں بدل دیا؟ دوسری جانب نرگس ٹریفک میں پھنس گئی تھیں۔ اُسی دن پوپ جان پال ہندوستان آئے ہوئے تھے۔ بمبئی میں اس سے قبل اتنا زبردست ٹریفک جام نہیں ہوا تھا۔ نرگس ٹیکسی بھی نہیں چھوڑ سکتی تھیں، کیوں کہ ٹریفک کی وجہ سے دوسری ٹیکسی نہیں ملی تو....؟ اور نہ ہی وہاں پارکنگ کی کوئی گنجائش تھی۔ یہ سنیل دت کا ہی حوصلہ تھا کہ اپنے مقام پر ڈٹے رہے اور انتظار کرتے رہے.... دس بجے کے بعد نرگس وہاں پہنچیں اور پھریہ شادی ہو سکی۔ بعد میں سنیل دت اور نرگس کی یہ شادی فلمی دنیا کی ایک مثالی شادی ثابت ہوئی اور نرگس نے ہر اچھے بُرے وقت میں ان کا ساتھ ایک بہترین دوست اور ایک غم گسار بیوی کے روپ میں دیا۔ 
 نرگس سے شادی کے بعد سنیل دت کی کامیابیوں کا سلسلہ تیزی سے شروع ہو گیا۔ ان کی ایک کے بعد ایک فلم کامیابی حاصل کرتی چلی گئی۔ ’’سادھنا، سجاتا، انسان جاگ اُٹھا، ایک پھول چار کانٹے، میں چپ رہوں گی اورگمراہ‘ جیسی فلموں کی کامیابی نے انہیں ہیرو سے اسٹار بنا دیا۔ 
 سنیل دت ایک باہمت، جواں حوصلہ اور مردانہ شخصیت کا نام تھا۔ ’مدر انڈیا‘ کے آگ کے واقعہ کی طرح ہی ایک فلم ’ہمالیہ سے اونچا‘کی لداخ میں شوٹنگ کے دوران فلم کی ہیروئین برفانی طوفان میں گھر گئی تھی۔ سنیل دت نے ہمت اور حوصلہ سے کام لیتے ہوئے اُسی برفانی طوفان میں ہیروئین کو تلاش کیا اور اس کی زندگی بچائی۔ اداکار کےطور پر اپنی اہمیت منوانے کے بعد انہوں نے ’اجنتا آرٹ گروپ‘ کے نام سے نہ صرف فلمسازی و ہدایتکاری شروع کی بلکہ ملک اور قوم کی خدمت کیلئے بہت سے چیریٹی پروگرام بھی پیش کئے اور ۱۹۶۲ء میں ہند چین کی جنگ کے وقت ملک کی سرحدوں پر جاکر اپنے فوجی بھائیوں کی حوصلہ افزائی، دلجوئی اور تفریح کیلئے دلچسپ پروگرام بھی پیش کئے۔ حالانکہ کئی بار ان کو خطرناک برفیلے علاقوں میں بھی ایسے پروگرام کرنے کیلئے جانا پڑا۔ جب ملک پر کوئی مصیبت آئی، سنیل دت ہمیشہ ملک کی خدمت کے لئے پیش پیش رہے ہیں۔ 
 ’مدرانڈیا‘ میں سنیل دت نے نگیٹیو رول نہایت کامیابی کے ساتھ ادا کیا تھا مگر اپنی ہیرو کی امیج کو توڑکر فلم ’پڑوسن‘ میں پہلی بارسنیل دت نے ایک کامیڈی کردار ادا کیا، حالانکہ اس فلم میں محمود اور کشور کمار جیسے کامیڈین بھی موجود تھے مگر اپنے بھولے پن اور احمقانہ حرکتوں والے اس کردار میں سنیل دت نے بہترین اداکاری پیش کی۔ نرگس کے انتقال کے بعد انہوں نے ایک بار پھر اپنی امیج کو توڑا اور ویلن اور اینگری مین کے کردار ادا کئے۔ فلم ’زخمی انسان‘ اور ’بھائی بھائی‘ میں انہوں نے اینگری مین کا کردار ادا کیا اور بی آر فلمز کی فلم ’۳۶؍گھنٹے‘ میں انہوں نے ویلن کا کردار ادا کیا۔ 
 سنیل دت نےفلمی زندگی میں کئی تجربے بھی کئے۔ انہوں نے بازار کی پروا نہ کرتے ہوئے فلم ’یادیں ‘ بنائی۔ اس فلم میں سنیل دت تنہا اداکار تھے اور باقی ان کے چاروں طرف بکھری ہوئی آوازیں تھیں، جو اُن کی یادوں سےمتعلق تھیں۔ ’یادیں ‘ کا پریمیئر بمبئی کے مراٹھا مندر میں ہوا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے راجستھان کی خشک زندگی پر ایک تجرباتی فلم ’ریشما اور شیرا‘ بنائی۔ ان دونوں فلموں کی تعریف دلیپ کمار نے بھی کی تھی۔ فلموں میں سنیل دت کی کامیابی اور مقبولیت کی خاص وجہ تھی اُن کی شخصیت اور دلوں کی گہرائی میں اترتی ہوئی ان کی آواز۔ ان کے مکالموں کی ادائیگی اتنی صاف اور پُراثر ہوتی تھی کہ فلم بینوں کی توجہ پوری طرح ان کی طرف مرکوز رہتی تھی۔ اس کی ایک خاص وجہ ان کی اردو دانی تھی۔ وہ آخر تک اردو ہی میں اسکرپٹ لیتے تھے اور خود بھی اپنا اسکرپٹ اردو ہی میں لکھتے تھے۔ 
  درمیان میں کچھ وقت ایسا بھی آیا جب سنیل دت کی مارکیٹ ویلیو کم ہوئی اور ان کی شہرت میں بھی کمی آئی۔ اس کے کچھ ہی برسوں بعد فلم ’ہیرا‘ اور’پران جائے پر وَچن نہ جائے‘ میں وہ ایک نئے روپ میں لوٹ کر آئے۔ ان فلموں کے ہٹ ہوتے ہی سنیل دت ایک بار پھر فلم انڈسٹری پر چھا گئے۔ اُسی دوران فلم ’سیتا اور گیتا‘ میں لوگوں نے سنیل دت کو ایک الگ انداز میں دیکھا اور جونی کے کردار میں انہوں نے پھر سے انڈسٹری پر یہ ثابت کر دیا کہ وہ صرف ایک اسٹار ہی نہیں بلکہ اداکار ہیں۔ بعد میں فلم ’ناگن‘ کی بے پناہ کامیابی نے سنیل دت کو شہرت کی اسی بلندی پر پہنچا دیا تھا جہاں وہ پہلے تھے۔ ان کی آخری فلم ’مُنّا بھائی ایم بی بی ایس‘ تھی جس میں ان کے بیٹے سنجے دت نے ہیرو کا کردار ادا کیا تھا۔ 
 سنیل دت نے ایک ذمہ دار باپ کا کردار ادا کرتے ہوئے ۱۹۸۱ء میں اپنے بیٹے سنجے دت کیلئے فلم ’راکی‘ بنائی۔ انہوں نے سنجے دت سے صاف الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ اس کے بعد وہ ان کی کوئی مدد نہیں کریں گے اور اُسے خود اپنی صلاحیتوں کے سہارے ہی فلم انڈسٹری میں اپنا مقام بنانا ہوگا۔ نرگس کی بڑی تمنا تھی کہ وہ فلم ’راکی‘ مکمل ہونے پر بیٹے کو سنہرے پردے پر دیکھیں مگر ’راکی‘ مکمل ہونے سے قبل ہی نرگس دت کی زندگی مکمل ہو گئی اور وہ یہ فلم نہیں دیکھ سکیں۔ حالانکہ ’راکی‘ اور اس کے بعد کی کئی فلمیں سنجے دت کو زیادہ کامیابی نہ دے سکیں مگر بعد میں جب اس نے نشہ کی عادت سے توبہ کر لی اور اپنی ساری توجہ اداکاری پر مرکوز کی، تب وہ ایک کامیاب اداکار کے طور پر خود کی پہچان قائم کر سکا۔ 
 دلیپ کمار کے بعد سنیل دت ہی فلمی دُنیا کی دوسری شخصیت ہیں جن کو بمبئی کے شیرف کے عہدہ کیلئے نامزد کیا گیا اور انہوں نے سچے دل اور لگن کے ساتھ اپنے فرائضکی ادائیگی بھی کی۔ نرگس دت کو جب کینسر کے علاج کیلئے امریکہ جانا پڑا تو سنیل دت نے ان کی خدمت اور تیمارداری میں دن رات ایک کر دیا تھا۔ سنیل دت عزم اور حوصلہ کا دوسرا نام تھا۔ ۱۹۸۱ء میں جب کینسر کے موذی مرض سے نرگس کا انتقال ہو گیا تو وہ جیسے ٹوٹ سے گئے مگر جلد ہی انہوں نے خود پر قابو پایا اور اسی موضوع پر فلم’درد کا رشتہ‘ بنائی۔ سنیل دت نے اس فلم کی تمام آمدنی کو کینسر اسپتال کیلئے عطیہ کردیا تھا۔ اس کے علاوہ ٹاٹا میموریل اسپتال میں کینسر وارڈ کو نرگس دت کے نام پر کھلوایا تاکہ کینسر سے حتی الامکان جنگ جاری رکھی جا سکے۔ 
۲۵؍مئی ۲۰۰۵ء کی صبح تقریباً ۱۱؍ بج کر۴۰؍ منٹ پر سنیل دت کو نیند میں دل کا دورہ پڑا۔ اس کی وجہ سے ایک فنکار، ایک سماجی خدمتگار اور کئی فلموں کا خالق اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK