Inquilab Logo

بی بی سی کی دستاویزی فلم: زحمت یا رحمت؟

Updated: January 25, 2023, 10:05 AM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

بی بی سی کی دستاویزی فلم کے بہانے ایک بار پھر ہندو قوم پرستی کی آنچ تیز کی جاسکتی ہے اور مودی مخالفت کو ملک دشمنی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ مودی بھکت بی بی سی کی فلم کو ملک اورمعاشرے کو ایک بار پھر پولرائز کرنے کیلئے استعمال کرسکتے ہیں ۔

BBC film
بی بی سی فلم

ء ۲۰۱۴میں وزیر اعظم کے عہدے پر فائزہونے کے بعد نریندر مودی گجرات سے مستقل طور پر دہلی منتقل ہوگئے۔ انہوں نے تقریباً نو سال قبل گجرات چھوڑدیا تھا لیکن لگتا ہے گجرات نے مودی جی کا دامن آج تک نہیں چھوڑا ہے ورنہ مودی جی پر بنائی گئی بی بی سی کی ایک ڈاکیومنٹری فلم پر اتنا بڑا تنازع نہ کھڑ ا ہوتا۔
  گزشتہ ہفتے جب ’’انڈیا: دی مودی کوئشچن‘‘نام کی یہ دستاویزی فلم نشرکی گئی توحکومت ہند نے یہ الزام لگایا کہ یہ متعصبانہ پروپیگنڈہ ہے جس سے’نوآبادیاتی ذہنیت ‘ جھلکتی ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے رعونت سے کہہ دیا کہ بھارتی حکومت اس فلم کو کسی ردعمل کے لائق تک نہیں سمجھتی ہے۔لیکن حکومت کی یہ بے نیازی زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکی۔ جیسے جیسے متنازع فلم کی شہرت بڑھتی گئی ویسے ویسے نئی دہلی کی برہمی میں اضافہ ہوتا گیا۔ بی بی سی نے خود ہی اس فلم کو ہندوستان میں ٹیلی کاسٹ نہ کرنے کا فیصلہ کیا تاہم انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ہوشربا ترقی کے اس دور میں یو ٹیوب کے ذریعہ ہزاروں ہندوستانی شہریوں کی اس تک رسائی ہوگئی۔ حکومت نے اپنے ہنگامی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے سنیچر کے دن یوٹیوب اور ٹیوٹر پر اس فلم کو بلاک کرنے کا حکم صادر کردیا۔ جس فلم کو بالکل غیر اہم سمجھ کر حقارت سے مسترد کردیا گیا تھااب اس پر یہ الزام لگایا گیا کہ یہ سپریم کورٹ کے اختیار اور ساکھ پر حملہ کرنے اور ہندوستان کے مختلف طبقوں میں تفرقہ اور تقسیم پیدا کرنے کی ایک کوشش ہے۔ بی بی سی نے مودی سرکار کے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ کافی ریسرچ کے بعد بنائی گئی یہ فلم اعلیٰ ترین صحافیانہ اور مدیرانہ معیار پر کھری اترتی ہے۔ خود جیک اسٹرا نے جو ۲۰۰۲ء میں برطانیہ کے وزیر خارجہ تھے اور جن کے حکم پر سفارتی تحقیقات کی گئی تھی، بیس سال قبل کئے گئے اپنے فیصلے کو درست قرار دیا۔ 
 میں نے یہ فلم نہیں دیکھی ہے لیکن اس کے متعلق میڈیا میں جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کی روشنی میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ گجرات کےفسادات کا ایک تنقیدی جائزہ ہے۔ برطانیہ کی فارن آفس نے ۲۰۰۲ء میں گجرات دنگوں کی ایک سفارتی جانچ کروائی تھی۔ فلم میں جابجا اس تحقیقات کی رپورٹ کے حوالے دیئے گئے ہیں۔ رپورٹ میں دنگوں کو’تشدد کی ایسی منصوبہ بند مہم‘ قرار دیا گیا ہے جس میں’ نسلی طہارت‘ کی تمام علامات موجود تھی۔رپورٹ میں دعویٰ کیاگیا ہے کہ پولیس نے وزیر اعلیٰ کے حکم پر بلوائیوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی تھی۔
 ملک میں اور ملک کے باہر مودی کی جتنی زیادہ مخالفت اور مذمت ہوتی رہی، گجرات میں ان کی مقبولیت اتنی ہی زیادہ بڑھتی گئی۔ وہ ہر بار پہلے سے زیادہ بھاری اکثریت سے اسمبلی الیکشن جیتتے گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے بی جے پی میں ان کا قد بڑھتا گیا اور وہ کیڈرز کی نظروں میں ناقابل تسخیر ہیرو بن گئے۔میڈیا میں ہورہی منفی تشہیر کے باوجود مودی جی ملک کے چوٹی کے صنعت کاروں کی آنکھوں کا تارا بھی بن گئے۔ آخر کار ۲۰۱۳ء میں آر ایس ایس نے ایل کے اڈوانی، یشونت سنہا، جسونت سنگھ، ارون جیٹلی اور مرلی منوہر جوشی جیسے سینئر لیڈروں کو نظر انداز کرتے ہوئے اور ان کی پرزور مخالفت کے باوجودمودی جی کو بی جے پی کی طرف سے وزارت عظمیٰ کا امیدوار بنادیا۔ گجرات دنگوں کے بعدمودی جی کو بی جے پی، وی ایچ پی اور بجرنگ دل کے جوشیلے ورکرز نے ہندو ہردے سمراٹ کا جو خطاب دیا تھا اسے ہندوؤں کے ایک بڑے طبقے میں قبولیت حاصل ہوگئی اور اسی لئے آر ایس ایس نے مودی کی تاجپوشی کی تجویز کو خوشی خوشی منظوری دے دی۔یہ ہماری خام خیالی تھی کہ گجرات فسادات مودی کے گلے کا طوق بن جائیں گے۔ آپ اگرمودی جی کے بیس سالہ سیاسی سفرکا بغورجائزہ لیں تو آپ بہ آسانی یہ سمجھ سکیں گے کہ ۲۰۰۲ء مودی جی کیلئے ایک بیش قیمت اثاثہ ثابت ہوا ہے۔ اگر گجرات کا المیہ بی جے پی کے لئے ایک ذمہ داری ہوتا تو دوماہ قبل وزیر داخلہ امیت شاہ نے گجرات میں انتخابی مہم کے دوران فخریہ یہ دعویٰ نہ کیا ہوتا کہ ۲۰۰۲ء میں شرپسندوں کو ایسا ’ سبق سکھا دیا گیا‘ کہ اس کے بعد سے صوبے میں امن ہے۔
 بی بی سی کی اس دستاویزی فلم سے بھی مودی جی کو نقصان کے بجائے فائدہ پہنچنے کا ہی امکان زیادہ ہے۔ بی جے پی لیڈران، مودی بھکت اور درباری میڈیا بہت جلد ملک میں اس بیانیہ کو فروغ دے سکتے ہیں کہ یہ فلم وزیر اعظم کی شبیہ کو داغدار کرنے کے لئے بین الاقوامی سطح پر رچی گئی سازش کا حصہ ہے۔ اس فلم کے بہانے ایک بار پھر ہندو قوم پرستی کی آنچ تیز کی جاسکتی ہے اور مودی مخالفت کو ملک دشمنی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ مودی بھکت بی بی سی کی فلم کو ملک اورمعاشرے کو ایک بار پھر پولرائز کرنے کے لئے استعمال کرسکتے ہیں تاکہ ۲۰۲۴ء میں اس کا بھرپور انتخابی فائدہ اٹھاسکیں۔ 
 بین الاقوامی سطح پر بھی مودی جی کی ساکھ پر کوئی آنچ نہیں آنے والی ہے کیونکہ دنیا کا یہ وطیرہ ہے کہ وہ صاحب اقتدار کے پچھلے گناہوں سے مصلحتاً چشم پوشی کرلیتی ہے۔ویسے بھی سفارتی تعلقات اعلیٰ اخلاقی اقدار اور نظریات کے بجائے قومی مفاد کی بنیاد پر قائم کئے جاتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اسی امریکہ نے جس نے دس سال تک واشنگٹن میں مودی جی کے داخلے پر پابندی لگارکھی تھی ۲۰۱۴ء میں ان کے راج سنگھاسن پر بیٹھنے کے بعد وائٹ ہاؤس میں ان کا شاہانہ استقبال نہ کرتا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ۲۰۱۹ء کے بعد بھارت کے مسلمانوں کے مصائب میں اضافہ ہونے کے باوجود عرب ممالک میں مودی جی کی قدرو منزلت نہ بڑھتی۔
 یہ ذہن نشیں رہے کہ مودی جی اس ملک کے وزیر اعظم ہیں جسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور جو بہت جلد دنیا کی سب سے بڑی آبادی والا ملک ہونے جارہا ہے۔امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی نظروں میں ہندوستان کی اہمیت اس لئے بھی ہے کیونکہ وہ خطے میں اسے چین کے خلاف ایک مضبوط اتحادی تصور کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہے ہندوستان کے رقبہ، محل وقوع، آبادی، اکانومی اور تزویراتی اہمیت کی وجہ سے دنیا کا ہر ملک اس کے سربراہ کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آتا ہے۔ ذرا سوچ کر دیکھئے کہ بی بی سی گرچہ ایک آزاد نشریاتی ادارہ ہے لیکن اسے فنڈزبرطانوی حکومت ہی فراہم کرتی ہے۔ اس کے باوجود برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سونک نے اس فلم کے بیانیہ کو مسترد کردیا۔ سونک نے پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر مودی جی کا دفاع کیا اور یہ کہہ دیا کہ بی بی سی کے ذریعہ کی گئی مودی کی تصویر کشی سے وہ بالکل اتفاق نہیں کرتے ہیں۔

BBC Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK