اسرائیلی حکومت دہائی دینے لگی ہے کہ ایران ہمارے شہریوں اور شہری علاقوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ اس قسم کا بین و بُکا وہی کرتا ہے جو جنگی محاذ پر یا دفاعی اقدامات میں کمزور پڑ رہا ہو۔
EPAPER
Updated: June 20, 2025, 1:32 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai
اسرائیلی حکومت دہائی دینے لگی ہے کہ ایران ہمارے شہریوں اور شہری علاقوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ اس قسم کا بین و بُکا وہی کرتا ہے جو جنگی محاذ پر یا دفاعی اقدامات میں کمزور پڑ رہا ہو۔
اسرائیل امریکہ کے خلاف روس، چین، شمالی کوریا وغیرہ ملکوں نے ایران کی حمایت میں کھڑے رہنے کا اشارہ دیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کا یہ دعویٰ جتنا بڑا جھوٹ تھا کہ انہوں نے ہند پاک میں جنگ نہیں ہونے دی یا جنگ بندی کرا دی اس سے بڑا جھوٹ امریکی وزیر خارجہ کا ہے کہ ان کے ملک کو خبر نہیں تھی کہ اسرائیل ایران پر حملہ کرنے والا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اگر امریکہ اس حملے سے باخبر نہیں تھا تو ڈونالڈ ٹرمپ یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ ہم نے ایران کو کافی وقت دیا، اب بھی وقت ہے کہ وہ معاہدہ کرلے ورنہ اس کو سنگین ترین حالات سے دو چار ہونا پڑے گا؟ تیسری بات یہ کہ اگر اسرائیل نے اچانک حملہ کرکے ایران کا سب کچھ تباہ کر دیا تو ایران مسلسل میزائیلیں کیسے برسا رہا ہے؟
ذرا یاد کیجئے ۱۹۶۷ء میں اسرائیل نے اچانک حملہ کرکے مصر کی فضائی طاقت کو بالکل مفلوج کر دیا تھا اور پھر ۱۹۷۱ء میں اس نے اپنی قوت دوبارہ حاصل کی تھی۔ پہلے مرحلے میں جنگ بھی جیتی تھی مگر دوسرے مرحلے میں بڑی طاقتوں نے مصر کی جیتی ہوئی جنگ کو شکست میں تبدیل کر دیا تھا۔ اس کے بعد اسرائیل نے حملہ کرکے عراق کے ایٹمی ری ایکٹر کو تباہ کر دیا تھا اور اس کے بعد مختلف موقعوں پر صدام حسین نے اسرائیل پر کروڈ میزائیل پھینکے تھے مگر اپنی دفاعی قوت کا مظاہرہ نہیں کرسکے تھے۔ اس بار یعنی جب اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا ہے تو حالات مختلف ہیں ۔ امریکہ ایران کو دھمکی بھی دے رہا ہے اور صفائی بھی دے رہا ہے کہ ہم ایران پرحملے میں شریک نہیں ہیں ۔ فرانس کہہ رہا ہے کہ ہم اسرائیل کی مدد تو کریں گے مگر جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے۔ سعودی عرب نے کھلے لفظوں میں ایران پر اسرائیلی حملے کی مذمت کی، مملکت فلسطین کے قیام پر اصرار کیا اور پھر حالات معمول پر آنے تک ایرانی حاجیوں کو اپنا مہمان بنائے رکھنے کا اعلان کر دیا۔ شنگھائی تنظیم نے ایران پر اسرائیلی حملے کی مذمت کی مگر ہندوستان نے اس مذمتی بیان سے خود کو الگ کر لیا۔ اگرچہ وہ اب بھی کہہ رہا ہے کہ سفارت اور گفتگو کے ذریعہ کشیدگی کم کی جائے یعنی سیاسی اور سفارتی سطح پر حالات وہ نہیں ہیں جو پہلے تھے اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ ایران نہ صرف اپنا دفاع کر رہا ہے بلکہ اسرائیل پر جوابی حملے بھی کر رہا ہے۔ دونوں طرف سے میزائیلیں اور ڈرونس داغے جا رہے ہیں ۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ جس ملک پر حملہ ہوا جس کے کئی سائنسداں اور فوجی کمانڈر مارے گئے، ایٹمی اور فوجی مراکز تباہ ہوئے وہ بڑھ چڑھ کر حملہ کر رہا ہے۔ اس کے دفاع اور جوابی حملوں سے نہ صرف اسرائیل کے عوام بلکہ حکومت اور فوج بھی خوف زدہ ہیں ۔ اسرائیلی حکومت دہائی دینے لگی ہے کہ ایران ہمارے شہریوں اور شہری علاقوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ اس قسم کا بین و بُکا وہی کرتا ہے جو جنگی محاذ پر یا دفاعی اقدامات میں کمزور پڑ رہا ہو۔ اسرائیلیوں کا ایک بڑا طبقہ نیتن یاہو کا مخالف ہے اور ان کے خلاف تحریک چلا رہا ہے۔ ہم اس طبقے کی جرأت کی قدر کرتے ہیں اسرائیلی پہلے جانتے ہی نہیں تھے یا جانتے تو تھے مگر مانتے نہیں تھے کہ غزہ کے مظلوموں پر کیا گزر رہی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: لالو کی شطرنجی چال اور منگنی لال
یہ بھی خبر ہے کہ اگر امریکہ نے مدد نہ کی ہوتی تو اسرائیل کا اور زیادہ نقصان ہوا ہوتا یا یہ کہ ایران نے اسرائیل کے جدید ترین دفاعی نظام (آئرن ڈوم اور ملٹی لیئر سسٹم) کو ناکام بنا دیا ہے۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق اسرائیل نے اپنے اس ڈیفنس سسٹم پر اربوں ڈالرس خرچ کئے تھے مگر سب ناکام ہوگیا۔ ترکی نے بھی ایران کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر دیا اور اسرائیل کی مذمت کی۔ ایسے میں کئی عرب ملکوں نے (جن میں بیشتر نے ریاست فلسطین کے قیام پر اصرار بھی نہیں کیا تھا) خطے میں بڑے پیمانے پر جنگ چھڑ جانے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے ایران اسرائیل کشیدگی کم کرنے کی اپیل کی ہے۔ ایسا اس لئے بھی ہوسکتا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے ان ملکوں کے سربراہوں کو اشارہ کیا ہو کہ امن کی باتیں کرو، اس لئے کہ اسرائیل تمام تر جارحیت کے باوجود ناکام ہو رہا ہے اور اس لئے بھی کہ اگر جنگ جاری رہتی ہے تو ان کے ملک بھی محفوظ نہیں رہ سکتے۔ بعض ذرائع نے یہ اطلاع بھی دی ہے کہ امریکہ اور اسرائیل نے ایران کے سابق شاہ کے بیٹے کو بلا لیا ہے اور ان کا منصوبہ ایران کی موجودہ حکومت کو ختم یا معزول کرنے کا ہے۔ اس (شاہ کے بیٹے کو اقتدار سونپنے کے) منصوبے کا ناکام ہونا یقینی ہے کہ ایران کے عوام اس کو کبھی برداشت نہیں کریں گے۔ ایران کے باہر بھی اس منصوبے کو ناکام کرنے اور ایران کی جائز حکومت کے حق میں دعا کرنے والے لاکھوں ہیں اور ہر مذہب و مسلک سے تعلق رکھنے والے ہیں ۔ اسرائیل کے اخبارات اسرائیل کی فتح کا اور ایران کے اخبارات ایران کی فتح کی خبر دے رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایران کے دعوؤں کی تصدیق اسرائیل کی عمارتوں کے ملبے یا عوام کے خوف سے بھی ہو رہی ہے۔ اب تک یہ ہوتا تھا کہ اسرائیل عربوں اور فلسطینیوں کی نیند حرام کر دیتا تھا۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ اسرائیل کی عمارتیں کھنڈر ہو رہی ہیں اور ان میں بچے کھچے لوگوں کی نیند حرام ہے۔ افغانستان میں شکست کھانے کے بعد امریکہ توبہ کر چکا ہے کہ وہ کسی ملک میں اپنے فوجی نہیں بھیجے گا ممکن ہے اب یہ بھی عہد کر لے کہ نہ تو کسی ملک پر بمباری کرے گا نہ ہی اس کے خلاف میزائیلیں داغے گا، البتہ یہ نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ اسرائیل نے ایران میں بہت دور گھس کر تباہی مچائی ہے۔ ایرانی عوام سابق شاہ کی خفیہ ایجنسی کے مظالم اور سازشوں کا مقابلہ کر چکے ہیں ۔ ان کیلئے موساد کے ایجنٹوں کو کیفر کردار تک پہنچانا مشکل نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ایران میں موساد کے ایجنٹوں کے علاوہ بھی ایک بڑی حکومت مخالف لابی ہے لیکن اس حقیقت کو بھولنا ممکن نہیں ہے کہ اسرائیل نے پہلی غلطی یہاں کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے قتل کا حکم جاری کرنے کی ہے اور دوسری بڑی غلطی یہ کی ہے کہ شاہ کے بیٹے کو واپس بلایا ہے اور اس کو اقتدار سونپنے کا وعدہ کیا ہے۔ ان غلطیوں کی نشاندہی کے علاوہ یہ بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ ایران اور اسرائیل کی سرحدیں تو ایک نہیں ہیں ، دونوں ملکوں میں دو ڈھائی ہزار کلو میٹر کا فاصلہ ہے، اسرائیل کے بمباروں نے بغیر ایندھن لئے ہوئے یا کسی ملک کی مدد لئے بغیر ایران پر حملے کیسے کئے؟ کیا ایران ان ملکوں کی بھی خبر لے گا جنہوں نے اسرائیلی حملوں میں اعانت کی یا ایندھن مہیا کیا؟ ان میں سرفہرست امریکہ کے مختلف فوجی اڈے ہیں ۔