آزادی کے بعد نہرو، اندرا گاندھی اور واجپئی جیسے قد آور سربراہان نے بین الاقوامی اسٹیج پر ہندوستان کو جو عزت و وقار دلایا تھا وہ آج مٹی میں مل چکا ہے۔ مودی سرکار کی متعصبانہ پالیسیوں اور بی جے پی اور آر ایس ایس کے کارکنوں کی کارستانیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں ہندوستان کے امیج کو بٹہ ّلگا ہے۔
جرمنی میں احتجاج ۔ تصویر : پی ٹی آئی
ہندوستان کی پارلیمنٹ کو ابھی تک دہلی کی حالیہ مسلم کش خوں ریزی پر بات کرنے کی فرصت نہیں ملی ہے لیکن برٹش پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اس موضوع پر مفصل بحث ہوچکی ہے اور نریندر مودی سرکار کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ایک ہندوستانی نژاد برطانوی رکن پارلیمنٹ نے تو صاف صاف کہ دیا کہ دہلی میں جو کچھ ہوا وہ ایک pogrom (کسی نسلی یا مذہبی جماعت کا منظم قتل عام) تھا اور اسے فساد یا دنگا کہنا غلط ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرنے والے ملک کے لئے اس سے زیادہ شرم کی بات اور کیا ہوسکتی ہے؟شرم کی بات تو یہ بھی ہے کہ امریکی بین الاقوامی مذہبی آزادی کمیشن یوایس سی آئی آر ایف میں بھی سی اے اے اور این آر سی جیسے متنازع قوانین اور دہلی کے انسانیت سوز مظالم پر طویل مباحثہ ہوا اور ہندوستان کو میانمار جیسے فوجی آمریت والے ملک کے ساتھ مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا۔ شرم کا مقام تو یہ بھی ہے کہ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی ہائی کمشنر یواین ایچ سی ایچ آر نے سپریم کورٹ میں ملک کی نئی شہریت ترمیمی قانون کو چیلنج کرتے ہوئے مقدمہ دائر کیا ہے۔ سی اے اے اور اس کے خلاف ہونے والے پر امن احتجاج پر پولیس ایکشن اور بی جے پی کے جنونی لیڈروں کی زہر افشانی کی وجہ سے ساری دنیا میں ہندوستان کی بے حد بدنامی ہورہی ہے۔ پہلے ہمارے ملک کو مستحکم جمہوری اقدار، انسانی حقوق کی پاسداری، سیکولرازم،مساوات اور قانون کی حکمرانی کے لئے دنیا بھر میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ لیکن آج ہم عالمی برادری کی نظروں سے گر گئے ہیں۔آزادی کے بعد نہرو، اندرا گاندھی اور واجپئی جیسے قد آور سربراہان نے بین الاقوامی اسٹیج پر ہندوستان کو جو عزت و وقار دلایا تھا وہ آج مٹی میں مل چکا ہے۔مودی سرکار کی متعصبانہ پالیسیوں اور بی جے پی اور آر ایس ایس کے کارکنوں کی کارستانیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں ہندوستان کے امیج کو بٹہ لگا ہے۔ دنیا میں ان اندیشوں کا اظہار کیا جارہا ہے کہ کہیں ہندوستان میں جمہوریت کی بیخ کنی اور سیکولرازم کا خاتمہ نہ ہوجائے۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی دہلی میں موجودگی کے دوران دنگائیوں نے ملک کو شرمسار کیا۔ لیکن ٹرمپ نے یہ کہہ کر مودی سرکار پر تنقید کرنے سے احتراز کیا کہ یہ ہندوستان کا داخلی معاملہ ہے۔ تین ارب ڈالر ان کی جھولی میں ڈال کر مودی نے ٹرمپ کا منہ تو بند کردیا لیکن وہ یہ بھول گئے کہ امریکہ انڈیا نہیں ہے جہاں حکومت کے سربراہ کی کہی ہوئی بات پتھر کی لکیر مانی جاتی ہے اور اس سے اختلاف کرنے والوں کو غدار کا لیبل لگا کر گولی ماردینے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔متعدد اہم اور معتبر امریکی اداروں اور سینٹ اور کانگریس کے اراکین نے دہلی تشدد کے لئے نہ صرف مودی سرکار کی مذمت کی ہے بلکہ خود اپنے صدر کو اس لئے لتاڑا ہے کہ انہوں نے اس کی مذمت کیوں نہیں کی۔ ان میں سے ایک پرمیلا جے پال بھی ہیں جو ایوان نمائندگان کی پہلی ہندوستانی نژاد خاتون رکن ہیں۔ ہندوستان میں تیزی سے بڑھتی مذہبی عدم رواداری کو بھیانک قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ناقابل قبو ل ہے کہ جمہوری حکومت تفریق اور تقسیم کو فروغ دے یا ایسے قانون بنائے جن سے مذہبی آزادی سلب ہو۔ ان کی اس وارننگ کو بھی سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے کہ دنیا سب کچھ دیکھ رہی ہے۔ یور پ اور امریکہ کے میڈیا میں بھی لگاتار کئی ماہ سے ہندوستان کے متعلق تنقیدی خبروں اور مضامین کو نمایاں طور پر شائع کیا جارہا ہے۔ مغرب میں تو مودی کی تنقیداور ہندوستان کی بدنامی ہوہی رہی ہے لیکن مسلم ممالک میں بھی دہلی کے قتل عام پر بے حد برہمی ہے۔ ترکی، ایران، ملیشیا اور انڈونیشیا جیسے اہم مسلم ممالک نے دہلی کے سانحے پربے حد غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ طیب اردگان نے تو یہ الزام لگایا کہ اس وقت ہندوستان ایک ایسا ملک بن چکا ہے جہاں ہندوؤں کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل عام اب عام ہوچکا ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے جب ایک مذمتی بیان ٹوئیٹ کیا تو وزارت خارجہ نے ایران کے سفیر کو طلب کرکے احتجاج درج کرایا۔ لیکن نئی دہلی کے اس جارحانہ ردعمل کا الٹا اثر ہوا۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے جو خاص خاص امور پر ہی زبان کھولتے ہیں، میدان میں اتر آئے۔ انہوں نے کہا کہ دہلی میں ہوئے مسلمانوں کے قتل عام سے سا ری دنیا کے مسلمان بے حد رنجیدہ ہیں۔ انہوں نے مودی سرکار کو ہندو انتہا پسندجماعتوں اور شرپسندوں پر لگام ڈالنے کا مشورہ دیتے ہوئے یہ انتباہ بھی کیاکہ ہندوستان، دنیائے اسلام میں الگ تھلگ نہ پڑجائے۔
سب سے بڑا مسلم ملک انڈونیشیا عموماً ہمارے معاملات میں مداخلت سے پرہیز کرتا ہے لیکن دہلی کی قتل و غارت گری پر وہ بھی خاموش نہ رہ سکا۔ بنگلہ دیش ہمارا قریبی دوست ہے اور شیخ حسینہ سے مودی کے بہت خوشگوار رشتے ہیں۔ بنگلہ دیش حکومت نے دہلی کے واقعات پر ردعمل کا اظہار تو نہیں کیا تاہم دہلی میں مسلمانوں پر ہوئے مظالم کی وجہ سے وہاں کے عوام کے جذبات اس قدر مشتعل ہیں کہ وہ ہزاروں کی تعداد میں ڈھاکہ کی سڑکوں پر نکل آئے،مودی کے خلاف نعرے لگائے اور یہ دھمکی دے ڈالی کہ وہ مودی کو بنگلہ دیش کی سر زمین پر قدم رکھنے نہیں دیں گے۔ یاد رہے مودی حسینہ کی دعوت پر شیخ مجیب الرحمٰن کی صد سالہ تقریبات میں شرکت کے لئے اگلے ہفتے ڈھاکہ جانے والے تھے۔ شاید عوامی برہمی کی وجہ سے ہی حسینہ نے تقریبات ہی منسوخ کردیئے لیکن بہانہ کورونا وائرس کابنایا۔ ایک دوسرے دوست ملک افغانستان میں بھی مودی حکومت کے خلاف عوامی مظاہرے ہورہے ہیں۔ او آئی سی نے بھی مسلمانوں کے قتل، ان کی املاک کی تباہی اور مساجد کی بے حرمتی کی شدید مذمت کی ہے ۔
مودی جی نے کہا تھاکہ انہیں مسلم ممالک کی بھاری حمایت حاصل ہے اور یہ بات کانگریس کو ہضم نہیں ہورہی ہے۔اگر ان کا یہ دعویٰ درست ہے تو پھر انہیں سوچنا چاہئے کہ ان ممالک کی جانب سے متنازع شہریت قانون اور دہلی تشدد پر اتنے شدید ردعمل کا اظہار کیوں کیا جارہا ہے۔ سوچنے والی بات تو یہ بھی ہے کہ ہم دہلی کے واقعات اور سی اے اے پر دوسرے ممالک کے تشویش کے اظہار کو داخلی امور میں مداخلت قرار دے کر ان ممالک کو دشمن سمجھنے کی غلطی تو نہیں کررہے ہیں۔ وزیر خارجہ ایس جے شنکر یہ بیان کہ ہمیں اب یہ پتہ چل رہاہے کہ ہمارے حقیقی دوست کون ہیں دراصل میرے اسی اندیشے کو تقویت پہنچاتا ہے کہ ہم تنقید کوحملہ تصور کررہے ہیں اور ناقدین کو دشمن سمجھ رہے ہیں۔