Inquilab Logo

سادگی ، بے خودی اور ہوشمندی کے عناصر سے پُر نظم

Updated: November 27, 2023, 1:06 PM IST | Pradeep Niphadkar | Mumbai

مراٹھی کے مشہور لوک گیتوں کے اردو ترجمے کی ۲۱؍ ویں قسط میں ملاحظہ کریں آرتی پربھو کی وہ شاندار نظم جس کی تازگی آج بھی محسوس کی جاتی ہے۔

Written by Aarti Prabhu, this song is composed of elements of spontaneity and consciousness. Photo: INN
آرتی پربھو کا لکھا گیا یہ گیتبے خودی اور ہوش مندی کے عناصر سے مل کر بنا ہے۔ تصویر : آئی این این

محمدرفیع صاحب ، ہیمنت کمار ، مکیش اور کشور کمار نے مراٹھی گانے گائے ہیں۔ اسی طرح مہندر کپور نے بھی مراٹھی گیتوں کو اپنی آواز سے سجایا ہے۔ مراٹھی فلموں کے معروف فلمساز  دادا کونڈکے  کے ساتھ انہوں نے بہت سے گیت گائے ۔ سریش بھٹ کی ایک نظم ’پورتتا ماجھیا ویے تھے چی ماجھیا مرتیوت وہاوی ‘(میری موت میرے تمام دکھوں کو ختم کردے تو اچھا ہو گا)، یہ گیت کون بھول سکتا ہے۔ لیکن آج ہم  نے جس گیت کا انتخاب کیا ہے وہ آرتی پربھو نامی معروف شاعر کا ہے۔ آر تی پربھو مراٹھی زبان کے مشہور ادیب چنتا منی ترمبک کھانویلکر کا تخلص تھا ۔ انہیں پس از مرگ ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ مارچ ۱۹۳۰ء میں سندھو درگ ضلع کے وینگورلا کے قریب واقع باگل ناچی رائے گائوں میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئےکھانویلکر نے اپنی زندگی کے۵۰؍ سال بھی نہیں دیکھے۔ وہ اپریل ۱۹۷۶ء میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ 
آرتی پربھو نے اپنے ایک ساتھی اور شاعر منگیش پڈگائونکر کی مدد سے ممبئی آکاش وانی میں ملازمت حاصل کرلی تھی لیکن انہیں اپنے اصولوں پر سختی سے قائم رہنے والے رویے کی وجہ سے یہ ملازمت چھوڑنی پڑی۔ ان کی نظموں کے ابتدائی مجموعے میں یاد داشت کی تحریک مرکزی احساس کا درجہ رکھتی ہے۔ ان نظموں میں عاشق کی رومانی وضاحت نہیں ہے جیسا کہ ان کے ہم عصر مراٹھی شعراء کے یہاں موجود ہے  بلکہ ان کی نظمیں عشق کے بیان سے شروع ضرور ہوتی ہیں لیکن ان میں غم کی شدت اس قدر شدید ہوتی ہے کہ نظم اداسی کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ ان کے ۲؍ ناولوں کو فلم کی شکل میں ڈھالا گیا ۔ایک ناول’ گنورائے‘ پر ایک ٹیلی فلم ستیہ دیو دوبے نے بنائی تھی جبکہ امول پالیکر اور دپتی نول کی فلم ’ان کہی ‘  آرتی پربھو کے ڈرامے ’کالائے تسمے نماہ‘ پر مبنی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: آغازِ عشق کو الفاظ میں سجانے کی دل نشیں کوشش

آج ہم جو گانا دیکھنےجارہے ہیں وہ بقول غالب ؔ سادگی و پرکاری ، بے خودی  اور ہوش مندی  کے عناصر سے مل کر بنا ہے۔کسی نے کہا ہے کہ یہ گیت محبوبہ کے بارے میں لکھا گیا ہے تو کسی کے لئے یہ شاعر کی اپنی شاعری کا نمائندہ ہے۔ کسی نے اسے ضد اور جوش سے جوڑ دیا ہے۔ اس گیت کی موسیقی ہردے ناتھ منگیشکر نے دی ہے۔ نظم یا گیت اگر غزل کے فارم میں ہوتو اس پر دھن تیار کرنا آسان ہو تا ہے لیکن اگر اندازِسخن  آزاد نظم والا ہو یا  بحر کی پابندی نہ کی گئی ہو تو  اس کی دھن تیار کرنا بہت مشکل کام ہے لیکن یہاںبھی ہردے ناتھ منگیشکر نے کامیابی حاصل کی ہے۔  یہ گیت گایا ہے مہندر کپور جی نے ۔ آئیے گیت دیکھتے ہیں:
تی یے تی آنیک جاتے 
یے تا نا کدھی کڑیا آنیتے 
ان جاتانا پھلے ماگتے 
(وہ آتی ہے اور جاتی ہے۔ آتے وقت کچھ کلیاں لاتی ہے اور رخصت ہوتے وقت  اس کے گل مانگتی ہے۔)
یے نے جانے دینے گھینے 
استے گانے جی نا کدھی  تی مہنتے 
(آنا اور جانا ، ملنا ملانا اور لین دین یہ تو ٹھیک ہے ۔ اس کا گانا وہ کبھی بھی گاتی نہیں۔)
یے تانا کدھی  اشی  لاجتے 
تر جاتانا تی لاجویتے
کڑتے کاہی اگیچ تے ہی 
نکڑت پاہی کاہی باہی 
ارتھ واچون اگیچ  ناہی ناہی مہنتے 
(آتے وقت وہ کبھی کبھی شرما جاتی ہےلیکن جاتے وقت وہ مجھے بھی شرمادیتی ہے۔ وہ جو کچھ سمجھتی ہے فضول سمجھتی ہے۔ جب دیکھتی ہے تو بلاوجہ دیکھتی ہے۔اس کی ہاں اور نا میں بھی کچھ معنی نہیں ہیں۔ بغیر سمجھے وہ نا کردیتی ہے۔)
یے تاناچی کس لی ریت 
گن گن تے تی سندھیا گیت 
 جاتانا کدھی پھرون ییت 
جانیا ساٹھیچ  دُرون ییت 
وچتر  یےتے  ویرون  جاتے جی جی سلتے 
(آنے کے وقت کا یہ کیا رواج ہے ؟ وہ شام کا گانا گاتی ہے۔ جاتے وقت کبھی کبھی  واپس آجاتی ہے۔ دور دور سے چلی جاتی ہے۔ اس کا آنا جانا بڑا عجیب ہوتا ہے۔ کمال ہو تا ہے جب  وہ آتی ہے اور مجھ میں سماجاتی ہےلیکن میرا یہی ایک دکھ ہے۔)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK