Inquilab Logo

بنگلہ دیش کی نصف صدی: قابل رشک ترقی

Updated: March 31, 2021, 7:17 PM IST | Parvez Hafeez

بنگلہ دیش جو ۵۰؍ سال قبل مکمل طور پر زرعی معیشت تھا، آج اس کی اکنامی کی گاڑی کو صنعت کا انجن تیزی سے کھینچ رہا ہے۔ بنگلہ دیش کے گارمنٹس کا ایکسپورٹ ۴۰؍ بلین ڈالر کے قریب پہنچ چکا ہے۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔تصویر :آئی این این

پچیس؍ اور ۲۶؍ مارچ ۱۹۷۱ءکی درمیانی رات مشرقی پاکستان کے عوام کیلئے قیامت کی رات ثابت ہوئی۔ اس رات پاکستانی فوج نے بنگالی باشندوں کی بغاوت کو کچلنے کیلئے قتل عام شروع کردیا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو اس رات ڈھاکہ میں موجود تھے۔ ۷؍ دسمبر ۱۹۷۰ء کو ہوئے پہلے عام انتخابات کے نتائج بالکل واضح تھے۔ ۳۰۰؍ نشستوں والی قومی اسمبلی میں عوامی لیگ نے ۱۶۰؍ اور پاکستان پیپلز پارٹی نے ۸۱؍ سیٹیں جیتی تھیں۔ عوامی لیگ کے صدر شیخ مجیب الرحمٰن کا وزیر اعظم بننا طے تھا۔ تاہم، بھٹو کے دباؤ میں صدر اور ملٹری ڈکٹیٹر یحییٰ خان نے مجیب کو اقتدار سونپنے سے انکار کردیا۔ مغربی پاکستان کے بددماغ اور متعصب سیاستدانوں اور فوجی حکام کو یہ بات قطعی گوارا نہیں تھی کہ مشرقی پاکستان کے کسی لیڈر کو ملک کا سربراہ بنایا جائے۔ تین ماہ تک سیاسی تعطل برقرار رہا اور کشیدگی بڑھتی رہی۔  بالآخر مشرقی پاکستان نے بغاوت کا علم َ بلند کردیا۔ تنازع کا سیاسی حل ڈھونڈنے میں ناکام یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان پر فوجی دھاوا بول دیا۔ ’’آپریشن سرچ لائٹ‘‘ کے آغاز کے ساتھ ہی مجیب کو گرفتار کرکے راولپنڈی جیل میں بند کردیا گیا۔ گرفتاری سے ذرا قبل مجیب نے بنگلہ دیش کی آزادی کے اعلان کا ایک پیغام ریکارڈ کرواکر اپنے قریبی رفقاء کے حوالے کردیا تھا جسے ۲۶؍ مارچ کو  ایک خفیہ اڈّے سے پورے ملک میں نشر کیا گیا۔ ۲۶؍ مارچ ہی کی صبح کو کراچی روانہ ہونے سے قبل بھٹو نے کہا تھا: ’’خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا!‘‘ لیکن یہ ان کی خام خیالی تھی۔ اپنے ہی شہریوں کیخلاف فوجی آپریشن کرکے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادتوں نے دراصل ملک کی سالمیت اور یکجہتی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی تھی۔ حالانکہ ملک کو آزادی نو ماہ کی طویل، صبر آزما اور خون آشام جد وجہد کے بعد ۱۶؍ دسمبر ۱۹۷۱ء کو اس وقت حاصل ہوئی جب سقوط ڈھاکہ ہوگیا اور ۹۳؍ ہزار پاکستانی فوجیوں نے ہتھیار ڈال دیئے، تاہم، بنگلہ دیش ہر سال ۲۶؍ مارچ کو اپنا یوم آزادی مناتا ہے کیونکہ اسی دن بنگالی قوم پرستوں نے اعلانِ آزادی کیا تھا۔
 پچھلے ہفتے اس تاریخ سازواقعے کی نصف صدی پوری ہوئی۔ ۵۰؍ سال قبل مشرقی پاکستان غربت، بھوک اور بے روزگاری کا مارا ہوا خطہ تھا جسے نومبر ۱۹۷۰ء کے بھولا نام کے ہولناک سمندری طوفان نے تباہ کردیا تھا۔ رہی سہی کسر چند ماہ بعد ہوئی عوامی بغاوت اور فوجی کارروائی نے پوری کردی تھی۔ جب بنگلہ دیش معرض وجود میں آیا تو اقوام عالم کو اس کی خستہ حالی کے مدنظر شک تھا کہ پاکستان سے الگ ہوکر کرہ ارض کا یہ ٹکڑا اپنے وجود کی حفاظت بھی کرسکے گا۔ پچھلے ۵۰؍ برسوں میں کرۂ ارض کے اس ٹکڑے نے بہت سے نشیب و فراز دیکھے اور بے شمار مصائب کا سامنا کیا۔ لیکن جنوبی ایشیا کا یہ سب سے کم عمر ملک نہ صرف صحیح سلامت رہا بلکہ اس نے بڑی تیزی سے اتنی زبردست ترقی کر لی کہ عالمی ماہرین اقتصادیات یہ پیش گوئی کررہے ہیں کہ جلد ہی یہ ملک دنیا کی سب سے تیز گام معیشت بن جائیگا۔
 کبھی جس کی شناخت قحط سالی، مفلوک الحالی، بیماری اور بدحالی  تھی آج وہ ملک ترقی پزیر ممالک کیلئے رول ماڈل بن چکا ہے۔ مفلسی کم کرنے، صحت عامہ کے نظام کو بہتر بنانے، شہریوں کی اوسط عمر میں اضافہ کرنے، ناخواندگی کی شرح گھٹانے اور عورتوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں بنگلہ دیش نے جو کارنامہ انجام دیا ہے اس کیلئے اقوام متحدہ سمیت متعدد عالمی اداروں نے اس کی تعریف کی ہے۔ بنگلہ دیش جو ۵۰؍ سال قبل مکمل طور پر زرعی معیشت تھا، آج اس کی اکنامی کی گاڑی کو صنعت کا انجن تیزی سے کھینچ رہا ہے۔ بنگلہ دیش کے گارمنٹس کا ایکسپورٹ ۴۰؍ بلین ڈالر کے قریب پہنچ چکا ہے۔ بنگلہ دیش کی یہ بے مثال ترقی کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ لیکن آزادی کے بعد یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہوگیا۔ بنگلہ دیش کو کئی بار آگ کا دریا پار کرنا پڑا۔ نومولود ملک کو اوائل عمری میں ہی سیاسی قتل، بغاوتیں، فوجی آمریت جیسے دُکھ جھیلنے پڑے۔ آزادی کے محض تین برس بعد ’بابائے قوم‘ شیخ مجیب اور ان کی فیملی کے بیشتر افراد کو اگست ۱۹۷۵ء میں ایک فوجی ٹولے نے ان کے گھر کے اندر قتل کردیا۔ شیخ مجیب کی سب سے بڑی صاحبزادی حسینہ اس قیامت خیز  سانحے کے وقت جرمنی میں تھیں اس لئے بچ گئیں۔ قدرت کے کھیل نرالے ہوتے ہیں۔ مجیب نے ملک کو مغربی پاکستان کے جبر سے آزادی دلوائی اور ان کی بیٹی نے غریبی اور بدحالی سے۔
 مجیب کے قتل کے بعد طویل عرصے تک بنگلہ دیش سیاسی عدم استحکام اوربد نظمی کا شکار رہا۔ بڑی مشکلوں سے ننھے ننھے قدم اٹھاتا ہوا یہ ملک ۱۹۹۱ء میں جمہوریت کی راہ پر گامزن ہوا۔ پارلیمانی انتخابات کے ذریعہ جمہوری طریقے سے منتخب حکومت کی آمد سے ملک میں کسی قدر سیاسی استحکام پیدا ہوا۔ حالانکہ شدید نظریاتی اختلافات اور عدم رواداری کے باعث دونوں سیاسی حریف شیخ حسینہ واجد اور خالدہ ضیاء  کی عوامی لیگ اور بی این پی کے ورکرز کے درمیان متعدد تصادم اور تشدد کا بازار بھی گرم ہوا۔ اس سیاسی محاذ آرائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بنگلہ دیش کی ملٹری کی سرپرستی والی کار گزار حکومت ۲؍ برس ( ۲۰۰۶ء سے ۲۰۰۸ء تک)  اقتدار سے چمٹی رہی۔ اس دوران ۲۰۰۷ء میں شیخ حسینہ اور خالدہ ضیا دونوں کو کرپشن کے الزامات کے تحت حراست میں بھی لیا گیا۔ تاہم، سیاسی بحران کا جلد ہی خاتمہ ہوگیا اور ۲۰۰۸ء کے دسمبر میں عام انتخابات منعقد کئے گئے جن میں عوامی لیگ نے فتح حاصل کی۔ملک کے عوام نے حسینہ کو لگاتار تین بار راج سنگھاسن پر بٹھایا ہے اور ان کے ۱۱؍ سالہ دور اقتدار میں بنگلہ دیش نے حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ بہتر نظم و نسق اور سیاسی استحکام نے اس ترقی کو مہمیز کیا ہے۔ قحط سالی اور بھکمری والا ملک اب غذا ئی اجناس کی پیداوار میں کافی حد تک خود کفیل ہوچکا ہے اور گلوبل ہنگر انڈیکس میں اس کی پوزیشن ہندوستان سے کہیں بہتر ہے۔ ورلڈ بینک اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)  کے ورلڈ اکنامک آؤٹ لک نے پہلے ہی یہ اعلان کردیا تھا کہ اس سال بنگلہ دیش کی فی کس جی ڈی پی بھارت کی فی کس  جی ڈی پی سے آگے نکل گئی ہے۔آئی ایم ا یف کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان کی اکنامی اس سال ۱۰؍ فیصد سے زیادہ سکڑ جائیگی جبکہ بنگلہ دیش کی اکنامی میں چار فیصد کی ترقی ہوگی۔ اقوام عالم میں بھی بنگلہ دیش کا وقار اور رتبہ کافی بڑھ گیا ہے۔ امریکہ، چین، برطانیہ، فرانس، روس اور ہندوستان جیسے ممالک اس  کے ساتھ اپنے سفارتی، تجارتی، اقتصادی، ثقافتی اور اسٹریٹیجک تعلقات بہتر بنانے کیلئے کوشاں ہیں جبکہ پاکستان، جو   اپنے مشرقی بازو کو ایک بوجھ تصور کرتا تھا، شدید اقتصادی بحران کا شکار اور بین الاقوامی قرضوں تلے دبا ہوا ہے نیز ہر میدان میں پچھڑ گیا ہے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK