اس مارکیٹ کا اصل نام ’سر و بندھو ‘ہے لیکن عام لوگ اسے’چائنا مارکیٹ ‘ کہنے لگے ، اب یہی نام مشہور ہوگیا ہے۔
EPAPER
Updated: August 26, 2025, 12:47 PM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai
اس مارکیٹ کا اصل نام ’سر و بندھو ‘ہے لیکن عام لوگ اسے’چائنا مارکیٹ ‘ کہنے لگے ، اب یہی نام مشہور ہوگیا ہے۔
کرلا کا چائنا مارکیٹ نام سے لگ رہا ہے کہ یہ کسی کھلونے کا مارکیٹ ہوگا لیکن ایسا نہیں ہے۔ دراصل یہ ایک منی مال ہے جہاں خواتین کا سامان ملتا ہے۔ کھڑے کپڑے ملتےہیں، جو تے چپل، دوپٹہ، مصنوعی زیورات اور میک اپ کا سامان یہاں دستیاب ہے۔ پوچھنے پر پتہ چلا ہےکہ ۲۵؍ سال پہلے ’سرو بندھو‘ کے نام سے یہ مارکیٹ قائم ہوا۔ غالبا ً ۱۵؍ سال پہلے چائنا مارکیٹ کے نام سے اس کی شہرت ہوئی اور اب مقامی سطح پر یہی نام لیا جاتا ہے۔ یہاں دور دور سے لوگ خریداری کیلئے ہیں۔ بتاتے ہیں کہ اس مارکیٹ میں کلیان اور پنویل کے بھی خریدار آتےہیں۔ خاص طور پر شادی کی خریداری کیلئے لوگ چائنا مارکیٹ کا رخ کرتے ہیں۔ یہاں مختلف رنگ اور فیشن کے مطابق ملبوسات ملتےہیں۔
چائنا مارکیٹ کی پہلی دکان مصنوعی زیورات کی ہے۔ دوپہر ڈھائی بجے اس دکان پر گاہک نہیں تھے۔ ایک نوجوان بیٹھا گاہکوں کی راہ دیکھ رہا تھا۔ انقلاب کے اس نمائندے نے وہاں رک کر سب سے پہلا سوال یہی پوچھا کہ کیا یہی چائنا مارکیٹ ہے۔ اس پر نوجوان نے کہا کہ جی ہاں یہی چائنا مارکیٹ ہے۔ کیا چاہئے آپ کو؟ اس نوجوان نے اپنا نام ارشاد انصاری بتایا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ یہاں ۲۰۱۱ء سے کام کرتے ہیں۔ پھر ارشاد انصاری کہنے لگے، ’’یہاں کپڑے کی دکان ہے، کاسمیٹک کی دکان ہے، جیولری کی دکان ہے، کپڑے کی دکانیں ہیں، بھائے اس مارکیٹ کا نام سروے بندھو ہے، پبلک اسے چائنا مارکیٹ بولتی ہے۔ اب یہی فیمس ہوگیا ہے۔ یہ مارکیٹ ۲۵؍ سال سے ہوگی۔ چائنا کے نام سے ۱۵سال سے پہلے مشہور ہوئی ہے۔ ‘‘
اتنے میں ارشاد انصاری کے ہاں گاہک آگئے۔ وہ مصروف ہوگئے اور آگے بڑھے تو ایاز عبد اللہ سید سے ملاقات ہوگئی جو دوپٹے کی تجارت کرتےہیں۔ سوال جواب ہوا تو انہوں نے بتایا، ’’ اس مارکیٹ میں دور دور سے لوگ آتے ہیں۔ یہاں پر کسٹمر سب جگہ سے آتے ہیں، کلیان سے آتے ہیں، پنویل سے آتےہیں۔ یہاں صرف لیڈیز کا سامان ملتا ہے۔ کپڑ ا وغیرہ ملتا ہے۔ ‘‘
کپڑے کی بات ہوئی تو اس نمائند ے نے قدم بڑھایا۔ اندر قطار سے کپڑے کی کئی دکانیں تھیں۔
ساحل کلیکشن پر آفتاب قاضی سے ملاقات ہوگئی۔ وہ کہنے لگے، یہ منی مال ہے، یہ مین کپڑے کی مارکیٹ کی ہے۔ ۷۲؍ دکانیں ہیں تو ۵۰؍ دکانیں کپڑے کی ہوں گی۔ شادی کیلئے یہاں پبلک تھانے سے آتی ہے، ممبرا سے آتی ہے، کلو ا سے آتی ہے، اتر پردیش سے آتی ہے، لکھنؤ سے آتی ہے۔ آن لائن میں ہریانہ اور آسٹریلیا کے لو گ بھی خرید تےہیں۔ ‘‘
ہریانہ اور آسٹریلیا کے سوا آفتاب قاضی نے کسی اور ریاست یا ملک کا نام نہیں لیا۔ وہ بتانے لگے، ’’ان کی انسٹاگرام پر آئی ڈی ہے، یہ آئی ڈی’ساحل کلیکشن‘ کے نام سے ہے، وہ اس پر نئے کلیکشن کے فوٹواور ویڈیو پابندی سے ڈالتے رہتے ہیں، جو بھی نیا مال آتا ہے، اس کی پوسٹ ڈال دیتےہیں۔ نمبر دیکھ کر لوگ کال کرتے ہیں اور آرڈر دیتے ہیں، ان کا آرڈر بھجوایا جاتا ہے، ہوائی جہاز سے بھی آرڈر بھجوایا جاتا ہے۔ اس طرح چائنا مارکیٹ میں آن لائن شاپنگ بھی ہورہی ہے۔ اس سہولت کا لوگ فائدہ اٹھارہےہیں۔ ‘‘
آفتاب قاضی کا کہنا تھا، ’’ چائنا مارکیٹ میں شادی کے جوڑے خوب فروخت ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس کورین سلک میں شادی کے جوڑے کا پورا سیٹ ہے جو ۴؍ ہزارروپے سے ۵؍ ہزار روپے میں ملتا ہے۔ ‘‘
ان کا کہنا تھا، ’’ ہمارے کپڑا ۸۰؍روپے میٹر سے شروع ہوتا ہے۔ ۵؍ ہزار سے ۷؍ ہزار تک پورا سوٹ آجاتا ہے۔ آج کل کورین سلک پر ہینڈورک زیادہ چل رہا ہے۔ ‘‘
آفتاب قاضی کا دعویٰ ہے، ’’یہاں ہر جگہ سے سستا ملتا ہے۔ اچھی چیز بھی مل جاتی ہے۔‘‘