Inquilab Logo

پوچھیں، ہم سے کتنی خوش ہے آزادی

Updated: August 14, 2021, 2:05 PM IST | Shahid Latif

آزادی کے مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کے ذریعہ ہی آزادی کی قدر کی جاسکتی ہے۔ اس کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ غلامی اور غلام قومیں کیسی ہوتی ہیں۔ غلامی میں جینے والے عوام کیسے ہوتے ہیں۔ مختلف ملکوں کے دورِ غلامی کے مطالعے سے ان سوالوں کا جواب مل جاتا ہے۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔تصویر :آئی این این

اسنظم کے چند مصرعے تو آپ نے بھی سنے ہوں گے، دیگر اشعار بھی سن لیجئے تاکہ جن قارئین کے پاس یہ نظم محفوظ نہ ہو وہ اسے محفوظ کرلیں ۔ یہ شفیق رامپوری کے زور قلم کا نتیجہ ہے:
بولیں اماں محمد علیؔ کی / جان بیٹا خلافت پہ دے دو 
ساتھ تیرے ہیں شوکتؔ علی بھی /  جان بیٹا خلافت پہ دے دو 
گر ذرا سست دیکھوں گی تم کو /  دودھ ہرگز نہ بخشوں گی تم کو 
میں دلاور نہ سمجھوں گی تم کو /  جان بیٹا خلافت پہ دے دو 
غیب سے میری امداد ہوگی /  اب حکومت یہ برباد ہوگی  (برٹش سرکار) 
حشر تک اب نہ آباد ہوگی /  جان بیٹا خلافت پہ دے دو 
کھانسی آئے اگر تم کو جانی /  مانگنا مت حکومت سے پانی 
بوڑھی اماں کا کچھ غم نہ کرنا /  کلمہ پڑھ پڑھ خلافت پہ مرنا 
پورے اس امتحاں میں اترنا/  جان بیٹا خلافت پہ دے دو 
ہوتے میرے اگر سات بیٹے/  کرتی سب کو خلافت پہ صدقے 
ہیں یہی دین احمد کے رستے /  جان بیٹا خلافت پہ دے دو 
حشر میں حشر برپا کروں گی /  پیش حق تم کو لے کے چلوں گی 
اس حکومت پہ دعویٰ کروں گی/  جان بیٹا خلافت پہ دے دو 
چین ہم نے شفیقؔ اب نہ پایا /  جان بیٹا خلافت پہ دے دو 
 وطن کی آزادی کتنی قربانیوں کے بعد ملی ہے اور آزادی کا کیسا جذبہ اُس دور میں لہو بن کر شریانوں میں گردش کرتا تھا، اس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے، اسی لئے یہ نظم یہاں نقل کی گئی ہے تاکہ یہ اندازہ اور احساس کیا جاسکے کہ اُس دورکی مائیں اپنے بچوں کو آزادی کی راہ میں قربان کرنے کیلئے کتنی پُرجوش رہا کرتی تھیں حتیٰ کہ کہتی تھیں کہ اگر ایک نہیں سات بیٹے ہوتے تو وہ ساتوں کو راہِ وطن میں قربان کرنے میں تامل نہ کرتیں۔ ایسی اور بھی سیکڑوں مثالیں جدوجہد آزادی کے موضوع پر لکھی گئی کتابوں میں موجود ہیں بشرطیکہ آج کا انسان اس خام خیالی کے تحت کتابوں سے دور نہ ہو کہ کتابوں کے بغیر بھی زندہ رہا جا سکتا ہے، کتابیں روٹی، کپڑا اور مکان تھوڑے ہی ہیں! ایسا سوچنے والے نہیں جانتے کہ کتابوں میں کیا کیا محفوظ ہے۔ رہی زندہ رہنے کی بات تو یہ کام چوپائے اور حشرات الارض بھی کرتے ہیں۔ 
 کسی بھی قوم کی زندگی میں آزادی اور یوم آزادی کی جو اہمیت ہوتی ہے اُس کو سمجھنا اُس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتا جب تک دورِ غلامی کے مسائل و مصائب سے کماحقہ آگاہی نہ ہو اور اُنہیں پوری شدت کے ساتھ محسوس نہ کیا جائے۔ اُجالے کی قدروقیمت وہی جان سکتا ہے جو گہری تاریکی سے نبرد آزما رہا ہو، آزادی کی نعمت کو تب ہی نعمت سمجھا جاسکتا ہے جب غلامی کی تاریخ اور اس کے شب و روز سے مکمل واقفیت ہو۔ ہم میں سے بیشتر لوگ آزادی کی جدوجہد کی جزئیات سے واقف نہیں ہیں۔ ہم میں سے بیشتر کو چند موٹی موٹی باتیں معلوم ہیں اور مجاہدین آزادی میں سے محض چند کی شخصیت اور خدمات سے واقفیت ہے۔ جو لوگ کالا پانی بھیجے گئے، جنہیں پھانسی دی گئی، جن پر گولیاں داغی گئیں اور جن کا دائرۂ حیات تنگ کیا گیا اُن کے حالات معلوم کئے جائیں تب کہیں جاکر یہ احساس فزوں ہوگا کہ وہ کیا دور تھا اور اس کے مقابلے میں یہ کیسا دور ہے جس میں سانس لینے، چلنے پھرنے، تعلیم حاصل کرنے، ترقی کرنے، املاک و جائیداد خریدنے اور اپنی بات کہنے کی آزادی ہے۔ ذرا سوچئے خدانخواستہ  اس آزادی پر قدغن لگ جائے تو؟ ابھی جب سخت قسم کا لاک ڈاؤن نافذ تھا تب کی حالت اور آج کی حالت کا فرق ہی دیکھ لیجئے!
 اکثر لوگ آزادی کے بعد ملک کے نظام میں پائی جانے والی خرابیوں کو آزادی کا نقص قرار دینے میں تردد نہیں کرتے جبکہ یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔ ہم آزاد ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں ہے مگر  ہمیں کتنی آزادی میسر ہے یہ الگ سوال ہے جس کا تعلق قا نون بنانے اور نافذ کرنے والے حکمرانوںسے ہے۔ لطف یہ ہے کہ ان  کے بنائے ہوئے قوانین یا پالیسیوں کے خلاف ملکی قوانین ہی کے مطابق جمہوری  جدوجہد جاری رکھی جاسکتی ہے۔ اس جدوجہد میں زیادہ توانائی اور جوش اُسی وقت پیدا ہوگا جب ایک ایک شہری آزادی کی قدر کرے گا، اسے نعمت سمجھے گا، اس کی حفاظت کرے گا اور اسے استحکام بخشنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہے گا۔ 
 ممکن ہے یہ سطریں پڑھتے وقت یہ سوال ذہنوں میں پیدا ہو کہ آزادی کی حفاظت کا طریقہ کیا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آزادی کی حفاظت اپنے آئینی حقوق جاننے اور ان کے حصول کی کوشش کے ساتھ ساتھ فرائض کی ادائیگی کے ذریعہ کی جاسکتی ہے اور جس آئین نے شہریوں کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے اُس کی مکمل پاسداری کے ذریعہ کی جاسکتی ہے۔اگر ہم اپنی آزادی سے خوش نہیں ہیں توکبھی تصور کیجئے کہ کیا آزادی ہم سے خوش ہے؟
 اگر آزادی کی تجسیم ہو، وہ ہمارے سامنے موجود ہو اور سوال کرے کہ آپ اس کی قدر اور حفاظت کے کتنے جتن کرتے ہیں؟ تب کیا ہم اپنے حکمرانوں کا گلہ کریں گے کہ اُنہوں نے قدر اور حفاظت نہیں کی، ہم کیا کریں، ہم تو عوام ہیں!
  میرے خیال میں، اس جواب سے آزادی مطمئن نہیں ہوگی، وہ کہے گی کہ جتنی آزادی حکمرانوں کو حاصل ہے اُتنی ہی عوام کو بھی حاصل ہے، عوام کا فرض اپنے حصے کی آزادی کی حفاظت کرنا ہے، اس کی قدر کرنا ہے اور ایک دوسرے کی آزادی کو یقینی بنانا ہے کہ ایک کی وجہ سے دوسرے  پر آنچ نہ آئے۔ دوسروں کے حقوق سلب کرنا اُن کی آزادی چھیننا ہے، چاہے وہ زمین جائیداد کاغیر قانونی قبضہ ہو یا روزمرہ کا چھوٹا سا معاملہ مثلاً راہ چلتے کسی دوسرے پر سبقت لے جانے کی دھاندلی کرنا، یا، اس سے بھی چھوٹا معاملہ یعنی کسی محفل میں کسی دوسرے کو کچھ کہنے کا موقع ہی نہ دینا۔ اس سے دوسروں کی آزادی متاثر ہوتی ہے۔  انسان ایسی ہی چھوٹی چھوٹی آزادی کو یقینی بناکر آزادی کے وسیع تر تصور کو عملاً پھلتا پھولتا دیکھ سکتا ہے۔ ہر معاملہ  میں حکمرانوں کو الزام دینا اپنی فکر و نظر کو محدود کرنے کے مترادف ہے، انسان اتنا کوتاہ بیں کیسے ہوسکتا ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس نہ کرے، اُن پر نگاہ نہ کرے بلکہ کسی اور کو ذمہ دار ٹھہراتا رہے۔ حالات بنتے بگڑتے رہتے ہیں، یہ حقیقت فراموش نہیں کی جاسکتی کہ اچھے وقتوں میں بھی وہی اچھا قرار پائیگا جس نے خود کو اچھا رکھا ہو، اچھا ثابت کیا ہو، مضبوط بنایا ہو اور اس راز کو سمجھا ہو کہ جڑ مخدوش ہو تو کتنی ہی زرخیز زمین میں لگائی جائے، شجر سایہ دار نہیں بن سکتی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK