Inquilab Logo

عرب اسرائیل تعلقات اوپر نیچے ، آگے پیچھے

Updated: September 15, 2020, 8:35 AM IST | Hasan Kamal

گزشتہ ہفتے صدر ٹرمپ نےشاہ سلمان سے فون پر بات کی۔ مبینہ طور پر شاہ سلمان نے جواب دیا کہ سعودی عرب اس وقت تک اسرائیل کو تسلیم ہی نہیں کر سکتا، جب تک کہ فلسطین نہ بن جا ئے۔

Arab Israel
عرب اسرائیل

 اچانک اعلان ہوتا ہے کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین سفارتی تعلقات  قائم ہو رہے ہیں۔ واویلا مچتا ہے اور  پاکستان  میں متحدہ عرب امارات کے سفیر  وہاں کے ایک جریدے میں مضمون لکھ کر  بتاتے ہیں کہ اسلامی تعاون تنظیم (اوآئی سی)کے ۵۷ ؍میں سے ۲۷ ؍ممالک نے اس اقدام کا خیر مقدم کیا ہے۔  پھر صدر ٹرمپ کے دامادجیرڈ کشنر اپنے جگری دوست محمد بن سلمان سے ملتے ہیں۔ ایم بی ایس اسرائیلی طیارے کو پہلی بار سعودی آسمانوں سے یو اے ای  جانے کی اجازت دیدیتے ہیں۔ نیتن یاہو خوشی سے اچھل پڑتے ہیں۔ اپنے ہم وطنو کو ’’امن ‘‘ کی اس فتح پر جشن منانے کو کہتے ہیں کہ عربوں کو ذرا سی بھی زمین دیئے بغیر اتنا بڑا’’معرکہ‘‘ سر ہو گیا۔ کئی مسلم اکثریتی ملکوں میں ماتم کی سی فضا پائی جاتی ہے۔ ترکی اور ایران ان اقدامات کی کھل کر مذمت کرتے ہیں۔ فلسطینی بھی سراپا احتجاج نظر آتے ہیں۔ پھر ایک پاکستانی صحافی دنیا کے واحد نیوکلیائی مسلم اکثریتی ملک پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کا انٹر ویو کرتاہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے سوال پر عمران خان کہتے ہیں کہ ان کا ضمیر گوارا نہیں کرے گا کہ جب تک ایک آزاد  ریاست فلسطین نہ بن جائے تب تک پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرے۔ اس کے دو ہی دن بعد عرب دنیا کا صحافتی آزادی کا علمبردارواحد میڈیا سمجھا جانے والا ٹی وی چینل الجزیرہ عمران خان کا انٹرویو لیتا ہے اور یہی سوال کرتا ہے۔ عمران اسے بھی وہی جواب دیتے ہیں۔ پوچھا جاتا ہے کہ کیا ان پر کسی طرف سے دبائو بھی ڈالا جا رہا ہے۔ وہ جواب میں کہتے ہیں کہ دبائو ہے اور شدید دبائو ہے، لیکن اگر میں اس دبائو میں آجائوں تو اللہ کو کیا جواب دونگا۔ ڈراما کے سین تیزی سے بدلنے لگتے ہیں۔
 حالات کی سن گن پاتے ہی امریکی وزیر  خارجہ مائیک پومپیو  حرکت میں آگئے۔سوڈان  واحد  غیر عرب مسلم ملک تھا، جس نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے ہامی بھری تھی۔پومپیو سیدھے سوڈان پہنچے۔ لیکن سوڈان کے وزیر اعظم احمد ہمڈوگ نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ ان کی سرکار عبوری  ہے، آئین اسے اتنا بڑا فیصلہ کرنے  کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ پہلا جھٹکا تھا۔پومپیو وہاں سے بحرین پہنچے۔ بحرین بھی آمادگی ظاہر کر چکا تھا۔ لیکن اب اس کا موقف بدل کر یہ ہو چکا تھا کہ فلسطین کی ریاست کا قیام عمل میں آئے بغیر بحرین کے لئے اسرائیل کو تسلیم کرنا مشکل ہو گا۔ یہ دوسرا جھٹکا تھا۔متحدہ عرب امارات کے ساتھ معاملات طے پا چکے تھے، لیکن اسے بھی یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑا کہ اسرائیل سے تعلقات کے لئے فلسطینیوں کے مفاد کو قربان نہیں کیا جا سکتا۔بڑا بیان ابھی آنا باقی تھا۔وہ بھی آگیا۔ گزشتہ ہفتے صدر ٹرمپ نےشاہ  سلمان سے فون پر بات کی۔ مبینہ طور پر شاہ سلمان نے جواب دیا کہ سعودی عرب اس وقت تک اسرائیل کو تسلیم ہی نہیں کر سکتا، جب تک کہ فلسطین نہ بن جا ئے۔ وہ یہیں پر نہیں رکے ۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو وہ سارا عرب علاقہ بھی واپس کرنا ہوگا جس پر اس نے ۱۹۶۷ ءکی جنگ میں قبضہ کر لیا تھا۔ ان سب باتوں سے اگر کوئی یہ نتیجہ نکالے کہ عربوں نے اپنا فیصلہ بدل دیا ہے تو یہ درست نہیں ہوگا۔ ان حالات کے محرکات کو سمجھنا ہوگا۔ زیادہ ترعرب ریاستیں بادشاہتیں ہیںجہا عوام کی رائے جاننے کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی لیکن عوام کی رائے کو یکسر  نظر انداز کرنا بھی ممکن نہیں ہوتا ۔ کیونکہ ا  فرمانروا جانتے ہیں کہ عوام کا خاموش غصہ ایک حد سے آگے پہنچ کر پھٹ بھی سکتا ہے۔   عرب فرمانروائوں کو عرب بہاریہ بھی یاد ہے۔ایک اندازہ ہے کہ ترکی، ایران اور پاکستان کے موقف کوعرب عوام اپنے جذبات کی بہتر ترجمانی سمجھتے ہیں۔اب ذرا ایک نظر اسرائیل پر ڈال لیں۔ ہندوستان کے انگریزی اور ہندی میڈیا کا ۹۰ ؍فیصد سے بھی زیادہ بڑاحصہ اسرائیل نواز ہے۔ یہ میڈیا تو ہندوستان میں ہونے والے ہنگاموں اور مظاہروں کی خبر بھی نہیں دیتا، اسرائیل کے بارے میں کیا خبر دے گا۔ لیکن یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اسرائیل اس وقت شدید سیاسی خلفشار کا شکار ہے۔ اسرائیل میں لیڈروں کے خلاف عوام کی سڑکوں پر اترنے کی روایت نہیں رہی ہے، لیکن آج ہر روز نیتن یاہو کی قیام گاہ کے سامنے ہزاروں اسرائیلی جمع ہو رہے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں بڑے بڑے بینر ہوتے ہیں ، جن پر  لکھا ہوتا ہے’’ نیتن  یاہو خدا کے واسطے اب ہماری جان چھوڑ دو‘‘۔ نیتن یاہواور ان کی اہلیہ پر کرپشن کے الزامات ثابت ہو چکے ہیں۔ وہ اگر وزیر اعظم کے عہدے پر فائز نہ ہوتے تو کب کے گرفتارہو چکے ہوتے۔ا نہیں گزشتہ ۲۴؍ اگست تک اسرائیل کا دو سالہ قومی بجٹ پیش کر دینا تھا، لیکن اتحادی بینی گینز سے اختلافات کے سبب وہ آج تک پیش نہیں کیا جا سکا ہے۔  نیتن یاہو نے الیکشن سے قبل وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ وزیر اعظم بنے تو غرب اردن کو اسرائیل میں ضم کر دیں گے۔ اب تو انہیں غرب اردن میں کالونیوں کی تعمیر کا منصوبہ بھی منسوخ کرنا پڑا ہے۔ اس کے بغیر تو وہ عربوں سے بات ہی نہیں کر سکتے تھے۔ وہ جب موجودہ ڈیولپمنٹ کو ــــــــ ’’ـامن کی فتح‘‘ کہتے ہیں، تو در اصل اپنے ہم وطنوں کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔انہیں یہ بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر ڈنالڈ ٹرمپ ہار گئے تو بھی انہیں امریکی مدد ملے گی۔ لیکن یہ مدد ویسی  نہ ہوگی، جیسی ہوا کرتی تھی۔اس کے بعد ۷۶؍ لاکھ آبادی والے اسرائیل کیلئے چاروں طرف ٹھاٹھیں مارتے عرب عوام کے سمندر کے درمیان اپنی بقا کی حفاظت ناممکن العمل ہوگا۔ خطرناک ترین اسلحے بھی اس کی بقاء کی ضمانت نہ دے سکیں گے۔ روس جیسی عالمی طاقت کو اسلحے کب بچا پائے تھے۔ اسرائیل کی بقا ء کی لئے عرب دنیا اور مسلم دنیا سے مفاہمت نہ صرف لازمی ہے، بلکہ مجبوری بھی ہے۔دوسری طرف عرب دنیا کو بھی معلوم ہے کہ اقوام متحدہ کی ۱۹۴۸ ءکی تجویز نمبر ۱۸۱ ؍نے ریاست اسرائیل کو ایک زندہ زمینی حقیقت بنا دیا ہے، جسے انہیں تسلیم کرنا ہی پڑے گا۔ مذکورہ تجویز یہ تھی کہ برطانوی مقبوضہ فلسطین کا ایک حصہ یہودیوں کا اسرائیل اور دوسرا حصہ عربوں کا فلسطین ہوگا۔ مگر اسرائیل تو ہے، لیکن فلسطین ابھی تک نہیں ہے۔ یہ فیصلہ بھی کیا گیا تھا کہ مغربی یروشلم ، جہاں یہودیوں کی مقدس دیوار گریہ ہے، اسرائیل کے پاس رہے گا اور مشرقی یروشلم جہاں مسجد اقصیٰ ہے، فلسطین کا دارالسلطنت ہوگا۔ جب تک تجویز نمبر ۱۸۱ ؍کا باقی نصف عمل پذیر نہیں ہوجاتا ،عربوں کی بھی مجال نہیں ہے کہ وہ اسرائیل سے کوئی صلح کر لیں۔ اسی لئے ہم دیکھ رہے ہیں کہ عرب اسرائیل تعلقات اوپر نیچے اور آگے پیچھے ہو رہے ہیں۔امریکہ کے انتخابی نتائج یا تو صلح نامہ پر مہر آخر ثابت ہوں گے یا موجودہ صلح کے تابوت کی آخری کیل ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK