ہمارے آئین کے آرٹیکل ۲۶؍میں اس بات کی وضاحت ہے کہ حکومت کسی بھی مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی۔ اوقاف کا معاملہ بھی صد فیصد مذہبی ہے۔
EPAPER
Updated: August 29, 2024, 1:01 PM IST | Dr Mushtaq Ahmed | Mumbai
ہمارے آئین کے آرٹیکل ۲۶؍میں اس بات کی وضاحت ہے کہ حکومت کسی بھی مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی۔ اوقاف کا معاملہ بھی صد فیصد مذہبی ہے۔
ان دنوں ہندوستان میں مسلم طبقے میں جس طرح کی اضطرابی کیفیت دیکھنے کو مل رہی ہے اس کے وجہ سے ہر وہ شخص واقف ہے جو ہندوستان کی موجودہ سیاست کی سمت ورفتار پر نظر رکھتا ہے۔ کیوں کہ ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی ملک کے پہلے وزیر اعظم ہیں جنہوں نے حالیہ پارلیمانی انتخاب میں ہی اس حقیقت کا انکشاف کردیا تھا کہ وہ جب تیسری بار وزیر اعظم ہوں گے تو ان کے عمل وکردار کے خطوط کیا ہوں گے۔ مگر افسوس صد افسوس کہ وہ تمام مسلم تنظیمیں جو ان دنوں وقف ترمیمی بل کو لے کر ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں کے لیڈروں سے مل رہی ہیں ، اپنا میمورنڈم پیش کررہی ہیں اور ان ملاقاتوں و میمورنڈم پیش کرنے کے’’ فوٹو سیشن‘‘کی تمام تر تصاویر پرنٹ اور سوشل میڈیا کے حوالے کر رہی ہیں ۔ اس وقت چوں کہ حکومت کی طرف سے جو وقف ترمیمی بل لایا گیا ہے وہ غیر آئینی ہے اس لئے اپوزیشن اتحاد بھی مسلمانوں کی حمایت میں بول رہے ہیں ۔ ایک جمہوری ملک میں کسی بھی غیر جمہوری عمل کے خلاف آواز بلند کرنے کی آزادی ہر شہری کو ہمارا آئین دیتا ہے اس لئے مسلم تنظیموں کا مختلف سیاسی جماعتوں کے لیڈروں سے ملنا اور میمورنڈم دینا ان کی معقول سمجھ کا نتیجہ کہا جا سکتا ہے۔ مگر افسوس اس بات پر ہے کہ چھوٹی بڑی تمام تنظیمیں اس حقیقت کو جانتے ہوئے کہ پارلیمنٹ میں جن سیاسی جماعتوں نے اس بل کی حمایت کی ہے اس کے ساتھ فوٹو سیشن کی تصاویر پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعہ عوام میں عام کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ مسلم اقلیت طبقے کی اکثریت ان تصاویر کو دیکھ کر غم وغصہ کا شکار ہو رہی ہے۔ واضح ہو کہ بہار میں جنتا دل متحدہ، لوک جن شکتی پارٹی (رام ولاس ) اور ہندوستانی عوام مورچہ قومی جمہوری اتحاد کا حصہ ہے اور ان تمام سیاسی جماعتوں نے پارلیمنٹ میں اس بل کی حمایت کی ہے۔ جنتا دل متحدہ کے لیڈر للن سنگھ نے جس طرح اس بل پر اپنا نظریہ پیش کرتے ہوئے لوک سبھا میں حکومت کے اس قدم کی تعریف وتحسین کی اور اس کی حمایت کی وہ اظہر من الشمس ہے۔ مگر مسلم تنظیموں کے اراکین کی معصومیت پر قربان جائیے کہ وہ للن سنگھ کو بھی اپنا میمورنڈم پیش کررہے ہیں اور اس کی تصویر شائع کرا رہے ہیں۔ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار جو جنتا دل متحدہ کے سپریمو ہیں ان کی اجازت کے بغیر ان کی پارٹی کے ممبران پارلیمنٹ کچھ نہیں کر سکتے اور للن سنگھ نہ صرف مودی کابینہ میں مرکزی وزیر ہیں بلکہ نتیش کمار کے ایک طاقتور حمایتی لیڈر ہیں۔ ایسی صورت میں للن سنگھ کے لوک سبھا میں دئیے گئے بیانات کو بہت ہلکے میں نہیں لیا جانا چاہئے۔ اسی طرح چراغ پاسوان بھی مودی کابینہ میں وزیر ہیں اور انہوں نے بھی پارلیمنٹ میں اس بل کی حمایت کی ہے۔ پھر بھی مسلم تنظیموں کا وفد ان کو میمورنڈم پیش کر رہا ہے اور خوش فہمی کا شکار ہے کہ وہ مودی حکومت کے اس بل کی مخالفت کریں گے۔ جہاں تک ہندوستانی عوام مورچہ کے لیڈر جیتن رام مانجھی کا سوال ہے تو وہ اس بل کی حمایت میں اب بھی بول رہے ہیں اس لئے مسلم تنظیموں کو سیاست کی اس شطرنجی چال کو سمجھنا ہوگا اور اپنی لڑائی صرف اور صرف آئینی حقوق کی روشنی میں لڑنی ہوگی۔ واضح رہے کہ ہمارے آئین کے آرٹیکل ۲۶؍میں اس بات کی وضاحت ہے کہ حکومت کسی بھی مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی۔ اوقاف کا معاملہ بھی صد فیصد مذہبی ہے۔ وقف کرنے والا اپنی جائیداد فی سبیل اللہ وقف کرتا ہے اور اس جائیداد کی آمدنی کا صرفہ اسلامی اداروں ، مذہبی عبادت گاہوں ، قبرستانوں اور غریب ونادار کے لئے مختص ہے۔ اس لئے اس بل کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہی راحت دے سکتی ہے۔ اگرچہ حزب اختلاف کی مخالفت کے بعد یہ بل جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی (جے پی سی) کے حوالے ہوا ہے اور وہاں سے جب تک ہری جھنڈی نہیں ملے گی اس وقت تک یہ بل پاس نہیں ہو سکتا۔ مگر اس خوش فہمی کودور کرلینا چاہئے کہ جے پی سی میں فیصلہ اس بل کے خلاف ہی ہوگا۔ کیونکہ وہاں بھی اکثریت کی بنیاد پر ہی فیصلہ ہونا ہے اور اس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی کی بھلے ہی پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت نہیں ہے لیکن دیگر پارٹیوں کے ۵۲؍ممبران پارلیمنٹ کی بدولت وہ حکومت میں ہے اور اس حکومت نے اپنے عمل وکردار سے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ بیساکھی پر ٹکی حکومت ضرور ہے لیکن اسے آزادانہ طورپر کام کرنے کی اجازت ملی ہوئی ہے ورنہ آندھرا پردیش میں چندرا بابو نائیڈو جو مسلمانوں کی حمایت سے برسوں بعد حکومت میں واپس آئے ہیں وہ سیدھے طورپر یہ اعلان کردیں کہ ان کی جماعت وقف بل کی حمایت نہیں کرتی ہے تو خود بخود اس بل کی واپسی ہو جائے گی جیسا کہ حال کے دنوں میں یو پی ایس سی میں لیٹرل انٹری اور بروڈ کاسٹ حکم نامے رد ہوئے ہیں ۔ مگر چندرا بابو نائیڈو اور ان کی پارٹی کے ممبران پارلیمنٹ میں اپنا موقف واضح کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔ یہاں اس تلخ حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ اوقاف کی ملکیت کا مصرف کس طرح ہوتا رہاہے اور اوقاف کی جائیداد پر غاصبانہ قبضہ کون لوگ کرتے رہے ہیں اس سے حکومت انجان نہیں ہے۔ اگر وقف کے متولی آج بھی اوقاف کی ملکیت کی آمدنی کا گوشوارہ حکومت کے سامنے پیش کردیں اور ملک بھر میں جتنی اوقاف کی جائیداد ہے اس کا گوشوارہ متولیوں کے ذریعہ مشتہر کیا جائے تو خود بخود حکومت اپنے سازشی عمل کو ترک کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔ لیکن کیا آج کوئی ایسا متولی ہے جو اوقاف کی جائیداد اور اس کی آمدنی کا گوشوارہ شائع کرنے کو تیار ہے ؟یہ لمحۂ فکریہ ہے اور اس پر بھی غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ دنیا کی تاریخ کے اوراق اس حقیقت کے آئینہ ہیں کہ جب کوئی قوم خود اپنی خود احتسابی سے غافل ہو جاتی ہے تو وہ اسی طرح پسپائی کا شکار ہوتی ہے۔ جہاں تک اپنے ملک کا سوال ہے تو اس ملک میں جس طرح کی فضا قائم ہے اس سے بھی مسلم اقلیت طبقہ نا آشنا نہیں ہے۔ اس لئے نمائشی فوٹو سیشن، اجلاس ومذاکرے سے زیادہ ضروری ہے کہ آئینی تقاضوں کے تحت عدالت سے رجوع کریں اوراب بھی وقت ہے کہ اوقاف کی ملکیت کا صحیح استعمال کرنے کیلئے کوئی ٹھوس عمل تیار کیا جائےتاکہ حکومت کو یہ جواب دیا جا سکے کہ ہمارے آباواجداد نے جس مقصد کیلئے اوقاف قائم کیا تھا وہ پورا ہو رہاہے۔