Inquilab Logo

اسمبلی انتخابات انجام کو پہنچے، اب لوک سبھا الیکشن کا کھیل شروع ہوگا

Updated: December 05, 2023, 1:03 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai

سیاسی جماعتوں کو اس بات کا احساس دلانا ہے کہ ملک کے اصل موضوعات بے روزگاری، مہنگائی، تعلیم اور صحت کے شعبے کی ابتری، بنیادی سہولتوں کا فقدان، فرقہ پرستی اورعوامی نمائندوں کی آمریت پسندی ہیں۔ حکومت کرنے والی جماعتوں سے اس کا حساب لینا ہے اور حکمرانی کی خواہش کرنے والی پارٹیوں سے پوچھنا ہے کہ وہ بتائیں کہ ان مسائل کو حل کرنے کاان کے پاس کیا پروگرام ہے؟

The election process has been completed in five states, now the preparations for the upcoming elections will start from here. Photo: INN
پانچ ریاستوں میں انتخابی عمل مکمل ہوگیا، اب یہاں سے آئندہ انتخابات کی تیاریاں شروع ہوں گی۔ تصویر : آئی این این

پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات اپنے انجام کو پہنچے۔ جس وقت آپ ان سطورکو پڑھ رہے ہوں گے، نتائج یا کم از کم اس کے رجحانات آپ کے سامنے ہوں گے۔ کہیں خوشی تو کہیں غم کا ماحول ہوگا۔ کوئی خیمہ جشن منا رہا ہوگا تو کسی خیمے میں اداسی چھائی ہوگی۔ سچ پوچھئے! تو یہ وقت احتساب کا ہے۔ سیاسی جماعتوں کیلئے بھی اور عوام کیلئے بھی کہ انہوں نے جو چاہا تھا، ویسا ہوا کہ نہیں ؟ اگر ہوا تو آگے کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہئے؟ اور نہیں ہوا تو مستقبل کی منصوبہ بندی کیسی ہونی چاہئے؟ ان حالات میں سیاسی جماعتوں سے زیادہ ذمہ داری عوام کی ہوتی ہے کیونکہ کسی بھی جمہوری ملک میں جمہوریت کے اصل محافظ عوام ہی ہوتے ہیں ۔ عوام کی چشم پوشی اور خاموشی حکمرانوں کو آمر بنادیتی ہے۔
 پانچ ریاستوں کے انتخابات میں بہت کچھ ایسا ہوا، جو نہیں ہونا چاہئے تھا اور بہت کچھ نہیں ہوا، جو کہ ہونا چاہئے تھا۔ سیاسی جماعتوں نے صرف ووٹوں کے نفع نقصان کا خیال رکھا، ملک اور ملک کی سالمیت کا نہیں ۔ ملک کی دونوں بڑی جماعتیں کانگریس اور بی جے پی اس حمام میں برہنہ نظر آئیں لیکن چھوٹی جماعتوں نے بھی کوئی کور کسر باقی نہیں رکھی۔ ان میں سے بیشتر کا زور بنیادی موضوعات پر کم اور عوام کے جذباتی استحصال پر زیادہ رہا۔ عوام سے متحدہوکر ووٹ دینے کی اپیل کرنے والی جماعتوں میں اتحاد کا فقدان نظر آیا۔ ملک کے مفاد کو مقدم رکھنے کا دعویٰ کرنے والی جماعتیں بھی قومی مفاد کو نقصان پہنچاتی ہوئی دکھائی دیں۔ کہیں ای ڈی کا تو کہیں سی ڈی کا زور رہا۔ لیڈروں پر کہیں انکم ٹیکس کے چھاپے رہے تو کہیں باغیوں نے ان کی نیند اُڑائی۔ بیشتر نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور انہیں غلط ثابت کرنے میں اپنی توانائی صرف کی اور ایسا کرتے ہوئے اخلاقیات کی حدیں بھی پار کیں .... افسوس اس بات کا ہے کہ عوام کا ایک بڑا طبقہ بھی ان کے ساتھ مختلف خانوں میں تقسیم ہوکر ان کے سُر میں سُر ملاتا ہوا نظر آیا۔
 جو ہوا، سو ہوا۔ اب نتائج سامنے ہیں ۔ لیکن یہی نتائج سب کچھ نہیں ہیں ۔ اصل امتحان ۵۔۴؍ ماہ بعد ہونے والا ہے، جس کی تیاری بہت ممکن ہے کہ کل ہی سے شروع ہو جائے۔ یہ سالانہ نہیں ، پنج سالہ امتحان ہے جس کے نتائج ملک کی سمت و رفتار طے کریں  گے۔ ایسے میں ان لوگوں پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے جو کسی بھی جمہوری ملک میں توازن سنبھالنے، بنانے اور بگاڑنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ ان تمام ممالک میں جہاں انتخابی عمل کے ذریعہ حکمرانوں کا انتخاب ہوتا ہے، رائے دہندگان کی ایک غالب تعداد اپنی اپنی پسند کے امیدواروں کی طرفدار ہوتی ہے۔ ان کی برائیاں ان کیلئے قابل قبول ہوتی ہیں ، اسلئے ان کی خامیاں بھی انہیں اچھی لگتی ہیں ۔ لیکن رائے دہندگان کا ایک چھوٹاسا طبقہ ایسا بھی ہوتا ہے جو ووٹ دینے سے قبل اپنے شعور کا استعمال کرتا ہے، وہ کسی پارٹی کا ’بندھوامزدور‘ نہیں ہوتا اور یہی طبقہ حکمرانوں کے انتخاب میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ وطن عزیز میں ایسے لوگوں کی تعداد ۱۵؍ سے ۲۰؍ فیصد تک بتائی جاتی ہے۔ 
 آج یعنی نتائج کے دن ملک کے اسی طبقے سے تعلق رکھنے والے رائے دہندگان کو اپنا احتساب کرنا ہے کہ پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں انہوں نے اپنے شعور کا استعمال کس حد تک کیا؟اوراس کے کیا نتائج برآمد ہوئے؟ انہیں جائزہ لینا ہے کہ ان کی کوششوں نے کیا رنگ دکھایا؟ انہیں کس حد تک کامیابی ملی؟ یا پھر یہ کہ ان سے کہاں چوک ہوئی؟ آج کے انتخابی نتائج کی روشنی میں انہیں آئندہ کی حکمت عملی ترتیب دینی ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرنا ہے کہ اسمبلی انتخابات کی طرح لوک سبھا کے آئندہ الیکشن میں جذباتی موضوعات حاوی نہ ہوں۔
سیاسی جماعتوں کو اس بات کا احساس دلانا ہے کہ ملک کے اصل موضوعات بے روزگاری، مہنگائی، تعلیم اور صحت کے شعبے کی ابتری، بنیادی سہولتوں کا فقدان، فرقہ پرستی اورعوامی نمائندوں کی آمریت پسندی  ہیں۔ حکومت کرنے والی جماعتوں سے اس کا حساب لینا ہے اور حکمرانی کی خواہش کرنے والی پارٹیوں سے پوچھنا ہے کہ وہ بتائیں کہ ان مسائل کو حل کرنے کاان کے پاس کیا پروگرام ہے؟ سیاسی جماعتوں کو متنبہ کرنا ہے کہ ’مورکھوں کا سردار‘ اور ’پنوتی‘ جیسے رکیک الفاظ کااستعمال کرکے عوام کو نہ الجھائیں۔ انہیں بتادینا ہے کہ اپنے لیڈروں کے کپڑے پھاڑنے اور اتحادی جماعتوں کے لیڈروں کے نام بگاڑ کر بولنے کوہم نے پسند نہیں کیا ہے اور اپنی ہار دیکھ کر پاکستان کو یا د کرنے والوں کابھی ہم نے برا مانا ہے۔
 اسمبلی انتخابات کے نتائج ظاہر ہوتےہی لوک سبھا کا کھیل شروع ہوجائے گا۔ ایسے میں  عوام کو محتاط رہنے اور اپنا موقف طے کرلینے کی ضرورت ہے۔  اس بار کچھ اور موضوعات سامنے ہوں گے۔بابری مسجد کی جگہ پر تعمیر کئے گئے رام مندر  کے افتتاح کے بعد جہاں بی جے پی ایک نئی طرح کے ہندوتوا کی لہر پر سوار ہونے کی کوشش کرے گی وہیں  ذات پر مبنی مردم شماری کے موضوع کو کانگریس زور و شور سے اٹھائے گی۔ کئی ریاستوں میں ریزرویشن کا موضو ع بھی اپنا اثر دکھائے گا۔  ای ڈی اور سی بی آئی اب پہلے سے کہیں زیادہ سرگرم ہوگی۔لیڈروں کی کردار کشی پہلے سے بھی کہیں زیادہ ہوگی، بالخصوص گاندھی خاندان، بی جے پی کے آئی ٹی سیل کے نشانے پر ہوگا۔ اس کیلئے  ڈیپ فیک جیسی تکنیک کا سہارا بھی لیا جاسکتا ہے۔ انڈیا بھارت، ون نیشن ون الیکشن ، یو سی سی، سی اے اے  اورحلال سرٹیفکیشن جیسے تنازعات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔
 ایسےمیں بہت کچھ ذمہ داری انہیں ۲۰۔۱۵؍ فیصد رائےدہندگان پر ہوگی جو انتخابات میں اپنے شعور کا استعمال کرتے ہیں اور کسی بھی سیاسی جماعت کی ہار جیت کا راستہ ہموار کرتے ہیں۔ اگر یہ کہیں توغلط نہ ہوگا کہ یہ الیکشن سیاسی جماعتوں سے زیادہ عوام کیلئے ایک امتحان ہوگا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK