Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’ہم نے خود اپنی رات کو اتنا طویل کر لیا‘‘

Updated: August 25, 2025, 1:57 PM IST | sawar-u-huda | Mumbai

دو درجن سے زائد کتابوں کے مصنف پروفیسر شمس الحق عثمانی گزشتہ اپریل میں راہی ملک عدم ہوئے۔ کم و بیش ربع صدی جامعہ ملیہ اسلامیہ سے وابستہ رہے، اس دوران صدر شعبہ کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۲۰۱۳ء میں سبکدوش ہوئے تھے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 شمس الحق عثمانی ۷۷؍ سال کی عمر میں  ابھی تین چار ماہ قبل ہی رخصت ہوئے ہیں ۔ ان کی زندگی جدوجہد سے عبارت تھی۔ طبیعت کی سخت کوشی نے انہیں  آسودہ حالی میں  بھی ریاضت سے دور نہیں  کیا۔ راقم سے ایک گفتگو میں  انہوں  نے فرمایا تھا کہ ریاضت ہی کے سبب ہم اتنی دور تک آئے اور ریاضت گوپی چند نارنگ سے سیکھی۔ نارنگ صاحب ان کی پی ایچ ڈی کے نگراں  تھے۔
 عثمانی صاحب کی بہت سی خوبیوں  میں  ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ ہر اس شخص کا اعتراف کرتے جس سے انہیں  کوئی روشنی ملی ہو۔ جامعہ آنے کے بعد میں  نے انہیں  بہت قریب سے دیکھا۔ بہت سے موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ ان کی تقریریں  بھی اتنی سنی ہیں  کہ سماعت پر ایک خاص اثر ہے اور اس کی اثر پزیری ذہن کو ان کی تحریر کی طرف منتقل کر دیتی ہے۔ ان کی تحریر اور تقریر کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں  تھا۔ وہ بولتے ہوئے بھی کچھ ایسا تاثر پیش کرتے تھے کہ جیسے لکھنا چاہتے ہوں ۔ لکھتے ہوئے ان کا قلم سست رفتاری کے ساتھ رواں  ہوتا تھا۔ کسی لفظ کو کاٹ کر اس کے سامنے دوسرا لفظ رکھ دیتے اور یہی صورت تقریر میں  بھی دکھائی دیتی تھی۔دوران گفتگو وہ یہ بھی کہتے تھے کہ کیا میں  اپنی بات آپ تک پہنچا سکا۔ شاید میں  اس طرح نہیں  کہہ سکا جس طرح کہنا چاہیے تھا۔ وہ ایک بات کو کئی طرح سے کہنا تو نہیں  چاہتے تھے مگر وہ بات ٹھہری ہوئی معلوم نہیں  ہوتی تھی۔
  تحریر اور تقریر کے درمیان اگر کوئی فاصلہ نہ ہو تو ایسے میں  قلم کار کا ذہن ایک ہی طرح سے فعال رہتا ہے۔ یہ فعالیت ذہن کی اس ساخت کا پتہ دیتی ہے جس میں  تقریر کی گونج بھی ہوتی ہے اور تحریر کا ابتدائی نقش بھی۔ شمس الحق عثمانی صاحب کو سننا کوئی اور طرح کا تجربہ تھا اس کا تعلق سماعت میں  رس گھولنے سے ہرگز نہیں  تھا۔ تقریر میں  الفاظ کچھ اس طرح ادا ہوتے کہ جیسے وہ کاغذ پر بٹھائے جا رہے ہوں ۔کھلتے اور بند ہوتے ہوئے ہونٹوں  کے درمیان لفظ آواز کی سختی اور نرمی کا ایک ساتھ تجربہ کرتے تھے۔ ان کی گفتگو کے درمیان جو وقفے آتے وہ کچھ کہنے اور کچھ نہ کہنے کے دکھ کا پتہ دیتے تھے۔ انہوں  نے ادب میں  قرآت کا جو انداز اختیار کیا وہ بہت مختلف تھا ۔ان کی کتاب ’’بیدی نامہ‘‘ ادبی مطالعہ کا مختلف انداز رکھتی ہے۔  مرحوم نے کسی خاص نظریے کو فروغ دینے کی کوشش نہیں  کی۔ اگر کوئی نظریہ ہو سکتا ہے تو اسے تخلیقی متن کو ڈوب کر پڑھنا کہا جا سکتا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ انہوں  نے مطالعات میں  تاریخی، سیاسی اور سماجی حوالوں  کو بہت اہم نہیں  جانا۔ جدیدیت کا جو اثر انہوں  نے قبول کیا اس میں  متن کو خارجی حوالوں  سے دیکھنا نہیں  تھا۔یہی وجہ ہے کہ بیدی کے مطالعے میں  بھی سماجی حسیت کا ان کے یہاں  وہ مفہوم نہیں  ہے جو ترقی پسندوں  کے یہاں  ہے۔ پھر بھی مطالعے کی کوئی روش سماجی حوالوں  کے بغیر بہت بامعنی نہیں  ہو سکتی۔ ’’بیدی نامہ‘‘ میں  کثرتِ اقتباسات کامعنی تھا کہ ایک قاری کی حیثیت سے دیر تک وہ متن اور قاری کے درمیان رہنا نہیں  چاہتے۔  
 متن کے بنیادی حوالوں  کے ساتھ ساتھ اپنی رائے کو کم سے کم لفظوں  میں  ادا کرنا ان کی ایک خاص ادا تھی۔ متن کو ڈوب کر پڑھنے کا مطلب اسے اپنے حواس پر طاری کر لینا ہے۔ گفتگو میں  اقتباسات کی گنجائش تو بہت کم نکلتی ہے ۔ یہی سبب ہے کہ ان کی گفتگو بڑی حد تک اس تنقید اور تجزیے سے قریب ہو جاتی تھی جس سے ان کا عہد پہچانا جاتا ہے۔ پہلے انہوں  نے ’’نظیر نامہ‘‘ کے نام سے نظیر اکبر آبادی پر کتاب مرتب کی۔ نظیر ان کیلئے مستقل دبستان اور کائنات کی طرح تھے، بعد کو ’’نظیر فہمی‘‘ دو جلدوں  میں  مرتب کی۔’’نظیر فہمی‘‘ ایک معنی میں  ان کے بدلے ہوئے ادبی رویے کا پتہ دیتی ہے۔ نظیر کی عوامی اور جمہوری فکر نے مخصوص ادبی حلقہ کو پریشان کیا۔ نظیر کی شاعری اور اس پر لکھی جانے والی تنقید اُن کیلئے کہانی اور فکشن کی طرح بھی تھی۔ نظیر کی شاعری کا قصہ طولانی اور کافی پھیلا ہوا ہے، اس پھیلاؤ اور وسعت کی اپنی گہرائی ہے۔ انہوں  نے ’’سوغات‘‘کے اداریوں  کو موضوعاتی اعتبار سے مرتب کیا۔ میں  نے پوچھا: آپ نے زمانی ترتیب پر موضوع کی وحدت کو اہمیت دی ہے تو کہا ہاں  ایسا ہی ہے۔ یہ کام اتنا آسان نہیں  تھا مگر انہوں  نے اداریوں  کو بہت توجہ سے دیکھا، پھر ’’اردو ادب‘‘ کے اداریئے بھی اسی نہج پر مرتب کئے۔
 شمس الحق عثمانی نے پروفیسرشمیم حنفی اور ڈاکٹر اسلم پرویز کی شخصیت سے گہرا اثر قبول کیا اور یہی دو شخصیات بطور خاص ان کی زندگی اور ادبی زندگی کا بنیادی حوالہ بن گئیں ۔ ’’پورا منٹو‘‘ کے عنوان سے آکسفورڈ نے چار جلدوں  میں  منٹو کی تحریروں  کو شائع کیا۔ یہ منصوبہ مکمل نہیں  ہو سکا پھر بھی جتنا وہ کر سکے وہ بہت اہم ہے۔ ’’غالب اور منٹو‘‘ کے عنوان سے ان کی ایک کتاب شائع ہوئی۔ غالب اور منٹو کے تخلیقی رویے کے درمیان کسی مشترک فکر کو تلاش کرنے کی کوشش ایک تازہ کار ذہن کا پتہ دیتی ہے۔ ایک باغیانہ ذہن ہے جو غالب سے منٹو کو ملا تھا،یا فطری طور پر منٹو کو غالب کے ذہن سے قریب ہونا تھا۔ انتظار حسین نے نظیر اور منٹو کے عنوا ن سے مضمون لکھ کر یہ بتانے کی کوشش کی کہ دونوں  کے یہاں  زندگی کے معمولی پن سے دلچسپی ہے۔ عثمانی صاحب نے ان دونوں  ادیبوں  کے درمیان باغیانہ روش کو دریافت کرنے کی کوشش کی۔

یہ بھی پڑھئے : ہمارا بار بار بدلتا موقف اور غیر مستحکم خارجہ پالیسی

 عثمانی صاحب کی ایک اہم تحریر ’’غالب مجنوں ‘‘بھی ہے ،جس میں  غالب کے ان اشعار کو یکجا کیا گیا ہے جن میں  جنوں  کے مضامین باندھے گئےہیں ۔ مرحوم کی طبیعت کا رشتہ اس ذہن سے بہت گہرا ہے جو غالب مجنوں  سے قریب ہے۔ اسی لئے انکے یہاں  فطری طور پر رد و قبول کے عمل میں  ایک عالم پیدا ہو جاتا تھا۔ مرحوم نے اپنے لیے زندگی اور ادب میں  جو راستہ اختیار کیا وہ سہل نہیں  تھا۔ زندگی اور ادب کی حدوں  کو ملانے کی کوشش کا مطلب خود کو اور زمانے کوسخت آزمائش میں  ڈالنا ہے۔ زمانہ بھی رفتہ رفتہ تن آسانی اور عجلت پسندی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ انہوں  نے نہ تو جینے کا انداز بدلا نہ ہی ان کی فکر میں  کوئی تبدیلی آئی۔ شب بیداری ان کی مجبوری تھی۔راتوں  کو جاگنا اور دن کا خواب بن جانا۔ یہ زندگی کا کیسا ڈھب تھا۔بقول شہریار:
ہم نے خود اپنی رات کو اتنا طویل کر لیا
 ورنہ ہمارے دور میں  جینے کا ڈھب کچھ اور ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK