• Sun, 07 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

منصب کی عظمت کا احساس بھی عنقا ہونے لگا!

Updated: September 07, 2025, 1:57 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

یوم اساتذہ آتا ہے، گزر جاتا ہے۔ اس دن جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ بہت روایتی سا ہوکر رہ گیا ہے۔ اس لئے، سوچنا چاہئے کہ اساتذہ کیلئے ایسا کیا کیا جائے کہ اُن کااحتساب بھی ہو اور اعتراف بھی۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

انگریزی بلاشبہ بڑی زبان ہے مگر اس میں  معلم یا اُستاد کیلئے جو لفظ (ٹیچر) استعمال ہوتا ہے وہ صوتی تنافر تو پیداکرتا ہی ہے، معنوی اعتبار سے بھی اس میں  زیادہ وسعت نہیں  ہے۔ معلم کیلئے ٹیچر سے بہتر الفاظ ہندی میں  ادھیاپک، مراٹھی میں  شکشک، کنڑ میں  مراٹھی سے ملتا جلتا شکشکا، عربی میں  مدرس، فارسی اور آذربائیجانی زبان میں  معلم، فرانسیسی میں  پروفیسور، جاپانی میں  کیوسی اور ڈچ میں  ڈوسینس کانوں  کو بھلے معلوم ہوتے ہیں ، خواہ ان میں  اتنی معنوی وسعت نہ ہو جتنی معلم میں  ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ وضاحت کہ یہ مضمون نگار  اتنی زبانیں  نہیں  جانتا کہ معلم کو دیگر زبانوں  میں  کیا کہا جاتا ہے یہ بتائے۔ مندرجہ الفاظ تک رسائی انٹرنیٹ کی مرہون منت ہے جو دورِ حاضر کا تھیسارس ہے حالانکہ اس کا فرمایا ہوا مستند ہو ضروری نہیں ۔
 آپ جان ہی گئے ہوں  گے کہ آج اس مضمون کا موضوع یوم اساتذہ کی مناسبت سے ہے۔ اس ضمن میں  عرض کرنا چاہتا ہوں  کہ مَیں  اپنے اساتذہ کو اکثر یاد کرتا ہوں ، اس کیلئےیوم اساتذہ کا انتظار نہیں  کرنا۔ ان اساتذہ میں  سے اکا دکا کو چھوڑ کر باقی تمام خلد آشیانی ہو چکے ہیں ۔ جو ہیں  اُن کا حال یہ ہے کہ جتنا اپنے شاگروں  پر ناز کرتے ہیں ، اُتنا ہی شاگردوں  کو اُن پر ناز ہے۔ اچھے اُستاد کی سب سے بڑی خوبی یہی ہوتی ہے کہ اسکول یا کالج کی زندگی ختم ہونے کے بعد بھی اُس کی سرپرستی کا احساس قائم رہتا ہے۔ معاف کیجئے مَیں  نے ’’اچھا اُستاد‘‘ لکھ دیا۔ اچھا اُستاد لکھنا استاد کی توہین ہے کیونکہ اُستاد تو اچھا ہی ہوتا ہے یا اُسے اچھا ہی ہونا چاہئے۔ اچھا نہیں  ہے تو اچھا بننے کی کوشش کرے اور کوشش غیر ضروری معلوم ہوتی ہو تو کسی اور پیشے سے وابستہ ہوجائے اُسے اُستاد بنے رہنے کا حق کیوں  حاصل ہو، مگر، کس سے کہیں ؟ زمانہ ایسی اُصولی باتوں  کو سننے اور سمجھنے کا روادار  نہیں  رہا۔ بہرکیف، کل یوم اساتذہ تھا۔ اِس دِن میری کوشش ہوتی ہے کہ دو چار اساتذہ کو فون کرکے مبارکباد پیش کروں ۔ یہ کوشش اس لئے ہوتی ہے کہ معاشرہ نے یوم اساتذہ کو اُستاد اور شاگرد کے درمیان کا معاملہ بنا کر محدود کر دیا ہے۔ اسے پورے معاشرہ کا معاملہ ہونا چاہئے۔ ضروری نہیں  کہ آپ شاگرد ہوں  تب ہی مبارکباد دیں ، مبارکباد کسی غیر متعلق مدرس یا معلم کو بھی دی جاسکتی ہے۔ اُس نے آپ کو نہیں  پڑھایا مگر دوسروں  کو پڑھایا ہے یا پڑھا رہا ہے۔ ہر وہ شخص جو درس و تدریس کیلئے خود کو وقف کئے ہوئے ہے مبارکباد کا مستحق ہے۔ مبارکباد کے پس پشت مقصد یہ ہونا چاہئے کہ معلم کی حوصلہ افزائی ہو، اُس میں  جوش و خروش پیدا ہو اور یہ احساس جاگزیں  رہے کہ بحیثیت اُستاد اُس کی خدمات کا احساس یا اعتراف اسکول اور کالج کے انتظامیہ ہی کو نہیں  ہے، اہل معاشرہ کو بھی ہے۔ یوم اساتذہ کو اسکول اور کالج کے احاطے سے باہر نکالنے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرہ کا ہر فرد اس دِن اساتذہ کی پزیرائی کرے اور اُن کا حوصلہ بڑھائے۔ کیا یہ نہیں  ہوسکتا؟ ہوسکتا ہے مگر اب تک نہیں  ہوا۔ کیوں  نہیں  ہوا؟ یہ سوال کون کرے اور کس سے کرے!
  مدرس یا معلم کا تعلق صرف اُس کی کلاس کے طلبہ سے نہیں  ہوتا۔ اگر وہ معمار قوم ہے تو اُس کا تعلق قوم سے ہے۔ اُس کو صرف طلبہ کے والدین، اسکول اور کالج انتظامیہ یا محکمۂ تعلیم ہی کو جوابدہ نہیں  ہونا چاہئے۔ چونکہ معمار قوم ہے اس لئے قوم کو جوابدہ ہونا چاہئے مگر نہ تو وہ خود اس زاویۂ نگاہ کو ملحوظ رکھتا ہے نہ ہی قوم اس کی فکر کرتی ہے۔ پھر بھی معمار قوم کہتی ہے۔ طرفہ تماشا دیکھئے کہ معمار ِ قوم بھی کہتی ہے اور کچھ اونچ نیچ ہوجائے تو بُرا بھلا بھی کہتی ہے۔   
 یوم اساتذہ پر جب مَیں  چاہتا ہوں  کہ اساتذہ کو مبارکباد پیش کروں  تو میرے تصور میں  بیک وقت کئی چہرے اُبھرتے ہیں ۔ بہت سی جگہیں  خالی بھی رہتی ہیں  جن میں  کوئی چہرہ نہیں  ہوتا۔ خالی جگہوں  والے وہ اساتذہ ہوتے ہیں  جن سے میری شناسائی نہیں  ہے مگر مَیں  سوچتا ہوں  کہ کیا اُس معلم کو بھی مبارکباد دوں  جس نے کئی لاکھ کی رشوت دے کر تقرری حاصل کی ہے؟ کیا اُس کی بھی حوصلہ افزائی کروں  جو کلاس میں  ہوکر بھی کلاس میں  نہیں  ہوتا؟ کیا اُس کو بھی قابل داد اور قابل حوصلہ افزائی قرار دوں  جو اپنے پیشے سے انصاف کے بیشتر تقاضوں  پر پورا نہیں  اُترتا؟ کیا اُس کو بھی اساتذہ میں  شمار کروں  جس میں  اساتذہ جیسی خوبیاں  دکھائی نہیں  دیتیں ؟ کیا اُس کا بھی اعتراف کروں  جو ویسی ہی زبان بولتا ہے جیسی عام لوگ بولتے ہیں  اور جسے اپنے لب و لہجے یا الفاظ سے ممتاز ہونا چاہئے، نہیں  ہے؟ کیا اُس کو بھی عزت دوں  جو تفویض کردہ مضمون تو اچھا پڑھاتا ہے مگر کلاس کے باہر مغلظات بھی بکتا ہے؟ کیا اُس کو بھی قدر ومنزلت سے نوازوں  جو میرے جذبے کی اس لئے قدر نہیں  کرسکتا کہ خود اپنے منصب کی قدر سے نابلد ہے؟ کیا اُس کو بھی ستائشی کلمات کا تحفہ دوں  جو کسی کی ستائش نہیں  کرتا؟ کیا اُس کی بھی توصیف کروں  جو طلبہ کے دلوں  میں  گھر نہیں  کرتا بلکہ حساب پڑھانا ہے تو حساب پڑھا کر نکل جاتا ہے اور سائنس پڑھانا ہے تو سائنس پڑھا کر چھٹی پاتا ہے؟ جب اتنے سوالات تصور کے پردے سے جھانکنے لگتے ہیں  تو میری کوشش ہوتی ہے کہ جن سے بہت اچھی واقفیت ہے اور جن کی مخلصانہ اور ایماندارانہ خدمات کا معترف ایک زمانہ ہے اُنہی کی خدمت میں  ہدیۂ مبارکباد پیش کروں  اور یہ سمجھوں  کہ فرض ادا کرلیا۔
 یہ ایک پہلو ہے۔ دوسرا وہ ہے جس کا تذکرہ کم کم ہی کیا جاتا ہے۔ وہ یہ کہ معاشرہ میں  ایسے اساتذہ بھی ہیں ، اور شکر ہے کہ آج بھی خاصی تعداد میں  ہیں   جو اپنے منصب کی عظمت سے واقف ہیں ، جو پڑھاتے ہیں  تو گویا دل نکال کر رکھ دیتے ہیں ، جن میں  جذبہ ہے، جو محنت کرتے ہیں ، اپنے شاگردوں  کو اپنا ذہن عطا کرنے کیلئے کوشاں  رہتے ہیں ، جو تنخواہ کیلئے نہیں  پڑھاتے بلکہ پڑھاتے ہیں  اس لئے تنخواہ بھی لے لیتے ہیں  اور جنہیں  ’’تعلیمی سیاست‘‘ سے دلچسپی نہیں  ہوتی، دلچسپی صرف طلبہ کی اہلیت اور صلاحیت سے اور اُنہیں  قابل ِ قدر بنانے کی سعی سے ہوتی ہے۔ ممکن ہے یہ مخلص اساتذہ کی آخری کھیپ ہو۔ آئندہ، مخلص اساتذہ چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہ ملیں  ایسا ہوسکتا ہے، اسلئے مخلص اساتذہ کو ایسے شاگردوں  کی شناخت کرنا چاہئے اور اُنہیں  ترغیب دینی چاہئے جو آگے چل کر مخلص اساتذہ بننے کے امکان سے لیس ہوں ۔ یہ بڑی خدمت ہوگی۔

education Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK